1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. جاوید چوہدری/
  4. کیا ضرورت تھی

کیا ضرورت تھی

میں اتفاق کرتا ہوں عدت میں نکاح کا کیس واقعی نہیں بنتا تھا، ریاست کو سیاسی معاملات کو اس سطح تک نہیں لانا چاہیے، توشہ خانہ، سائفر، 190ملین پائونڈز اور نو مئی کے مقدمات ہی کافی ہیں لہٰذا ایک بڑی سیاسی جماعت کے بین الاقوامی لیڈر کے گلے میں یہ ڈھول باندھنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ جرم نہیں تھا گناہ تھا اور گناہ اللہ اور بندے کے درمیان ہوتا ہے، اللہ چاہے تو معاف کر دے نہ چاہے تو نہ معاف کرے، ریاست کو سیاسی مقاصد کے لیے ایسے ایشوز میں نہیں الجھنا چاہیے لیکن یہاں اس سے بھی بڑا ایک سوال پیدا ہوتا ہے، یہ دین دار لوگ ہیں، عمران خان ریاست مدینہ تخلیق کرنا چاہتے تھے۔

بشریٰ بی بی مذہبی اور روحانی شخصیت ہیں، یہ پیدل چل کر سجدے کرتی ہوئی پاک پتن شریف جاتی تھیں، تہجد گزار بھی ہیں اور سارا دن اور ساری رات وظائف بھی کرتی ہیں، یہ بھی جانتی تھیں اور عمران خان بھی جانتے تھے ہمارے پاس 14 نومبر 2017ء کا طلاق نامہ ہے چناں چہ پھر انہیں یکم جنوری 2018ء کو (طلاق سے صرف 47دن بعد) نکاح کی کیا ضرورت تھی؟ یہ درست ہو سکتا ہے خاور مانیکا نے اپنی بیگم کو اپریل 2017ء میں زبانی طلاق دی تھی لیکن یہ بھی درست ہے اس طلاق کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی، قانون جب بھی مانے گا تحریری فیصلہ مانے گا اور تحریری فیصلہ 14 نومبر تھا لہٰذا آپ ڈیڑھ ماہ مزید انتظار کر لیتے، آخر کیا جلدی تھی؟ چلیے ہم اس معاملے میں عمران خان کو "گریس نمبر" دے دیتے ہیں۔

یہ ماڈرن انسان ہیں، یہ عدت جیسی مذہبی باریکیاں نہیں سمجھتے لیکن بشریٰ بی بی تو جانتی ہیں، انہیں اس حماقت کی کیا ضرورت تھی؟ ڈیڑھ ماہ بعد کیا قیامت آجانی تھی، آپ لوگ باقاعدہ دھوم دھام سے سرعام 18 فروری 2018ء کو نکاح کرتے، پارٹی اور فیملی کے لوگوں کو بلاتے تاکہ کوئی ابہام رہتا اور نہ مقدمہ بنتا، آخر اس میں کیا حرج تھا؟ کیا اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے بشریٰ بی بی کو خطرہ تھا اگر عمران خان نے اس دوران کسی سے مشورہ کر لیا یا اسٹیبلشمنٹ کو بھنک پڑ گئی تو یہ شادی نہیں ہو سکے گی لہٰذا انہوں نے عمران خان کو ٹریپ کرکے عدت میں نکاح کر لیا اور یہ مسئلہ پھر الجھتا چلا گیا، دوسرا یہ ایشو پیدا کس نے کیا تھا؟ یہ بات عون چودھری اور مفتی سعید سے نکلی اور یہ دونوں عمران خان کے قریبی ساتھی تھے، عون چودھری سائے کی طرح خان صاحب کے ساتھ رہتے تھے۔

یہ صبح آ کر خان کو جگاتے تھے اور رات سلا کر جاتے تھے، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی تک عون چودھری کی مرضی کے بغیر عمران خان سے ملاقات نہیں کر سکتے تھے جب کہ مفتی سعید پارٹی کی کور کمیٹی کا حصہ تھے، یہ لنکا انہی لوگوں نے ڈھائی تھی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے عمران خان کی لوگوں کے بارے میں کیا چوائس تھی؟ یہ لوگوں پر کس طرح اعتبار کرتے ہیں! دوسرا جب بشریٰ بی بی کی غلط بیانی خان کے سامنے آ گئی تو خان نے کیا کیا؟ خان نے بشریٰ بی بی کی بجائے ان لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا جنہوں نے اس غلطی کی نشان دہی کی تھی، آپ نے جہانگیر ترین کا پتا بھی کاٹ دیا۔

عون چودھری کو بھی فارغ کر دیا، مفتی سعید سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی اور اپنی بہنوں اور نعیم الحق سے بھی ناراض ہو گئے اور آخر میں یہ عدالت میں خاور مانیکا سے بھی لڑ پڑے، آپ نے ایک شخص کا پورا خاندان تباہ کر دیا، خاور مانیکا، اس کے بچوں اور اس کے رشتے داروں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا، مانیکا خاندان کے لوگوں نے اپنے نام کے ساتھ مانیکا لکھنا بند کر دیا لیکن اس کے باوجود مجرم بھی یہی ہیں، آپ انہیں ہی برا بھلا کہہ رہے ہیں، دوسرا سزا کے بعد بشریٰ بی بی بنی گالا چلی گئیں، یہ مریم نواز کی طرح انکار بھی کر سکتی تھیں مگر انہوں نے چپ چاپ رضا مندی دے دی، آج یاسمین راشد 73سال کی عمر اور بیماری کے باوجود جیل میں پڑی ہیں جب کہ بشریٰ بی بی عمران خان کو اطلاع دیے بغیر بنی گالہ میں ہیں لیکن اس کے باوجود قصور وار اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ہے، اس کی کیا تُک بنتی ہے؟

ہم اگر اس کینوس کو تھوڑا سا بڑا کر لیں تو پھر بے شمار سوال پیدا ہوتے ہیں، مثلاً میاں نواز شریف کو جب ملک سے باہر بھجوایا جا رہا تھا تو آپ اجازت نہ دیتے، آپ جانتے تھے جنرل فیض حمید اور شریف فیملی کے درمیان سیٹلمنٹ ہوگئی ہے لیکن اس کے باوجود معاملہ اٹکا ہوا ہے کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے نواز شریف سٹریچر پر باہر جائیں جب کہ میاں صاحب اپنے پائوں پر چل کر جہاز میں سوار ہونا چاہتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ آخر میں یہ مطالبہ ماننے پر مجبور ہوگئی، آئی بی نے وزیراعظم کو باقاعدہ اطلاع دی تھی اور اس راز سے شیخ رشید بھی واقف تھے چناں چہ آپ نے پھر نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت کیوں دی؟ آپ کو کیا ضرورت تھی! آپ انکار کر دیتے، اسی طرح 2021ء میں جب جنرل فیض حمید کو ٹرانسفر کیا جا رہا تھا تو آپ نے مزاحمت کیوں کی؟

یہ ایک عام سی ٹرانسفر تھی، ایک افسر کی جگہ دوسرا افسر آ رہا تھا لیکن آپ کا اصرار تھا جنرل فیض کو کور کی کمانڈ کے بغیر آرمی چیف کے لیے کوالی فائی کر دیا جائے، آپ کو اس لیول تک جانے کی بھی کیا ضرورت تھی؟ آپ کے اتحادی اور پارٹی کے لوگ بھی آپ کے رویے سے نالاں تھے، آپ ایم کیو ایم، چودھری شجاعت حسین اور اختر مینگل سے ملتے تک نہیں تھے، آپ راجہ ریاض اور نور عالم خان کی شکلوں سے واقف نہیں تھے، آپ نے پارٹی اور اتحادیوں کو جوڑ کر کیوں نہیں رکھا، آپ کے خلاف جب عدم اعتماد آ گئی تو آپ نے مردوں کی طرح اس کا مقابلہ کیوں نہیں کیا؟ آپ اکثریتی جماعت تھے، سینیٹ میں آپ کی اکثریت تھی، دو صوبوں اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی آپ کی حکومت تھی اگر آپ اپوزیشن میں بیٹھ جاتے تو پی ڈی ایم دو مہینے نہیں نکال سکتی تھی لیکن آپ نے پہلے قومی اسمبلی سے استعفے دے کر اور پھر دونوں صوبوں کی حکومتیں توڑ کر اپنے مخالفوں کے ہاتھ مضبوط کر دیے، آپ کو آخر اس کی بھی کیا ضرورت تھی؟ ہم اگر حماقتوں کی اس فہرست میں توشہ خانہ اور سائفر کو بھی شامل کر لیں تو صورت حال مزید دل چسپ ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کا وزیراعظم اور بشریٰ بی بی کو خاتون اول بنایا تھا، ہار، گھڑیاں اور انگوٹھیاں اس عہدے کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا آپ کو توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کرنے اور پھر یہ تحفے مارکیٹ میں بیچنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ سکینڈل جب بن گیا تھا تو بھی آپ تحائف واپس جمع کرا دیتے، آپ کو اس پر ڈٹنے کی کیا ضرورت تھی؟ سائفر پر بھی جب آپ کو بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ اور دوست روک رہے تھے تو آپ کو جلسے میں کاغذ لہرانے کی کیا ضرورت تھی اور جب کیس بن گیا تو پھر اس کاغذ کو جعلی کاغذ قرار دینے کی بھی کیا ضرورت تھی؟ آپ مردانہ وار مقابلہ کرتے، سچ تو یہ ہے جب گواہوں پر جرح کا وقت آیا تھا تو آپ کے وکلاء عدالت سے غائب ہو گئے اور جج نے سرکاری وکیل کھڑے کرکے آپ کو سزا دے دی، آپ کے وکلاء نے میرٹ پر کیس کیوں نہیں لڑا؟ آپ عقل کالیول ملاحظہ کیجیے، ایک طرف عدالتوں میں کیس چل رہے ہیں اور دوسری طرف آپ نے وکیلوں کو ٹکٹ دے دیے لہٰذا وہ الیکشن لڑیں یا آپ کے مقدمے چناں چہ یہ کیس بھی ہار گئے اور یہ اب الیکشن بھی ہار رہے ہیں۔

آپ کو یہ سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ ایک طرف امریکا کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور دوسری طرف آپ وہاں لابنگ فرمز بھی ہائر کرتے ہیں، کیوں؟ آپ کو نئے آرمی چیف کی تقرری رکوانے کی بھی کیا ضرورت تھی؟ جنرل باجوہ اگر میرجعفر اور میر صادق تھے تو پھر انہیں بار بار ایکسٹینشن آفر کرنے کی بھی کیا ضرورت تھی؟ ان کے ساتھ ایوان صدر میں چھپ چھپ کر ملاقاتیں کرنے کی کیا ضرورت تھی اور آخر میں 9مئی اور دس مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کی بھی کیا ضرورت تھی؟

کیا آپ واقعی یہ سمجھ بیٹھے تھے آپ جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہائوس لاہوراورشہداء کی یادگاروں پر حملے کریں گے اور فوج چپ چاپ سہہ جائے گی، کیا کوئی صحیح الدماغ شخص یہ سوچ سکتا ہے اور آخری بات آپ کو جب معلوم تھا الیکشن کمیشن آپ کو سپورٹ نہیں کرے گا تو پھر آپ کو جعلی انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ ٹھیک الیکشن کرا لیتے، کم از کم الیکشن کمیشن کے پاس جواز تو نہ ہوتا اور آخر میں جب مقدمہ سپریم کورٹ پہنچ گیا تھا تو آپ وکلاء کو تیاری کرا دیتے، آپ انہیں مکمل کاغذ ہی دے دیتے، وکلاء کا تماشا پوری قوم نے لائیو دیکھا لیکن اس کے باوجود عمران خان کا مطالبہ تھا فیصلہ میرے حق میں ہونا چاہیے اور آخر اس کی بھی کیا ضرورت تھی؟

عمران خان اگر کسی دن اپنی غلطیوں کا شمار شروع کریں گے تو یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ نے انہیں جتنا نوازا تھا یہ اپنے نصیب کی بالٹی میں اس سے زیادہ چھیدکر بیٹھے، یہ ہر بار موم کو دھوپ میں رکھ کر برف بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکامی پر الزام دوسروں پر تھوپ دیتے ہیں، آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کیا اس رویے سے پارٹی اور ملک چل سکتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے اس سے پکوڑے بھی نہیں بن سکتے جب کہ آپ ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں اور وہ بھی عدت میں نکاح کے ساتھ یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ عقل کو ہاتھ ماریں اور خدا رامزید حماقتیں بند کریں، آپ پہلے ہی اپنے کوٹے سے زیادہ کر چکے ہیں۔

جاوید چوہدری

جاوید چودھری پاکستان کے مایہ ناز اور معروف کالم نگار ہیں۔ ان کے کالم اپنی جدت اور معلوماتی ہونے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ وہ نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہیں۔ جاوید چودھری "زیرو پوائنٹ" کے نام سے کالم لکھتے ہیں اور ٹی وی پروگرام ”کل تک“ کے میزبان بھی ہیں۔ جاوید چوہدری روزنامہ جنگ کے کالم نگار تھے لیکن آج کل وہ روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز ٹیلیویژن سے وابستہ ہیں۔