1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. جاوید چوہدری/
  4. اب تو آنکھیں کھول لیں

اب تو آنکھیں کھول لیں

یہ14 جنوری کی رات تھی، پشاور کے سربند تھانے پر دستی بم سے حملہ ہوگیا، دھماکا ہوا اور پورا علاقہ لرز گیا، وائر لیس پر کال چلی اور ڈی ایس پی سردار حسین فوری طور پر تھانے پہنچ گئے، ان کے دو محافظ بھی ان کے ساتھ تھے، یہ لوگ گاڑی سے اترے، چند قدم لیے، دور سے فائر ہوا، سردار حسین زمین پر گرے اور گرتے ہی شہید ہو گئے، محافظ ابھی پوزیشن لے رہے تھے کہ مزید دو گولیاں چلیں اور وہ بھی نشانہ بن گئے، پولیس نے سربند تھانے کو نرغے میں لے لیا۔

تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا دہشت گردوں نے دو کلو میٹر دور سے ڈی ایس پی اور ان کے محافظوں کو نشانہ بنایا تھا، اس کے ساتھ ہی سوال پیدا ہوگیا دہشت گردوں نے رات کے اندھیرے میں دو کلو میٹر کے فاصلے سے تین لوگوں کو کیسے نشانہ بنا لیا؟ مزید تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا دہشت گردوں نے پہلے تھرمل ویپن سائٹ (Thermal Weapon Sight) سے تینوں کو لاک کیا اور پھر انھیں نائٹ ویژن رائفل کے ذریعے گولی مار دی، اس کے بعد سوال پیدا ہوا، یہ جدید ٹیکنالوجی صرف امریکا کے پاس ہے یہ دہشت گردوں کے پاس کیسے پہنچ گئی؟

پتا چلا امریکی فوج جاتے جاتے یہ ٹیکنالوجی افغانستان میں چھوڑ گئی تھی، یہ ان کے بعد طالبان اور تحریک طالبان پاکستان کے ہاتھ میں آ گئی، بھارت نے انھیں ٹریننگ دے دی اور یہ اب اسے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں استعمال کر رہے ہیں۔

تھرمل ویپن سائٹ جسمانی حرارت سے جان دار کی ہیت، سائز اور اعضاء کی تصویر بناتی ہے، شوٹر ہدف کے جسم کا کوئی عضو لاک کرتا ہے، ٹریگر دباتا ہے اور گولی گھپ اندھیرے میں بھی سیدھی ہدف کے جسم کے اس عضو کو نشانہ بنا دیتی ہے، یہ ٹیکنالوجی اور ٹریننگ دونوں اس وقت کالعدم ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) کے پاس موجود ہے اور یہ پچھلے چار ماہ سے اسے کے پی اور بلوچستان میں اندھا دھند استعمال کر رہی ہے، یہ ایک حقیقت ہے، آپ اب دوسری حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے۔

دہشت گردوں نے 30جنوری کو پولیس لائنز کی مسجد میں خود کش دھماکا کیا، اب تک کی اطلاعات کے مطابق دھماکے میں 101لوگ شہید اور 203 زخمی ہو چکے ہیں، ان میں 98 پولیس اہلکار ہیں، یہ تمام لوگ نمازی تھے، یہ ظہر کی نماز کے لیے مسجد میں جمع ہوئے تھے اوریہ اللہ کے گھر میں دہشت گردی کا لقمہ بن گئے۔

میں اس واقعے کی تفصیل کی طرف آنے سے پہلے آپ کو لوکیشن کے بارے میں بتاتا چلوں، پشاور کی پولیس لائنز صوبے کی ریڈزون ہے، یہ جی ایچ کیو جیسا حساس علاقہ ہے اور اس کے اندر اڑھائی تین ہزار پولیس اہلکار رہتے ہیں، پولیس لائنز کا گیٹ انتہائی محفوظ اور فول پروف ہے، گیٹ سے پہلے بھی پولیس کی ایک مورچہ پکٹ آتی ہے لیکن خود کش حملہ آور نے پکٹ بھی کراس کی اور وہ گیٹ سے بھی گزر کر سی سی پی او، ایس ایس پی، ایس ایس پی انویسٹی گیشن اور کمانڈنٹ کے دفتروں اور سیکیورٹی کے سامنے سے ہوتا ہوا مسجد تک پہنچ گیا۔

دہشت گردوں نے مسجد کی باقاعدہ ریکی بھی کی اور اس کے اسٹرکچر کی پڑتال بھی کی، مسجد کا اسٹرکچر انتہائی جدید اور مضبوط تھا، ہال کے نیچے ستون نہیں تھے، چھت دیواروں پر کھڑی تھی، خودکش حملوں سے عموماً چھت کا ایک آدھ حصہ متاثر ہوتا ہے اور باقی چھت محفوظ رہتی ہے جس کی وجہ سے زیادہ شہادتیں نہیں ہوتیں لیکن یہ حملہ اس قدر کیلکولیٹڈ تھا کہ حملہ آور یہ بھی جانتے تھے چھت کے نیچے ستون نہیں ہیں اور اگر اس کی مین دیوار گر جائے تو پوری چھت زمین بوس ہوجائے گی لہٰذا حملہ آور نے دھماکے سے ایک دیوار گرائی اور پوری چھت نیچے آ گئی اور لوگ فرش اور چھت کے درمیان پس کر شہید ہو گئے۔

اس دھماکے میں عمارتیں گرانے والا مواد بھی استعمال ہوا جس کے نتیجے میں پوری عمارت کھسک گئی چناں چہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں خود کش حملہ آور ہماری سیکیورٹی کی خامیوں سے بھی واقف تھے، یہ عمارت کے اسٹرکچرسے بھی آگاہ تھے اور یہ بارود کی قسمیں بھی جانتے تھے اور یہ دوسری حقیقت ہے اور آپ اب تیسری حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے، ہم آج 101لاشیں اٹھانے کے بعد بھی آپس میں لڑ رہے ہیں، ہم ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔

ہمارا دشمن ٹیکنالوجی میں ہم سے آگے ہے، یہ جدید ٹریننگ بھی لے چکا ہے، اس کے پاس بھارتی ڈالرز بھی ہیں اور یہ صوبے کے انتہائی حساس اور محفوظ ریڈزون میں بھی داخل ہو جاتا ہے جب کہ ہم ایک دوسرے کے منہ پر الزامات کاکیچڑ مل رہے ہیں اور یوں ملک تباہی کی انتہائی خوف ناک دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔

ہمیں یہاں رک کر چیزوں کا ایک بار پھر جائزہ لینا ہوگا، ہمیں دیکھنا ہوگا آخر ایشو کیا ہے اور ہم یہ ایشو حل کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمارے اس وقت تین بڑے ایشوز ہیں، پہلا ایشو بھارت ہے، ہم انڈیا سے 75 برسوں سے لڑ رہے ہیں، ہزاروں لوگ اب تک اس لڑائی میں جان دے چکے ہیں، ہم تین یا چار جنگیں بھی لڑ چکے ہیں لیکن کشمیر کا ایشو آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں یہ 1947میں تھا اور یہ حقیقت ہے پاکستان اور بھارت میں اگر اب جنگ ہوئی تو وہ ایٹمی ہوگی اور اس میں ہم بچیں گے اور نہ بھارت، یہ پورا خطہ تیزاب کا جوہڑ بن جائے گا لہٰذا ہمیں ایک ہی بار دل بڑا کر کے یہ مسئلہ ختم کرنا ہوگا۔

ہماری بقا اب اسی میں ہے ہم جلد سے جلد یہ مسئلہ حل کر لیں، بھارت کے اندر بھی ٹھنڈے دل و دماغ کے بااثر ہزاروں لوگ موجود ہیں، ہم انھیں انگیج کریں اور مسئلہ کشمیر بیس یا تیس برسوں کے لیے فریز کردیں، ہم اپنی سرحدیں کھولیں تاکہ لوگ آ اور جا سکیں اور یوں کلچرل میل ملاقاتیں ہو سکیں، ہمیں ماننا ہوگا ہم قید تنہائی کا شکار ہیں، ہم دنیا اور دنیا ہم سے دور ہے، ہم جب دوسرے لوگوں سے انٹریکٹ کریں گے تو ملک کی فضا بدل جائے گی جس سے ہمارے مزاج کی شدت اور نفرت دونوں کم ہو جائیں گی۔

ہمارا دوسرا مسئلہ افغانستان ہے، ہم طالبان کو پاکستان دوست سمجھتے ہیں، افغانستان کی موجودہ حکومت میں ہمارا بہت عمل دخل تھا، جنرل فیض حمید نے 2021 اور 2022 میں ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی اے کے ساتھ درجنوں مذاکرات کیے، یہ مولانا تقی عثمانی کی سربراہی میں علماء کرام کا وفد بھی لے کر کابل گئے تھے، اس دور میں ٹی ٹی پی کے کارکنوں کی فہرستیں بھی بنی تھیں، یہ لوگ خاندانوں سمیت کل 35 ہزار تھے۔

عمران خان کے دور کے آخری حصے میں ٹی ٹی پی کے مطالبات مان کر ان کے سو سے زائد لوگ پاکستانی جیلوں سے رہا بھی کیے گئے تھے اور ان کے ڈیڑھ ہزار لوگوں کو فاٹا اور کے پی میں واپس آنے اور آباد ہونے کی اجازت بھی دی گئی تھی، یہ حکمت عملی بعدازاں غلط ثابت ہوئی اور ہم آج اس کی فصل کاٹ رہے ہیں، ہمیں فوری طور پر اس کا ازسر نو جائزہ بھی لینا چاہیے۔

پاکستان نے 2007-8 میں کے پی سے دہشت گردی ختم کر دی تھی، یہ ہماری بہت بڑی کام یابی تھی لیکن آج یہ عفریت ایک بار پھر زیادہ شدت کے ساتھ واپس کیوں آ رہا ہے؟ ہمیں فوری طور پر اس کاجائزہ لینا ہوگا اور ڈھکن ایک بار پھر ٹائٹ کرنا ہوگا ورنہ دوسری صورت میں بہت دیر ہو جائے گی، افغانستان کی طالبان حکومت ہمارے ساتھ تعاون کر رہی تھی لیکن اس دوران ملک میں حکومت تبدیل ہوگئی اور ہم داخلی سیاسی افراتفری کا شکار ہو گئے۔

ہمیں فوری طور پر افغان حکومت کو دوبارہ انگیج کرنا ہوگا، ان کے کچھ مطالبات جائز ہیں مثلاً اشرف غنی کے دور میں پاکستانی سفارت خانہ روزانہ دو سے تین ہزار ویزے جاری کرتا تھا، ہم نے یہ تعداد کم کر دی ہے، ہمیں فوری طور پر اس کا جائزہ لینا ہوگا، یہ سرحد کے معاملے پر بھی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، ہمیں یہ کرنا چاہیے اور انھیں یہ شکوہ بھی ہے ہم بات چیت کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں، یہ شکوہ بھی غلط نہیں، ہم یہ بھی جانتے ہیں ٹی ٹی پی کے اندراس وقت گروپنگ ہے۔

ہمیں چاہیے ہم انھیں ایک بار پھر انگیج کریں اور اس تقسیم کا فائدہ اٹھائیں اور یہ مسئلہ اگر آپریشن سے حل ہوتا ہے تو آپریشن کریں اور اگر مذاکرات کاری گر ہوتے ہیں تو ہم مذاکرات کریں اور اگر بیک وقت دونوں کی ضرورت ہے تو دونوں کریں لیکن یہ ایشو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں، کیوں؟ کیوں کہ اگر بھارت ایک بار پھر افغانستان میں آ کر بیٹھ گیا تو ہمارے لیے اس سے نبٹنا مشکل ہو جائے گا اور ہمارا تیسرا اور بڑا مسئلہ ہمارا اندرونی خلفشار ہے۔

ہم بری طرح سیاسی اور معاشی افراتفری اور بے سمتی کا شکار ہیں، عمران خان پاپولر لیڈر ہیں لیکن ان کے پاس پاور نہیں ہے، یہ بنی گالا میں دو بم پروف کمرے بنا چکے ہیں، یہ عنقریب ان میں بیٹھ کر روزانہ اپنے ہی ملک پر گولہ باری کریں گے اوریوں ملک کا رہا سہا اسٹرکچر بھی تباہ ہوجائے گا، دوسری طرف حکومت کے پاس پاور ہے لیکن پاپولیرٹی نہیں ہے، عوام میں اس کے خلاف نفرت بڑھتی چلی جا رہی ہے، یہ صرف اپنی جان بچا رہی ہے اور تیسری طرف اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو کر بیٹھ گئی ہے۔

آج حالت یہ ہے چین، سعودی عرب اور یو اے ای ہماری اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں پاکستان کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں، ہمیں یہ ماننا ہوگا یہ ملک اس طرح نہیں چل سکے گا، اسٹیبلشمنٹ کو آگے بڑھ کر ان سب کو اکٹھا بٹھانا ہوگا اور اگر یہ لوگ اب بھی اپنی اپنی ضد اور انا کے مینار سے نیچے نہیں اترتے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کو ان کا بندوبست کرنا ہوگا، ملک آج آئی سی یو میں ہے، ہم اگر اب بھی آنکھیں نہیں کھولتے تو پھر ہم مکمل طور پر فارغ ہو جائیں گے۔

ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، دہشت گرد پشاور کی پولیس لائنز تک پہنچ چکے ہیں، راولپنڈی ان سے زیادہ دور نہیں ہے لہٰذا اب تو آنکھیں کھول لیں۔

جاوید چوہدری

جاوید چودھری پاکستان کے مایہ ناز اور معروف کالم نگار ہیں۔ ان کے کالم اپنی جدت اور معلوماتی ہونے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ وہ نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہیں۔ جاوید چودھری "زیرو پوائنٹ" کے نام سے کالم لکھتے ہیں اور ٹی وی پروگرام ”کل تک“ کے میزبان بھی ہیں۔ جاوید چوہدری روزنامہ جنگ کے کالم نگار تھے لیکن آج کل وہ روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز ٹیلیویژن سے وابستہ ہیں۔