1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. جاوید چوہدری/
  4. پاکستان ٹاؤن

پاکستان ٹاؤن

عرفہ شام کی طرف ترکی کا آخری شہر ہے، ترک اس شہر کو شانلی عرفہ یعنی شاندار عرفہ کہتے ہیں، یہ 1917ء تک شام کا حصہ تھا، حلب عرفہ سے صرف 50 کلو میٹر دور ہے، یہ اس دور میں حلب کی سب ڈویژن ہوتا تھا، ترکی آزاد ہوا تو شام کی سرحد پر واقع درجن بھر شہراس کا حصہ بن گئے، شام کے ان شہروں میں عرفہ، کلیس اور ریحان لی بھی شامل ہیں، عرفہ اور کلیس حلب کے قریب ہیں جب کہ ریحان لی اور ادلب میں چند کلو میٹر کا فاصلہ ہے، ریحان لی انطاکیہ ریجن کا بڑا شہر ہے۔

اتاترک نے آزادی کے بعد انتطاکیہ کا نام تبدیل کرکے خطائی رکھ دیا، خطائی، ریحان لی اور عرفہ یہ تینوں شہر انبیاء اور صوفیاء کرام کی گزر گاہیں اور قیام گاہیں تھے، یہ شہر چاروں مذاہب میں مقدس ہیں، عرفہ ماضی میں حران کہلاتا تھا، حضرت ابراہیمؑ عراق کے شہر اُر میں پیدا ہوئے، یہ ساڑھے تین سو سال کی عمر میں اپنی اہلیہ حضرت سارہؑ، اپنے والد تارخ (قرآن مجید نے انھیں آذر کے نام سے پکارا جب کہ باقی آسمانی کتابوں میں ان کا نام تارخ تحریر ہے) والدہ متلی بنت نمر اور بھتیجے حضرت لوطؑ کے ساتھ حران (عرفہ) تشریف لے آئے۔

حران میں نمرود کی حکومت تھی، نمرود خدائی کا دعوے دار تھا، حضرت ابراہیمؑ نے اس کی خدائی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، نمرود نے انھیں آگ میں جلانے کی سزا دے دی، اہل حران طویل عرصے تک لکڑیاں جمع کرتے رہے، وہ لوگ منت میں بھی لکڑیوں کی مانتے تھے، وہ کہتے تھے ہمارا فلاں کام ہوگیا تو ہم حضرت ابراہیمؑ کو جلانے کے لیے اتنی لکڑیاں صدقہ کریں گے، حران کا مرکزی میدان لکڑیوں سے اٹ گیاتو نمرود نے آگ جلائی، آگ پوری طرح دہک گئی تو حضرت ابراہیمؑ کو منجنیق میں رکھا اور پہاڑ سے آگ میں پھینک دیا، حضرت ابراہیمؑ جوں ہی آگ میں گرے، اللہ تعالیٰ نے آگ کو "ٹھنڈی ہو جا" کا حکم دے دیا۔

ایک روایت کے مطابق آگ پانی بن گئی اور لکڑیاں مچھلیوں میں تبدیل ہوگئیں، اللہ تعالیٰ نے بعد ازاں نمرود کے لشکر پر مچھروں کا عذاب بھجوا دیا، مچھر پورے لشکر کو چٹ کر گئے جب کہ ایک مچھر ناک کے ذریعے نمرود کے دماغ میں گھس گیا اور اسے سو سال تک دماغ کے اندر ڈستا رہا، نمرود مچھر سے بچنے کے لیے اپنے سر میں جوتے مرواتا تھا، وہ جوتے کھا کھا کر مر گیا۔

حضرت ابراہیمؑ اس کے بعد حران (عرفہ) سے شام اور فلسطین بھی گئے، مصر بھی تشریف لے گئے، مکہ مکرمہ بھی گئے اور آخر میں فلسطین میں انتقال فرما یا، حضرت ابراہیمؑ کا روضہ مبارک الخلیل نامی شہر میں ہے تاہم ان کی زندگی کا اہم ترین وقت عرفہ میں گزرا، عرفہ کی دوسری ہستی حضرت ایوبؑ تھے، یہ حضرت لوطؑ کی صاحبزادی کے صاحبزادے تھے، عرفہ کے رئیس تھے، دستر خوان وسیع تھا لیکن پھر ان پر آزمائش آئی، ان کے جسم میں کیڑے پڑ گئے، بدن سے ناقابل برداشت بو آتی تھی، دولت بھی ختم ہوگئی چنانچہ رشتے داروں نے انھیں اٹھایا اور شہر کے باہر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا، یہ اٹھارہ سال وہاں پڑے رہے۔

یہ سردیوں کی راتیں غار میں گزارتے تھے اور گرمیاں چٹیل میدان میں، اللہ کی یاد اور اہلیہ کے علاوہ ان کا کوئی مونس، کوئی ہمدرد نہیں تھا، اہلیہ لوگوں کے گھروں میں کام کرکے تھوڑے سے پیسے کماتی تھیں اور ان کے کھانے کا بندوبست کرتی تھیں، یہ اٹھارہ سال آزمائش برداشت کرتے رہے لیکن ہونٹوں پر حرف شکایت نہ آیا، آخر میں حضرت جبرائیلؑ تشریف لائے، انھیں پیغام دیا "آپ فلاں جگہ ایڑی ماریں"ایڑی ماری، پانی نکلا، پانی پیا، غسل کیا اور چند لمحوں میں صحت یاب ہو گئے، حضرت ایوبؑ کی آزمائش تاریخ اور آسمانی مذاہب میں صبر ایوبؑ کے نام سے مشہور ہے، حضرت ایوبؑ کا غار اور پانی کا چشمہ بھی عرفہ میں موجود ہے۔

میں جمعرات 13 جولائی 2017ء کو مجتبیٰ فیض اور امان اللہ کے ساتھ شانلی عرفہ پہنچا، ہم اسلام آباد سے استنبول آئے اور پھر چار گھنٹے کے وقفے کے بعد فلائیٹ لے کر عرفہ پہنچ گئے، عرفہ میں گرمی تھی، سورج آگ برسا رہا تھا، شام کی سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے شہر میں ساڑھے چھ لاکھ شامی مہاجرین آباد ہیں، یہ لوگ حلب سے تعلق رکھتے ہیں اور نسلاً کرد ہیں، حلب شام کا سب سے بڑا شہر تھا، یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں بھی شمار ہوتا تھا، شہر میں 59 لاکھ لوگ آباد تھے۔

خانہ جنگی شروع ہوئی اور یہ عفریت اس پورے شہر کو نگل گیا، لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے، عرفہ ان کی پہلی منزل تھی، ترکی نے ان مہاجرین کو پناہ بھی دی، خوراک بھی اور طبی امداد بھی، عرفہ کی سرحد کے دونوں طرف مہاجر کیمپ ہیں، یہ کیمپ انسانی المئے کی خوفناک داستانیں ہیں، ترکی نے اس المئے کو بڑی حد تک سنبھال رکھا ہے لیکن یہ جنگ سات سال سے جاری ہے اور یہ مزید بیس تیس برس چلے گی چنانچہ ترکی پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، جنگ سے قبل شام کی آبادی دو کروڑ 45 لاکھ تھی۔

جنگ کی وجہ سے 45 لاکھ لوگ مہاجر اور 70 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، شہر کے شہر تباہ ہو چکے ہیں، اسپتال، اسکول اور بازار ختم ہو چکے ہیں، خوراک، ادویات اور چھت سمیت ضرورت کی ہر چیز ناپید ہے، سڑکیں، پانی اور بجلی تک دستیاب نہیں، شام کی پوری نسل تعلیم اور روزگار سے محروم ہے، ترکی کی فلاح وبہبود کی غیر سرکاری تنظیم آئی ایچ ایچ نے شامی مہاجرین کے لیے بے تہاشہ کام کیا، یہ تنظیم 150 ملکوں میں کام کر رہی ہے، ترکی کے مخیر حضرات اس کے ڈونر ہیں۔

یہ تنظیم پاکستان کے ادارے خبیب فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر 20 سال سے پاکستان میں بھی کام کر رہی ہے، آئی ایچ ایچ نے زلزلے کے بعد پاکستان کو مکانات بھی بنا کر دیے اور یتیم خانے بھی بنائے، یہ تنظیم خبیب فاؤنڈیشن کو ہر سال چالیس سے پچاس کروڑ روپے امداد دیتی ہے، شامی مہاجرین کی ذمے داری بھی آئی ایچ ایچ نے سنبھال لی، قطر نے اس کو وسیع پیمانے پر امداد دی اور یہ لوگ عرفہ، کلیس اور ریحان لی میں مہاجرین کی خدمت پر جت گئے۔

یہ حقیقتاً ٹرینڈ، منظم اور سمجھ دار لوگ ہیں چنانچہ انھوں نے بڑی خوبصورتی سے یہ بحران کنٹرول کر لیا لیکن یہ بحران عالمی ہے اور کوئی ملک اکیلا یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتا چنانچہ ترکی نے عالم اسلام سے تعاون مانگ لیا، پاکستان کے مخیر حضرات نے اس ذمے داری کو محسوس کیا، جامعۃ الرشید، بنوری ٹاؤن اور کراچی کے کاروباری طبقے نے 20 کروڑروپے جمع کیے، خواتین نے کروڑوں روپے کے زیورات صدقہ کیے اور یہ ساری رقم خبیب فاؤنڈیشن کو دے دی۔

خبیب فاؤنڈیشن نے عرفہ، کلیس اور ریحان لی میں کام شروع کر دیا، ہم یہ کام دیکھنے کے لیے عرفہ پہنچے مگر ہمیں وہاں جا کر خاصی مایوسی ہوئی، یہ درست ہے خبیب فاؤنڈیشن پاکستان کی واحد تنظیم ہے جو اس وقت ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے کام کر رہی ہے، تنظیم کے چیئرمین ندیم احمد کے اخلاص میں بھی کوئی شک نہیں لیکن شاید انھیں ترکی میں مناسب ٹیم نہیں مل سکی یا پھر یہ فوکس نہیں تھے چنانچہ وہاں اتنا کام نظر نہیں آیا جتنا اسے نظر آنا چاہیے تھا، ہمیں وہاں جا کر یہ بھی محسوس ہوا یہ المیہ بڑا ہے، یہ اکیلی خبیب فاؤنڈیشن کے بس کی بات نہیں لہٰذا پاکستان کی حکومت، مخیر حضرات اور ویلفیئر کے دوسرے اداروں کو بھی اس کارخیر میں شریک ہونا چاہیے۔

پاکستان کوشام میں کسی ایک شعبے تک محدود بھی ہونا پڑے گا، میری ناقص رائے میں آئی ایچ ایچ شامی مہاجرین کے لیے دو کمروں کے چھوٹے چھوٹے گھر بنا رہی ہے، ایک گھر چھ ہزار ڈالر (چھ لاکھ روپے) میں بن جاتا ہے، ہم اگر شام میں"" کے نام سے منصوبہ شروع کریں، ہم آئی ایچ ایچ کے ساتھ مل کر سوسو گھروں کے یونٹس پر مشتمل ہزار گھر بنا دیں، یونٹ میں اسکول، اسپتال، مارکیٹ اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹر بھی ہوں اور ضرورت کی دیگر اشیاء بھی تو یہ شامی مہاجرین کی بہتر خدمت بھی ہوگی اور ہمارا کام بھی دنیا کو نظر آئے گا۔

ہم نے موجودہ طریقہ کار کے تحت وہاں بیس کروڑ روپے بھی لگا دیے اور یہ نظر بھی نہیں آرہے اور یہ کسی کے نوٹس میں بھی نہیں ہیں، ترکی اور شام دونوں پاکستان کی اس امداد سے ناواقف ہیں چنانچہ ہمیں زیادہ فوکس ہو کر کام کرنا ہوگا، میری ملک ریاض سے درخواست ہے یہ ترک حکومت سے رابطہ کریں، یہ آئی ایچ ایچ کے ساتھ شامل ہوں اور یہ کے نام سے سو گھروں کا پہلا یونٹ بنا دیں۔

یہ یونٹ پاکستان کے دوسرے مخیر حضرات کو راستہ دکھا دے گا یوں شام اور ترکی کی مدد بھی ہو جائے گی اور پاکستان کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہوگا، حکومت بھی دکھ کی اس گھڑی میں ترکوں کی مدد کر سکتی ہے، یہ دس ہزار خاندانوں کی ذمے داری اٹھا لے، یہ دس ہزار خاندان پاکستان لائے جائیں اور یہ دس ہزار پاکستانی خاندانوں کے حوالے کر دیے جائیں، ہم ان خاندانوں کی نگہداشت کریں، شام کے حالات ٹھیک ہو جائیں تو یہ خاندان اپنے وطن واپس لوٹ جائیں، یہ بھی بہت بڑی خدمت ہوگی۔

ہمیں عرفہ میں جگہ جگہ قطر کی امداد کے ثبوت ملے، روٹی پلانٹ، بیکریوں، ووکیشنل سینٹرز، اسپتالوں اور اسکولوں سے لے کر یتیم خانوں تک ہر جگہ قطر ہی قطر تھا، قطرکاہر کام انتہائی جدید اور خوبصورت تھا، ہم قطر کی بنائی عمارتیں دیکھ کر حیران رہ گئے، ہمارے دل سے ان لوگوں کے لیے دعا نکلی۔

جاوید چوہدری

جاوید چودھری پاکستان کے مایہ ناز اور معروف کالم نگار ہیں۔ ان کے کالم اپنی جدت اور معلوماتی ہونے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ وہ نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہیں۔ جاوید چودھری "زیرو پوائنٹ" کے نام سے کالم لکھتے ہیں اور ٹی وی پروگرام ”کل تک“ کے میزبان بھی ہیں۔ جاوید چوہدری روزنامہ جنگ کے کالم نگار تھے لیکن آج کل وہ روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز ٹیلیویژن سے وابستہ ہیں۔