1. ہوم/
  2. مختصر/
  3. مرزا یاسین بیگ/
  4. دُم دیکھ کر رشک آتا ہے

دُم دیکھ کر رشک آتا ہے

مجھے جانوروں پہ رشک آتا ہے، جب بھی ان کی دُم دیکھتا ہوں۔ جانور انسان پر فوقیت رکھتا ہے اپنی دُم کی وجہ سے۔ ہر جانور کی دُم اپنی الگ شان اور فخر رکھتی ہے۔ ان کا ہلنا اور ہلانا بھی اپنے اپنے انداز کا ہوتا ہے۔ جانور جب دُم اٹھاتا، بٹھاتا، لٹاتا، دباتا اور ہلاتا ہے تو گویا اپنا جانوری اظہار کررہا ہوتا ہے۔ دُم موٹی، چھوٹی، لمبی اور پتلی ہوتی ہے مگر ہر دُم اپنی مرضی کے تابع ہوتی ہے۔

دُم کی چال چلن جانور کی طبیعت و فطرت کو ظاہر کرتی ہے۔ جانور اپنی دُم سے انسان کو سدھانے کا کام لیتے ہیں۔ جب وہ انسان کو دیکھ کر دُم ہلاتے ہیں تو انسان کا خوشی کے مارے دَم نکل جاتا ہے اور اسے اس جانور پر پیار آنے لگتا ہے اور جانور اپنا کام نکلوا لیتا ہے۔ گائے، بھینس اور دیگر حلال جانوروں کی دُم انسان کھاتے بھی ہیں۔

دُم نہ ہوتی تو انسان کے بہت سے کام ادھورے رہ جاتے جیسے وہ کسی کا دُم چھلٌا بننے سے رہ جاتا۔ ستارے کی ایک قسم کا نام دم دار ستارہ رکھ نہ پاتا۔ دُم میں گھسے رہنے کی عادت کا بھی پتہ نہ چلتا۔ دُم سے لگے رہنے کی بھی تشریح نہ ہوپاتی۔ غرض یہ کہ جانوروں کی دُم نے انسان کا بہت بھلا کیا ہے۔

انڈروئیر کا تصور بھی لگتا ہے دُم دیکھ کر ہی پیدا ہوا ہے۔ دُم پر پیر رکھنے کا خیال بھی دُم ہی کی بدولت جنم لےسکا۔ انسان کچھ بھی کرلے مگر اپنی دُم نہیں لگاسکتا۔ اسے دُم دیکھنے کیلئے جانور ہی کے پاس جانا پڑتا ہے۔