1. ہوم
  2. افسانہ
  3. عابد حسین راتھر
  4. شمع ابھی باقی ہے

شمع ابھی باقی ہے

کمرے کے کونے میں رکھی میز پر بند لائٹ اور گرد آلود کتابیں شازیہ کی زندگی کا آئینہ تھیں۔ ایک زمانہ تھا جب وہ انہی کتابوں کے ساتھ جیتی تھی اور اب وہی کتابیں بند ہو چکی تھیں، جیسے زندگی نے اپنا مقصد کھو دیا ہو۔ وہ کتابیں جو کبھی شازیہ کی تشنگی کو بجھانے کا کام کرتی تھیں اب ان کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مایوسی چھا جاتی تھی۔

شازیہ، دو بچوں کی ماں، گزشتہ دس برس سے وادی کے مختلف گورنمنٹ کالجوں میں بطور عارضی لکچرر کام کر رہی تھی۔ ہر سال کنٹریکٹ کی تجدید کے ساتھ امید کی کرن پیدا ہوتی اور ہر سال اس کے ختم ہونے پر مایوسی کی سیاہی گہری ہو جاتی۔ اسے بارہا کہا گیا کہ آپ قابل ہیں، محنتی ہیں، مگر اعلٰی تعلیم کے شعبے میں مستقل پوسٹ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس نے کبھی شکایت نہیں کی کیونکہ پڑھانا اس کے لیے نوکری نہیں بلکہ ایک مقدس فرض تھا۔ ایک ایسا فریضہ جو اس کی روح کو تقویت اور دل کو تسکین فراہم کرتا تھا۔

مگر اس سال جب کنٹریکٹ ختم ہوا تو اسے خاموشی سے دروازہ دکھا دیا گیا۔ بغیر شکریہ، بغیر الوداع۔ کالج کی عمارت سے نکلتے وقت اس نے آخری بار مڑ کر دیکھا۔ ایک بار پھر دل میں کچھ ٹوٹ سا گیا تھا مگر کوئی آواز نہیں آئی۔ ایک بار پھر سے کالجوں میں پڑھانے کیلئے درخواستیں طلب کی گئی۔ ایک بار پھر سے امیدواروں کو ایک سال کیلئے عارضی طور پر کالجوں میں پڑھانے کیلئے تعینات کیا گیا۔ لیکن اس بار شازیہ کا نمبر نہیں آیا۔ مَیرٹ لسٹ میں زیادہ نمبرات کی وجہ سے نئے امیدواروں نے شازیہ کی جگہ لے لی۔ اس کے بعد جیسے زندگی رُک گئی۔ کچن، بچوں کی کاپیاں، دھلائی، صفائی، مگر دل کہیں نہیں لگتا تھا۔

شازیہ کی زندگی ایک بند گلی جیسی ہوگئی جہاں آگے جانے کا کوئی راستہ نہیں اور پیچھے پلٹنے کا کوئی جواز نہیں۔ گھر میں بیٹھنے کی وجہ سے شازیہ کے دل میں ایک چبھن سی اٹھی جس نے اس کے سکون کو چھین لیا۔ اس کے دو چھوٹے بچوں کی آنکھوں میں ہر وقت ماں کی مسکراہٹ تلاش رہتی تھی، مگر شازیہ کے چہرے پر اب اکثر خالی پن اور تھکن کا سایہ ہوتا۔

چند ہفتوں بعد اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کو دوبارہ زندہ کرے گی۔ وہ ایک چھوٹے سے پرائیویٹ اسکول میں بطور استانی شامل ہوگئی جہاں تنخواہ برائے نام تھی۔ بچوں کی معصوم باتیں، چیخ پکار، تختی پر چاک کی آواز، ان سب میں اسے زندگی کی تھوڑی تھوڑی رمق دکھائی دینے لگی۔ دل ہی دل میں وہ بہت خوش تھی کہ کم از کم وہ پھر سے پڑھا رہی ہے۔

مگر یہ خوشی بھی کم معاوضے کے ساتھ زیادہ دیر ساتھ نہ دے سکی۔ مہینے کے آخر میں جب بجلی کا بل، بچوں کی فیس، راشن کی فہرست اور گھر کے باقی اخراجات کی لسٹ ہاتھ میں آتی تو اس کی آنکھوں میں وہی پرانی بےبسی اتر آتی۔ بالآخر مجبوری نے جذبے کو شکست دی اور اس نے استعفا دے دیا۔ یہ فیصلہ اگرچہ اس کے لیے آسان نہ تھا، لیکن حالات نے اس کے ارادے کو توڑ دیا۔

اب وہ زیادہ تر گھر پر ہی رہتی۔۔ کبھی تھکن کا بہانہ، کبھی بخار، کبھی دل کا بوجھ۔ بچوں کو اسکول بھیج کر وہ بس چھت کو گھورتی رہتی۔ دل میں مسلسل ایک خالی پن تھا۔ ایسا خلا جسے کوئی دوا، کوئی نیند اور نہ ہی کسی کی بات بھر سکتی تھی۔ ایسے ہی ایک دن دوپہر کے وقت جب سورج باہر جھلسا رہا تھا اور شازیہ بستر پر بےجان سی لیٹی تھی، دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ وہ چونکی نہیں۔ بس سوالیہ انداز میں پکارا: "کون؟"

دروازہ آہستہ سے کھلا اور بارہ تیرہ سال کی ایک دبلی پتلی سی لڑکی اندر داخل ہوئی۔ وہ گھبرا رہی تھی، جیسے کسی مقدس مقام پر بغیر اجازت آ گئی ہو۔

"میڈم شازیہ؟" اس نے دھیمی آواز میں کہا۔

"جی؟ تم کون ہو؟"

"میں فاطمہ ہوں، آپ کے اسکول سے، وہ، آپ ہمیں اردو پڑھاتی تھی۔ کل یوم استاد پر اسکول میں ایک تقریری مقابلہ ہے اور میں چاہتی ہوں کہ آپ میری مدد کریں، کچھ لکھ دیں"۔

شازیہ نے پلکیں بند کیں۔ دل جیسے کسی بوجھ کے نیچے دبا ہو۔ "بیٹا، میں بیمار ہوں، تھکی ہوئی ہوں، معذرت، ابھی ممکن نہیں"۔

فاطمہ نے مایوسی سے سر ہلایا۔ "ٹھیک ہے، میڈم"۔ وہ آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔ جوتوں کی چاپ کمرے سے دور ہونے لگی۔

شازیہ نے کروٹ بدلی۔ ایک پل کے لیے دل میں خاموشی چھا گئی، پھر جیسے کسی نے اندر سے دستک دی: "تم نے برسوں علم بانٹا، کیا اب تمہارے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں؟ جس کام کے لیے اللہ نے تمہیں چنا، اسے کیوں چھوڑ رہی ہو؟"

دروازہ تقریباً بند ہونے ہی والا تھا جب شازیہ کی آواز آئی:

"فاطمہ، رکو!"

لڑکی پلٹی، امید کی جھلک اس کی آنکھوں میں دوبارہ جاگ گئی۔

"آؤ بیٹا، بیٹھو۔ بتاؤ، موضوع کیا ہے؟"

"استاد کی اہمیت" فاطمہہ نے کہا۔

شازیہ کے ہونٹوں پر پہلی بار کئی دنوں بعد مسکراہٹ آئی۔ اس نے کاغذ اور قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کیا۔ جیسے برسوں کی تھکی ہوئی روح کو نئی توانائی مل گئی ہو۔ الفاظ اس کے اندر سے بہتے چلے آ رہے تھے۔ ہر جملہ جیسے اس کے دل کا ٹکڑا ہو۔

تقریر مکمل ہوئی، تو فاطمہ نے شکر گزاری سے شازیہ کا ہاتھ تھاما: "میڈم، آپ نے میرے لیے بہت بڑا احسان کیا"۔

شازیہ نے ہلکے سے سر ہلایا، لیکن دل میں ایک خوشبو سی پھیل گئی۔ وہ خوشی جو تنخواہ یا شہرت سے نہیں، کسی کو کچھ سکھانے سے ملتی ہے۔

دو دن بعد دوپہر کو شازیہ گھر کے کام میں مصروف تھی کہ اچانک کسی نے دروازے پر پھر سے دستک دی۔ شازیہ نے دروازہ کھولا تو فاطمہ ہنستی ہوئی اندر داخل ہوئی۔

"میڈم! میں جیت گئی!" اس نے خوشی سے چہک کر کہا، "پہلی پوزیشن!"

اس کے گلے میں تمغہ تھا اور ہاتھ میں سرٹیفکیٹ۔ وہ دوڑ کر شازیہ کے قریب آئی اور میڈل اتار کر اس کے قدموں میں رکھ دیا۔

"یہ آپ کا ہے، میڈم"۔

شازیہ کے لبوں پر کپکپاہٹ پھیل گئی، آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ وہ میڈل کو ہاتھ میں لے کر دیر تک دیکھتی رہی، جیسے برسوں بعد کسی نے اس کے زخموں پر مرہم رکھا ہو۔

"بیٹا، یہ تمہاری محنت کا پھل ہے"۔

"نہیں، میڈم، یہ آپ کا علم، آپ کی رہنمائی اور آپ کا جذبہ ہے جس نے مجھے جتوایا"۔

شازیہ نے اسے گلے لگا لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، مگر یہ آنسو اداسی کے نہیں تشکرکے تھے۔ برسوں کا درد، محرومی، بےقدری، سب ان آنسوؤں میں بہہ گیا۔ دل کا ایک بوجھ جیسے ہٹ گیا ہو۔ اس لمحے اسے یوں لگا جیسے رب نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا ہو اور کہا ہو:

"شازیہ، تم اب بھی قیمتی ہو، تمہارا علم اب بھی روشنی دے سکتا ہے"۔

اس لمحے شازیہ کو احساس ہوا کہ چراغ بجھنے سے پہلے بھی روشنی بانٹ سکتا ہے اور شاید اسی روشنی سے کئی زندگیوں کے اندھیرے چھٹ سکتے ہیں۔ اس دن سے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پھر سے اپنے علم کی شمع جلائے گی، خواہ چھوٹے بچوں کو پڑھا کر، یا گھروں میں جا کر، یا فلاحی اداروں میں۔ کیونکہ کسی کو کچھ سکھانا، کسی کا مستقبل سنوارنا صرف روزگار نہیں، عبادت ہے۔