1. ہوم
  2. افسانہ
  3. عابد حسین راتھر
  4. اندھیروں میں چاند

اندھیروں میں چاند

صبح کی ٹھنڈی ہوائیں کھڑکی سے اندر آرہی تھی مگر عمیر کے دل کا بوجھ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ کمرے کے ایک کونے میں رکھی ہوئی چھوٹی سی میز پر اس کے دستاویزات کی فائل رکھی تھی، جس میں ریاضی میں اول درجے کی پوسٹ گریجویشن اور بی ایڈ کی اسناد احتیاط سے کَور کے اندر بند تھیں۔ کبھی کبھی وہ اس کَور کو کھول کر اپنی ڈگریوں پر نظر ڈالتا اور پھر واپس بند کر دیتا جیسے کوئی انسان کسی گہرے زخم کی پٹی کو کھول کر اس سے کریدنا شروع کرتا ہے اور درد محسوس ہوتے ہی دوبارہ پٹی بند کرکے زخم کو چھپا دیتا ہے۔

بے روزگاری نے اس کی زندگی کو اجیرن بنا کے رکھا تھا۔ اس کی بہن بھی جوانی کی اُس دہلیز پر کھڑی تھی جہاں لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو جایا کرتے ہیں، مگر اس کے ہاتھ اب تک سادہ تھے۔ اس کا باپ بھی بڑھتی عمر کے ساتھ نہایت کمزور ہوگیا تھا اور مزدوری کے قابل نہ رہا تھا۔ ماں کی زندگی اب بیماری اور دوائی کے بیچ جھولتی ایک کہانی بن چکی تھی۔ غربت نے اس گھر کو اپنا مستقل پتہ بنا رکھا تھا، جیسے اب اسے کہیں اور جانا ہی نہ ہو۔

عمیر کے والد صاحب اپنے کمرے کے ایک کونے میں تکیہ کے سہارے نیم دراز لیٹے کھانس رہے تھے۔ کھانسی کے دورے جیسے ان کے سینے میں بسی کسی پرانی کہانی کو باہر نکالنے کی ضد کر رہے تھے۔ کچن میں اس کی بہن چائے بنانے میں مصروف تھی۔ دودھ کے چھوٹے سے پیکٹ کو دیکھ کر وہ حساب لگاتی جا رہی تھی کہ یہ پیکٹ کتنے دن چلے گا۔ اس کی ماں قریب ہی بیٹھ کر کمزور ہاتھوں سے گھر کے کاموں میں اپنی بیٹی کا یوں ساتھ دے رہی تھی جیسے اپنی اداس اور ٹوٹتی سانسوں سے گھر کی بکھرتی دیواریں تھام رہی ہو اور عمیر اپنے کمرے میں اداس بیٹھا اس سوچ میں گم تھا کہ شاید اس کی ڈگری کا وزن اس کے خالی جیب سے زیادہ ہلکا ہے۔

"بیٹا"، ماں نے عمیر کے کمرے کے دروازے کے پاس آ کر دھیرے سے کہا، "کل تم شاید کسی اسکول میں گئے تھے نا، کوئی بات بنی؟"

عمیر نے نظریں جھکا کر کہا، "امی، بہت سارے اسکولوں کے چکر لگائے۔ بس وہی، بارہ پندرہ ہزار کی بات کرتے ہیں۔ اس میں گھر کیسے چلے گا؟"

ماں نے چپ رہنے میں ہی عافیت جانی۔ کچن کی طرف پلٹتے ہوئے ان کی سانس بھاری ہوگئی۔

گھر کی خاموشی میں غربت کی چاپ اتنی واضح تھی کہ عمیر کو محسوس ہو رہا تھا جیسے ہر دیوار یہ کہہ رہی ہے، کچھ کرو، ورنہ سب ٹوٹ جائے گا۔

اگلے دن وہ فائل بغل میں دبائے دوبارہ شہر کے مختلف پرائیوٹ اسکولوں کے چکر لگانے لگا۔ کچھ جگہ خوش اخلاقی سے انٹرویو لیا گیا، کچھ جگہ صرف ایک نظر دیکھ کر کہا گیا، "ہم آپ کو اطلاع دیں گے" لیکن وہ اطلاع پھر کبھی نہیں آتی۔ ہر بار جب تنخواہ کی بات ہوتی، وہی ایک جملہ سننے کو ملتا:

"بارہ ہزار"

"پندرہ ہزار"

اور عمیر سوچتا، یہ کیسا مذاق ہے؟ تعلیم کا یہ صلہ؟ آج بھی دن بھر کسی پرائیوٹ اسکول میں نوکری ڈھونڈنے میں ناکامیابی کے بعد وہ شام کو تھکا ہارا گھر کو واپس لوٹا۔ شام کا کھانا کھاتے وقت اس سے ایک نسبتاً بڑے اسکول سے کال آئی۔ "کل صبح دس بجے آ جائیں، انٹرویو ہے"۔

وہ رات بھر سو نہ سکا۔ دل میں امید کی چنگاری پھر سے روشن ہوگئی۔

اگلی صبح وہ پوری تیاری کے ساتھ اسکول پہنچا۔ استقبالیہ پر بیٹھی لڑکی نے مسکرا کر کہا: "آپ عمیر صاحب ہیں نا؟ پرنسپل صاحب انتظار کر رہے ہیں"۔

عمیر پرنسپل کے کمرے میں داخل ہوا تو قالین کی خوشبو، میز پر تازہ پھول اور کمرے میں ہر چیز کی ترتیب نے اسے ایک لمحے کو مطمئن کر دیا۔ انٹرویو رسمی سوالات سے شروع ہوا۔ پرنسپل صاحب نے عمیر سے مختلف سوالات پوچھے اور عمیر نے اطمینان کے ساتھ ہر سوال کا صیح جواب دیا۔ آخر میں پرنسپل صاحب نے پوچھا:

"تو عمیر صاحب، آپ کی توقعات کیا ہیں تنخواہ کے حوالے سے؟"

عمیر نے ہمت کرکے کہا: "سر، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں پوری محنت اور ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کروں گا۔ لیکن میرے کاندھوں پر گھر کی ساری ذمہ داریاں زیادہ ہیں، کم از کم پچیس ہزار کی امید رکھتا ہوں تاکہ میرا بھی گزارہ ہو"۔

پرنسپل نے ہلکا سا قہقہہ لگایا، "پچیس تو ذرا زیادہ ہیں، لیکن دیکھیں، بیس یا بائیس تک ہم کوشش کر سکتے ہیں۔ میں اسکول منیجمنٹ کمیٹی سے بات کرکے آپ کو فون پر اطلاع دوں گا"۔

عمیر نے دل میں اللہ کا شکر ادا کیا اور کمرے سے باہر آ گیا۔ اس بار اسے لگا جیسے قسمت واقعی ساتھ دے رہی ہے۔ گھر پہنچتے ہی اس نے اپنے گھر والوں کو خوشخبری سنادی اور وہ بھی مطمئن ہوگئے کہ اس بار شاید قسمت ان کا ساتھ دے گی۔

دس دن گزر گئے۔ پھر پندرہ۔ مگر کوئی فون نہ آیا۔ آخرکار اس نے خود پرنسپل کو فون کیا: "سر، میں عمیر بول رہا ہوں، جس کا آپ نے ریاضی پڑھانے کے لیے انٹرویو لیا تھا، اسکول جوائن کرنے کے بارے میں کچھ اطلاع ملی؟"

دوسری طرف چند لمحے خاموشی رہی، پھر پرنسپل کی سرد آواز آئی: "جی یاد آیا، عمیر صاحب میں معافی چاہتا ہوں لیکن کمیٹی نے ایک خاتون امیدوار کو رکھ لیا ہے۔ وہ دس ہزار ماہانہ تنخواہ پر راضی ہوگئی"۔

عمیر کے ہونٹ خشک ہو گئے۔ "جی، ٹھیک ہے سر" کہہ کر فون بند کر دیا۔

کمرے میں واپس آ کر وہ دیر تک بیٹھا رہا۔ ماں نے قریب آ کر پوچھا، "کیا ہوا بیٹا؟"

اس نے نظر اٹھا کر دیکھا، پھر نظریں جھکا لیں، "کچھ نہیں امی، وہ جگہ کسی اور کو مل گئی"۔

رات کو بستر پر لیٹے لیٹے وہ سوچتا رہا۔

کیا وہ خاتون مجھ سے زیادہ مجبور تھی؟ یا سمجھوتہ کرنے میں مجھ سے آگے؟ کیا ہماری ڈگریوں کی قیمت اب بس اتنی ہی رہ گئی ہے کہ مہینے میں دس ہزار کے عوض بک جائے؟ کیا یہ ادارے صرف ہمارے حالات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، یا ہم خود ہی اپنی قدر گھٹا بیٹھے ہیں؟ کھڑکی سے باہر چاند بادلوں کے پیچھے چھپ رہا تھا۔ عمیر کو لگا وہ خود بھی اسی چاند کی طرح ہے، روشنی دینے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود اندھیروں میں گم۔