1. ہوم
  2. افسانہ
  3. عابد حسین راتھر
  4. روح کی التجا

روح کی التجا

عالمِ ارواح کی صبح نہایت خاموش، پاک و شفاف اور روح پرور تھی۔ روشنی کی نہ کوئی سمت تھی، نہ ہی کوئی منبع۔ جیسے سب کچھ ایک نوری دریائے سکون میں بہہ رہا ہو۔ یہاں وقت گھڑیوں سے نہیں، ذکرِ الٰہی کی روانی سے ناپا جاتا تھا۔ تمام روحیں حسبِ معمول اپنی نشستوں پر موجود تھیں، کچھ مراقبے میں تھیں، کچھ تسبیح کے دانے گن رہی ذکر و اذکار میں مشغول تھیں اور کچھ اپنے کیے ہوئے وعدے کے تحت انسان بننے کے منتظر تھیں۔

اسی عالمِ ارواح میں ایک نیک اور پاک روح جسے محبت سے "نورینہ" کہا جاتا تھا، عالمِ ارواح کی نشست گاہ پر بیٹھی، اپنے نوری آنچل کو انگلیوں سے لپیٹتے ہوئے، ہاتھ میں تسبیح لیے کسی سوچ میں گم تھی۔ قریب ہی ایک بزرگ روح، جو اپنے وقت میں حضرتِ رابعہ بصری کی صحبت سے فیضیاب ہو چکی تھی، مسکرا کر بولی:

"کیا بات ہے بچی؟ آج اتنی خاموش کیوں ہو؟"

نورینہ نے آہستہ سر اٹھایا، ایک سانس لی جو نور سے بھری ہوئی تھی اور دھیرے سے بولی:

"میری باری آ گئی ہے، اماں جی۔ مجھے نیچے جانا ہے، انسان بننے"۔

اماں جی نے شفقت سے اس کا سر تھپتھپایا، "یہ تو خوشی کی بات ہے بیٹی۔ رب نے تمھیں چُنا ہے"۔

"جی، لیکن، میں ڈری ہوئی ہوں"۔

اسی لمحے اُفقِ نور پر ایک آواز گونجی، جو نہ مردانہ تھی، نہ زنانہ، بلکہ ایسی جیسے دل خود بول اٹھے:

"نورینہ بنتِ روحِ پاک، بارگاہِ ربِ ذوالجلال میں حاضر ہو"۔

نورینہ نے اماں جی کو الوداعی نظر سے دیکھا اور ایک لمحے میں نوری رفتار سے بارگاہِ الٰہی کی طرف روانہ ہوگئی۔

بارگاہِ رب میں فرشتے قطار اندر قطار کھڑے تھے اور درمیان میں وہ عظیم تخت، جس کی شعاعیں زمان و مکان کی حدوں سے ماورا تھیں۔ نورینہ نے سجدہ کیا اور پھر نگاہ نیچی کیے کھڑی ہوگئی۔

رب نے نرمی سے سوال کیا:

"کیا تُو تیار ہے اُس وعدے کو نبھانے کے لیے جو تُو نے عالمِ الست میں کیا تھا؟ کیا تو انسان بن کر دنیا میں میری وحدانیت، میری الوہیت اور میری ربوبیت کی گواہی دینے کے لیے تیار ہے؟"

نورینہ نے آنکھیں پھیلا دیں، جیسے کوئی بچہ اسکول کے پہلے دن کو ملتوی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور تھوڑا جھجکتے ہوئے کہا۔

"یا رب، وعدہ تو دل و جان سے کیا تھا، پر اب جب نیچے جھانک کر دیکھتی ہوں، تو خوف سا لگتا ہے"۔

رب نے فرمایا۔

"بیان کر، کیا چیز ڈراتی ہے تجھے؟"

نورینہ نے جیسے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے اپنی تسبیح فرش پر رکھ کر آنکھیں بند کیں اور بولی:

"میں نے دیکھا ہے کہ انسانوں کا سچ کے ساتھ وہی سلوک ہے جو بچے کڑوی دوا کے ساتھ کرتے ہیں، صرف ماں کی مار پر پیتے ہیں! انسانوں نے تیرے نام پر فرقے بنائے ہیں، تیری وحدانیت کی جگہ اپنی برادری کو رکھ لیا ہے۔ ہر دوسرا شخص خود کو حق پر اور باقی کو گمراہ سمجھتا ہے۔ جھوٹ بولنا فخر بن گیا ہے، ایمان داری ایک مذاق بن چکی ہے۔ حلال روزی کمانے والے کو کم عقل اور چالاک چور کو کامیاب کہا جاتا ہے اور یا رب! وہاں کا ہر شخص مادیت کے نشے میں بدمست ہے۔ محبت کا مطلب مفاد، عبادت کا مطلب دکھاوا اور علم کا مطلب فہم نہیں بلکہ صرف نوکری ہے۔ وہاں تو لوگ دل کے سکون کے لیے جِم جاتے ہیں، مراقبہ کرتے ہیں، یوگا کرتے ہیں، لیکن اصل سکون کی جگہ یعنی رب کی یاد سے کوسوں دور ہیں۔ لوگ خرچ کرتے ہیں تاکہ دِکھا سکیں، دیتے نہیں تاکہ بچا سکیں۔

نورینہ کی آواز رُندھ گئی۔ اس نے آگے بڑھ کر عرض کی:

"جھوٹ بولنے والے سیاستدان جلسوں میں صداقت کے نعرے لگاتے ہیں اور عوام تالیاں بجاتے ہیں۔ پہلے لوگ کسی سے دل لگاتے تھے تو نکاح ہوتا تھا۔ اب دل لگاتے ہیں تو بس دل لگی کے لیے۔ عشق، وفا اور وفاداری اب کتابوں میں ہیں اور کتابیں اب الماریوں میں دبی پڑی ہیں۔ یا رب، مجھے معاف کر دیجیے، میں نیچے نہیں جانا چاہتی۔ میں نہیں چاہتی کہ وعدہ کرکے بھی میں ناکام ہو جاؤں"۔

رب کی بارگاہ میں خاموشی چھا گئی۔ پھر ایک فرشتہ آگے بڑھا اور بولا:

"اجازت ہو تو میں کچھ مناظر دکھاؤں؟"

رب نے فرمایا۔

"پیش کرو، تاکہ یہ الجھی ہوئی روح خود فیصلہ کرے"۔

ایک نورانی پردے پر منظر ابھرا، ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں ایک ماں فجر کے وقت اپنے بچے کو اٹھا رہی ہے:

"اٹھ بیٹا، نماز کا وقت ہوگیا۔ اللہ دیکھ رہا ہے"۔

پھر منظر بدلا: ایک نوجوان، بازار میں گرے ہوئے بوڑھے کو سہارا دے کر اسپتال لے جا رہا ہے۔

"ابا جی، آپ میرے والد کے مانند ہیں"۔

پھر ایک اسکول میں استاد طالب علم کو سمجھا رہا ہے:

"بیٹا، نمبرات زندگی کا معیار نہیں، نیت اور عمل اہم ہے"۔

پھر ایک خاتون تنہائی میں سجدے میں رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے:

"یا اللہ! میں تیری بندی ہوں۔ مجھے بخش دے"۔

پردہ دھندلا ہوا اور نورینہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

"یا رب! یہ لوگ، کیا آپ کی دنیا میں آج بھی ایسے متقی اور نیک دل انسان موجود ہیں! "

رب نے فرمایا:

"دنیا کو اگر سب نافرمان ملیں گے، تو ہدایت کون دے گا؟ اگر سب لوگ جھوٹ بولیں گے، تو سچائی کی مثال کون بنے گا؟ ہر زمانے میں کچھ لوگ حق پر ہوتے ہیں اور اُنہی کے لیے دنیا قائم ہے اور یہی وجہ ہے کہ تجھے بھیجا جا رہا ہے، تاکہ تُو بھی ان چراغوں میں ایک چراغ بنے۔ کیا تُو اُن میں شامل نہیں ہونا چاہتی؟"

نورینہ نے آہستہ سر جھکا دیا۔

"مگر یا رب، اگر میں بھی بھٹک گئی؟ اگر دنیا کی چمک آنکھوں کو دھوکہ دے گئی؟"

رب کی بارگاہ سے آواز آئی:

"تو ہم تمھیں بار بار یاد دلائیں گے۔ دل کی دھڑکنوں سے، ضمیر کی آواز سے، ماں کی دعا سے، کسی بے گناہ کی نظر سے، کسی بزرگ کی بات سے۔ تم بھٹکو گی تو میرے انعامات میں سب سے قیمتی انعام "ہدایت" کو پکارنا، ہم صیح راہ دکھائیں گے، بس تمھارا ارادہ سچا ہونا چاہیے"۔

نورینہ نے تسبیح دوبارہ ہاتھ میں لے کر سکون سے سر اٹھایا۔

"تو بھیج دیجیے مجھے، لیکن۔۔ "

"لیکن کیا؟" رب نے محبت سے پوچھا۔

"لیکن میرے والدین کو کہہ دیجیے کہ جب میں دنیا میں انسان کی شکل میں پیدا ہو جاؤں، تو میرے کان میں اذان دے۔ تاکہ مجھے یاد آ جائے کہ میں کون ہوں اور مجھے کہاں واپس آنا ہے"۔

رب کی آواز آئی:

"جاؤ، میری ہدایت کی روشنی لے کر دنیا کو منور کرو اور یاد رکھنا، تمہاری دنیاوی کارکردگی پر ہی تمہاری اگلی دنیا کا انعام منحصر ہے! "

رب کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہوا کہ روحِ نورینہ کو مقامِ امان سے مقامِ فانی کی طرف روانہ کیا جائے۔ یہ وہ روح ہے جو وعدے کے ساتھ جا رہی ہے اور ہم اس کے وعدے کی حفاظت تب تک کریں گے جب تک یہ اپنے ضمیر کی آواز سن کر اپنے وعدے کو یاد کرے گی اور میرے سب سے قیمتی انعام "ہدایت" کو پکارتی رہے گی۔