1. ہوم
  2. کالمز
  3. محسن خالد محسنؔ
  4. اُردو غزل میں محبت کا شاعرانہ تصور

اُردو غزل میں محبت کا شاعرانہ تصور

محبت ایک ایسا جذبہ ہے جسے آفاق سے پاتال کے درمیان موجود جملہ حیاتِ ارواح میں مجسم و مدغم دیکھا جا سکتا ہے۔ محبت پر اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بہترین اظہارِ محبت کا مظہر ہے اس کے باوجود محبت کے مفہوم اور اس کی گہرائی و گیرائی کو سمجھنے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔

محبت ہر دور میں ہر عہد میں ہر جگہ ہر وقت ہر لمحے محسوس کیے جانے والا اور زیست کیے جانے والا جذبہ ہے۔ اس جذبے کے گرد کائنات کا جملہ نظام دھڑکتا ہے۔ اس جذبے نے انسانی حیا ت کے جملہ اسرار و رموز کو اپنے احساس میں جکڑ رکھا ہے۔ شعرا کے ہاں اس جذبے کی سینکڑوں متنوع مثالیں موجود ہیں۔

شعرا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں محبت کے جذبے کی نت نئی کیفیات و واردات کا مظاہر ملتا ہے جبکہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ ایک شاعر محبت کے جذبے کو جس انداز میں دیکھتا ہے ویسے ہی ایک عام انسان اس جذبے کی حدت و شدت کو محسوس کرتا ہے۔ محبت کی پھوار میں بھیگنے والا کسی بھی لمحے خود کو اس جذبے سے جدا کرنے کا تصور نہیں کرتا۔

محبت اپنے اندر شدید جذباتیت کا عنصر رکھتا ہے۔ یہ جذبہ آن میں کچھ اور آن میں کچھ ہے۔ اس جذبے نے جہاں انسانی حیات کو تعمیرِ نو سے ہم آہنگ کیا ہے وہاں تخریبِ کائنات کی تصویر کو اُلٹانے میں بھی اسی جذبے نے اپنا ہنر صرف کیا ہے۔

شعرا کے ہاں اس جذبے کی متنوع مثالوں میں ایک طرح کی یکسانیت دکھائی دیتی ہے جس میں ان کی ذاتی زندگی کے احوال سے لے کر مشاہداتی کیفیات کا وُرود شامل ہے۔ محبت کے جذبے کو فلمی انداز میں دیکھا جائے تو کل کائنات میں جس چیز کے حصول کا نشہ خمار کی صورت انسانی بصیرت پر گرفت لیے ہوتا ہے وہی اس کی تخریبی اکائی کا جڑ سے کاٹنے کے درپئے بھی ہوتا ہے۔

شعرا کے ہاں محبت کے تصور کا جذباتی آہنگ ملاحظہ کیجیے۔

اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

(فیض احمد فیض)

اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

(بشیر بدر)

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ، پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

(احمد فراز)

مذکورہ اشعار میں محبت کے جذبے سے متصل جذباتیت کو ملاحظہ کیجیے، فیص صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے محبت کے علادہ بھی کئی دُکھ ہیں، میں محبت کے حصول کے لیے خود کو قربان نہیں کرسکتا کہ دُنیا داری کے جھنجھٹ میں محبت کی پوتر ندی میں بھیگنے کے من کی آرزو کو حسرت میں پڑا رہنا مجھے گوارا ہے۔ بشیر بدر نے محبت کو یادِ ماضی کی آسودہ تکلیف سے متصل کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یادوں کے اجالوں کو ذہنِ حال پر طاری رہنے دو کہ انسان کی حیات کسی بھی وقت دھوکا دے سکتی ہے۔ احمد فراز کے ہاں محبت کے معاملے میں خود اذیتی کا پہلو زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ کون سی محبت ہے جس میں دل دکھانے کی بات کی جائے اور پھر کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود رنجش مول لینے کی چاہ کی جائے۔

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

(مرزا غالب)

اُس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

(راحت اندوری)

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجیے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے

(ندا فاضلی)

مرزا غالب کے ہاں محبت کا تصور متنوع صورتیں لیے ہوئے ہیں۔ غالب نے محبت کے تصور میں خود آگہی کے پہلو کو دریافت کیا ہے۔ کہتے ہیں محبت میں جینے اور مرنے کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی محبت میں جینا اور مرنا ایک جیسا عمل ہے۔ غالب نے محبوب کو کافر قرار دے کر محبت کے پہلو کو مشکوک بنا ڈالا ہے۔

محبت میں کفر ممکن نہیں لیکن کافر ہونے کی خواہش ہر محبوب کی چوکھٹ پر آستین جھکواتی ہے۔ راحت اندوری مشاعرہ پڑھتے ہوئے شعر کی جملہ کیفیات کو ڈرامائی انداز میں سمجھا دیا کرتے تھے۔ ان کے ہاں محبت بھی ایک ڈراما سازی ہے جس میں عاشق اور محبوب ایک دوسرے کے خوب لتے لیتے ہیں۔ راحت اندوری کہتے ہیں یاد کو آنسوؤں کے ساتھ جاری رکھو اور گہری خاموشی کے ساتھ رسمِ محبت کی عبادت کو جاری رکھیے کہ سانس بھی تصورِ محبوب میں حائل ہوتی ہے۔ شاعر کا جذباتی پن دیکھیے اور شعر کی اندرونی شدت کی حدت بھی دیکھیے۔

ندا فاصلی نے عمدہ کلام لکھا ہے۔ خاص طور سے فلمی گیت میں ان کا تصورِ محبت سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کہتے ہیں ہوش والوں کو بے خودی کا علم نہیں ہے۔ بے خودی کا راستہ محبت کے ایوان میں کھلتا ہے جہاں رسائی عشق کی سُرنگ سے ملتی ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے البتہ ذوق والے اور جاں نثاری کا جذبہ رکھنے والے یہ کام بھی کر لیتے ہیں۔

زندگی کس طرح بسر ہوگی
دل نہیں لگ رہا محبت میں

(جون ایلیا)

کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

(غلام محمد قاصر)

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا

(شکیل بدایونی)

جون ایلیا کے ہاں ہر چیز سے نفرین کا جذبہ ملتا ہے۔ یہ شاعر چاہتا ہے کہ میں کسی کو زندہ نہ رہنے دوں، ہر چیز کو الٹ پلٹ دوں، ہر فلسفے کو بدل ڈالوں، ہر نظریے کو دُہرا دوں، ہر تصور کو تاراج کر ڈالوں مگر خود کو کچھ نہ کہوں۔ یہ ایک عجیب سی خود اذیتی اور خود فراموشی ہے جس نے جون کی شخصیت اور شاعری کو مشکوک بنا ڈالا ہے۔

جون کے ہاں محبت کسی زمانے میں بہترین اور کارآمد جذبہ تھا جس سے حیاتِ انسانی کی تعمیر کا خام مسالہ مستعار لیا جاسکتا تھا لیکن اب یہی جذبہ ان کی شخصیت کی تخریب کا واحد سبب بن چکا ہے۔ کہتے ہیں محبت میں اب دل نہیں لگتا۔ اس شاعر کا کسی بھی چیز میں دل نہیں لگتا۔ اس کی شاعری میں ایسے لایعنی اور دوز ازکار سوالات ہیں جن کے جوابات دینے کا حوصلہ مشکل سے پیدا ہوتا ہے۔

غلام محمد قاصر کا یہ واحد شعر ہے جو ان کی شہرت کا باعث بنا۔ قاصر نے محبت کو زندگی کا مقصود قرار دیا ہے، اس معاملے میں ان کا نکتہ نظر مبنی پر حقیقت ہے۔ قاصر نے محبت کی ناکامی کو زندگی کی ناکامی قرار دیا ہے۔ یہ شاعر کا اپنا نظریہ ہے، ضروری نہیں ہے کہ اس کی تائید کی جائے۔ شکیل بدایونی نے محبت کو رونے سے تشبیہ دی ہے۔ محبت میں محبوب کے ہرجائی پن اور بے مرورتانہ سلوک سے عاشق کا دل بجھ جاتا ہے اور وہ بلاوجہ کسی بھی جگہ کسی بھی وقت کہیں بھی رونے لگ جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ سبھی رونا شروع کردیں اور اتنا روئیں کہ محبوبِ بے مرورت کو عاشق پر رحم آجائے۔ یہ ایک شاعر کی شاعرانہ چالاکی ہے، اب ایسا نہیں ہوتا، وقت بدل چکا، شاعر کو بھی اپنے طور تبدیل کرنا چاہیے۔

گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ

(باصر سلطان کاظمی)

انجامِ وفا یہ ہے جس نے بھی محبت کی
مرنے کی دُعا مانگی جینے کی سزا پائی

(نشور واحدی)

باصر سلطان کاظمی نے محبت کو گلے سے تعبیر کیا ہے، کہتے ہیں تجھ سے محبت بھی ہے اور نہیں بھی ہے، یہ بات اپنی جگہ ہے اور وہ بات اپنی جگہ ہے یعنی شاعر کو اپنی محبت کا یقین نہیں ہے کہ میں محبت کرتا بھی ہوں کہ نہیں، گویا شاعر نے محبت کو معمہ بنا ڈالا ہے۔ نشور واحدی کے ہاں محبت کی سطح سبک دکھائی دیتی ہے۔ نشور کہتے ہیں محبت میں وفا کا تقاضا سزا بن گیا ہے اور مرنے کی دُعا بددعا بن کر حیاتِ ابدی کا مسبب بن گئی ہے۔

شعرا کے ہاں محبت کے جذبے کو لے ہر طرح کی رائے پائی جاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک عہد میں ایک طرح سے شاعر محبت کے تصور کو سمجھ رہے ہیں۔ انسان پر یہ جذبہ فطری انداز میں اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے اظہار کی سینکڑؤں صورتیں ہو سکتی ہیں لیکن اس کے تجربے کی صورت ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ شعرا کے ہاں وصال کو ہجر کی نسبت زیادہ سراہا نہیں جاتا۔ ہجر یہ کیفیات میں عاشق کی خودنمائی کھل کر سامنے آتی ہے اور وہ دُنیا سے ہمدردی لینے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔

شعرا نے اپنے عہد کے محبوب کو سنگ دل، پتھر دل، ہر جائی، بے وفا، بے مرورت، اغیار پرست، انا پرست، خود دار، سنکی، پاگل اور جانے کن کن القاب سے نوازا ہے لیکن ان محبوباؤں نے پلٹ کر کبھی شعرا سے یہ گلہ نہیں کیا کہ تم یہ اوٹ پٹانگ جذباتی قضیے ہم سے متصل کیوں کرتے ہو، تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی والا معاملہ یک رخی اور نری منافقانہ چودھراہٹ کا غماز ہے، حقیقت میں اس سطحی اور جذباتی عاشقہ جذبے میں کوئی گہرائی اور تاثیر موجود نہیں ہے۔

شعرا کے ہاں محبت کے جذبے کی مزید مختلف صورتیں دیکھیے۔

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
تم نے تو خیر بے وفائی کی

(فراق گورکھ پوری)

اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

(ناصر کاظمی)

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

(حفیظ ہوشیار پوری)

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

(جگر مراد آبادی)

یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

(جمال احسانی)

محبت کے اس موضوع پر جتنا لکھا جائے کم ہے، اس لیے کہ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کا تجربہ ہر انسان مختلف صورت، انداز، کیفیت اور احوال میں کرتا ہے۔ محبت کے اس وسیع موضوع پر جتنے انسان ہیں اتنی ہی اس کی صورتیں، شکلیں، کیفیات اور، واردات ہیں۔ جمال احسانی نے اس مضمون کو سمیٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

جمال احسانی کہتے ہیں کہ محبت میں سب کچھ یاد رکھنا ہی نہیں ہے بلکہ بہت کچھ بھول جانا اور جان بوجھ کر سمجھتے بوجھتے ہوئے بھول جانا بڑی بات ہے۔ جمال یہ جانتے ہیں کہ محبت کا حصول اتنا آسان نہیں ہے جتنا شعر کہنا اور شعر کہنا بھی اتنا آسان نہیں ہے یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے۔

محسن خالد محسنؔ

Mohsin Khalid Mohsin

محسن خالد محسن ؔ شاعر، ادیب، محقق، نقاد اور اُستاد ہیں۔ ان کے تین شعری مجموعے "کچھ کہنا ہے"، دُھند میں لپٹی شام"، آبِ رواں" شائع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کلاسیکی غزل میں تلمیحات کے موضوع پر ناردرن یونی ورسٹی نوشہرہ پی ایچ ڈی کی ہے۔ ان کے تیس سے زائد تحقیقی مقالات ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے مصدقہ رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کے معروف ادبی رسائل وجرائد میں ان کے متفرق موضوعات پر مضامین شائع ہو تے رہتے ہیں۔ ادب، سماج، معاشرت، سیاست و حالاتِ پر ببانگِ دُہل اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔