1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نادیہ فرید/
  4. واہ جی واہ کیا بات ھے

واہ جی واہ کیا بات ھے

ایک طرف پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ امریکہ کی جیل میں موت اور زندگی کی کشمکش میں ھے۔ اور دوسری طرف ملالہ جیسی عورت یہودیوں کے ایجنڈے پر چلنے والی کو فل پروٹوکول دیا جاتا ھے۔

خوامخواہ اتنی کوریج دی جارہی ہے حالت دیکھیں پرائم منسٹر بھی ملاقات کےشوقین ہیں۔ اور تو اور سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان صاحب اپنے آنے والے دور حکومت میں ملالہ کو وزیر تعلیم بنانے کا سوچ رہے ہیں۔ سب کی آنکھوں پہ پٹی بندھی ہوئی ہے۔ جو سہی اور غلط میں فرق نہیں کر پا رہے۔ اور ملالہ صاحبہ کو نوبل انعام دینے والوں کا کرائٹیریا بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئی تعلیمی میدان میں خاطر خواہ کارکردگی نہیں نہ خدمات ہیں بس ایک ڈائری لکھنے پر چن لیا۔

سمجھ نہیں آتی پاکستان کی اس بیٹی نے ملک کیلئے کیا کارنامہ سر انجام دیا ہے کہ سب لوگ بمعہ حکومتی عہد دار اس کے آگے پیچھے پچھے جارہے ہیں۔

مجھے لگ رہا ہے آئندہ اسے کنگز پارٹی سربراہ بنا کر ملک کی باگ دوڑ اس کے ہاتھ میں دینی کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیونکہ غیر ملکی طاقتور حلقوں نے اس پر بڑی انویسٹمنٹ کی ہوئی ہے۔ وہ ضرور اس کے ذریعے ملک کو اپنے ہاتھ لینا چاہتے ہیں۔ ۔ لیکن انشااللہ ناکام ہونگے۔

ویسے سیریا، لیبیا، فلسطین، شام میں کتنے سکول تباہ ہوتے ہوں گے کتنی بچیاں مرتی ہوں گی لیکن امریکہ بہادر نے کبھی اس پر بات نہیں کی۔ کشمیر میں کئی سالوں سے انڈیا مظالم ڈھا رہا ہے کتنے تشدد کرتا ہے۔ کشمیر میں باپ بھائی کے سامنے لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ ماں باپ کے سامنے ان کے نوجوان بیٹے کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ وہاں پر تو یہ امریکہ بہادر کوئی رد عمل نہیں دکھاتا۔ لیکن سوات میں ایک لڑکی کو قتل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ ملالہ امریکہ کی بیٹی لگتی ہو۔ سوچنے کی بات ہے کچھ تو ضرور ہے؟ ورنہ امریکہ کو بھلا پاکستان سے کیا ہمدردی ہو سکتی؟

ایک بات بتائیں؟ ملالہ کو امن اور تعلیم کے فروغ کےلیے نوبل پرائز ملا۔ ۔ کیا کبھی اس نے لڑکیوں کی تعلیم پر بات کی جب سے یہ صاحبہ برطانیہ گئی ہیں۔ بس شروع میں نیا نیا شوق سا ہو گیا تھا خود کو مشہور کرنے کے لیے۔ بس ایک ڈائری لکھ لی تو میڈیا نے راتوں رات آسمان پر پہنچا دیا۔ دوسری بات ملالہ صاحبہ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ امن کے فروغ کی بنیاد پر بھی نوبل پرائز ملا تھا۔ کیا کبھی اس نے امن کے لیے کوئی بات کی؟ کیا کبھی اس نے کشمیر کے مسئلے پر بات کی؟ کیا کبھی اس نے سیریا، برما اور شام میں ہونے والی جنگ کی روک بندی کی بات کی؟ بس یہ کہہ دیا کہ ان مظلوموں کے نام وہ ایک اور کتاب لکھیں گی۔ بس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں اور امریکہ نے بھی جنگ بندی کی کوئی بات نہ کی۔ بس امریکہ بہادر کو سوات میں ایک لڑکی نظر آگئی تھی تو اس پر امریکہ اپنا رد عمل اور ہمدردی دکھاتے ہوئے اس لڑکی کو دہشتگردی سے بچانے کے لیے اپنے ملک لے آتا ہے اور وہاں مکمل طور پر محفوظ جگہ کے ساتھ ساتھ اعلی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ وہ ملالہ جس نے کبھی پاکستان میں موجود لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھائی تھی اب اسے پاکستان میں موجود لڑکیوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ کیونکہ اب ان صاحبہ کو سب مل چکا تھا جو کچھ بھی یہ اور ان کے والد چاہتے تھے وہ سب انہیں مل چکا تھا۔ ان کو دوسری لڑکیوں کی تعلیم یا پھر امن کے فروغ سے کوئی غرض نہ تھی۔ غرض ہوتی تو یہ صاحبہ ملک چھوڑ کر کبھی نہ جاتی۔ یہی پاکستان میں رہتی اور ہر مشکل کا بہادری سے مقابلہ کرتی۔

وہ لڑکی جسے کچھ بولنا نہیں آتا۔ جسے کسی انٹرویو پر بھیجنے سے پہلے مکمل طور پر ٹریننگ دی جاتی ہے۔ جو کہ خود امریکی ایجنڈہ اس کی ٹریننگ کا کام کرتا ہے۔ کہ آپ نے انٹرویو میں یہ یہ بات کرنی ہے۔ امریکہ کے اشاروں پر چلنے والی لڑکی کو تو سب نے آنکھوں پر بٹھائے رکھا ہے مگر ڈاکٹر عافیہ جو کہ پندرہ سالوں سے امریکہ کی جیل میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے اس کا کسی کو کوئی پتہ نہیں۔ اس پر ہماری گورنمنٹ ہماری قوم ہمارا میڈیا کوئی بات نہیں کرتا بس اتنی ہی غیرت مندی رہ گئی ہے ہماری قوم میں۔ کہ ظلم کہ خلاف تو کوئی آواز نہیں اٹھاتا مگر جھوٹے کو پروان چڑھانے میں ہمارا میڈیا ہماری قوم اور ہمارے سیاستدان سب سے آگے ہیں۔ کسی کو کوئی غرض نہیں۔ سب خاموش ہیں۔

علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ

چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے

عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں۔ ۔

سن اے غافل صدا میری یہ ایسی چیز ہے جس کو

وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے۔ ۔

تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

ملالہ کا نام تو ہر زبان سے پکارا جا رہا ہے۔ مگر قندوز میں دستار بندی کی تقریب پر جو بمباری کی گئی۔ وہاں پردنیا خاموش ہے۔ وہاں نجانے کتنے حافظ قرآن اپنے سروں پر حفظ قرآن کی دستاری سجائے بیٹھے تھے۔ ان کے نرم ہاتھوں میں حفظ قرآن کی سندیں تھیں۔ جب ڈرون حملہ ہوا۔ ان معصوم بچوں کے گھر جانے سے پہلے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔ اس بدترین المناک حادثے کا ذمہ دار کون؟ دنیا کا سب سے بڑا دہشتگرد ملک کون؟ اس سب کا زمہ دار صرف اور صرف امریکہ ہے۔ فلسطین میں 19 شہید، کشمیر میں 17 شہید، اور افغانستان میں 105 شہید، کس قدر ارزاں ہے خون مسلم۔ یہ تو وہ تعداد ہے جو میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ملی۔ ذرا سوچئے اور کتنے معصوم بچوں اور بے گناہوں کی جان لی ہو گی امریکہ نے۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے

تو پرندے مار دے، تو سرو صنوبر مار دے

تیری مرضی جس کو دہشت گرد کہہ کر مار دے

امریکہ بہادر جسے چاہے ڈاکٹر عافیہ کہہ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کر دے، جسے چاہے ملالہ کہہ کر دنیا کی ہیرو بنا دے اور جسے چاہے دہشتگرد کہہ کر مار دے۔ مغربی میڈیا خاموش۔ کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔