1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. پروفیسر رفعت مظہر/
  4. 9 مئی کے شَرپسند

9 مئی کے شَرپسند

جس وقت یہ کالم لکھا جارہا ہے پاکستان میں 14ویں صدرِمملکت کے انتخاب کاعمل جاری ہے۔ چاروں صوبائی اسمبلیاں اور ارکانِ پارلیمنٹ شام 4 بجے تک اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ حکومتی اتحاد کی جانب سے آصف علی زرداری اور سُنی اتحادکونسل کی طرف سے محمودخاں اچکزئی آمنے سامنے ہیں۔ اظہرمِن الشمس کہ آصف زرداری 2تہائی اکثریت حاصل کرکے صدر منتخب ہوجائیں گے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سُنی اتحادکونسل (سابق تحریکِ انصاف) کے نزدیک وہی آئین اور وہی قانون ہے جو اُسے پسند ہو۔ محمودخاں اچکزئی نے صدارتی انتخابات ملتوی کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو اپیل کی جسے مسترد کردیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ الیکٹورل کالج مکمل ہے جسے نامکمل کہہ کر صدارتی الیکشن روکا نہیں جا سکتا۔ آئین کی رُوسے عام انتخابات کے 30 دنوں کے اندر صدارتی انتخاب کروانا ضروری ہے اور 9مارچ 30واں دن ہی بنتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا تحریکِ انصاف نے پہلے کبھی آئین وقانون پرعمل کیا ہے جو کہ اب کرے گی؟ صوبائی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر راناآفتاب نے کہہ دیاکہ وہ "اجنبیوں" کو ووٹ نہہیں ڈالنے دیں گے۔ (غالباََ اُن کے نزدیک مخصوص کوٹے کے مردوخواتین اجنبی ہیں)۔ سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ موجودہ صدارتی انتخابات متنازع ہیں کیونکہ مخصوص نشستوں کامعاملہ کورٹ میں ہے اِس لیے الیکٹورل کالج مکمل نہیں۔ اگر مخصوص نشستوں کا سُنی اتحادکونسل کے حق میں فیصلہ ہوا تو صدارتی انتخابات دوبارہ کروانے پڑیں گے۔ پھر بھی ہم بطور احتجاج حصہ لے رہے ہیں۔ گویا پہلے ہی انتشار کی راہ ہموارکی جارہی ہے تاکہ حسبِ سابق "کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے" پر عمل کیاجا سکے۔ ایسی انتشاری سیاست سے ملک کابھلا ہوگا نہ قوم کا لیکن تحریکِ انصاف کو اِس سے کیا۔

مانا کہ عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدواروں کو ووٹرز نے ووٹوں سے نوازا۔ تسلیم کہ خیبرپختونخوا میں آزاد اُمیدواروں کی غالب اکثریت کو کامیابی نصیب ہوئی اور پنجاب میں بھی ووٹ ملے۔ یہ ووٹرز کی اپنی سوچ تھی جس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ سوال مگر یہ کہ کیا قابلِ ذکر تعداد میں ووٹ حاصل کرنے کے باوجود تحریکِ انصاف قومی دھارے میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے؟

کیا وہ انتشاری سیاست ترک کرنے پرآمادہ ہے؟ اگر نہیں توپھر کیاقوم 2014ء کے 126 روزہ دھرنے میں عمران خاں کی سول نافرمانی کو بھول جائے؟ کیا برطانیہ سے آئے ہوئے قومی خزانے کے 190ملین پاؤنڈز ملک ریاض کودینا کوئی جرم نہیں تھا؟ کیا بھارت اور اسرائیل سے ممنوعہ فنڈنگ کا حصول درست تھا؟ کیاتوشہ خانہ پرہاتھ صاف کرنااور MBS کی تحفے میں دی گئی گھڑی بیچنا قابلِ مذمت نہیں؟ کیا صرف ساڑھے 3سالوں میں پاکستان کو 24 ہزارارب روپے کا مقروض کرنا اور عوض میں تعمیروترقی کی کوئی ایک اینٹ بھی نہ لگانا جُرمِ عظیم نہیں؟ سب سے بڑھ کرکیا سانحہ9 مئی کے شَرپسندوں کو محض اِس لیے معاف کردیا جائے کہ تحریکِ انصاف نے عام انتخابات میں قابلِ ذکر تعداد میں ووٹ حاصل کیے۔

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیرِصدارت 5 مارچ کو 263ویں کورکمانڈرز کانفرنس ہوئی۔ ISPR کے مطابق اعلامیے میں اِس عزم کااعادہ کیاگیا "9مئی کے منصوبہ سازوں، اشتعال دلانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں، شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو یقینی طورپر آئین وقانون کی متعلقہ دفعات کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اِس سلسلے میں مسخ شُدہ، ابہام اور غلط معلومات پھیلانے کی بَدنیتی پرمبنی کوششیں بالکل بے سود ہیں۔ جو مذموم سیاسی مفادات کے حصول کے لیے منظم مہم کاحصّہ ہیں تاکہ 9مئی کی گھناؤنی سرگرمیوں پر پردہ ڈالا جاسکے"۔

اڈیالہ جیل میں قید عمران خاں نے حسبِ عادت اپنے آپ کوبچانے کی کوشش کرتے ہوئے کورکمانڈر اعلامیے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اورکہاکہ 9 مئی کے پُرتشدد واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خاں نے سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے مجرموں کی شناخت کا مطالبہ کیا۔ یہ عمران خاں کی اپنا دامن بچانے کی ایک ناکام کوشش ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ خود تو کسی فوٹیج میں موجود نہیں لیکن اُن کابھانجا حسان نیازی اور اُس کی بہنیں تو جناح ہاؤس میں موجود تھیں۔

ڈاکٹر یاسمین راشد، صنم جاوید، عالیہ حمزہ اور دیگر کئی خواتین کی فوٹیج بھی موجود ہے۔ اِس کے علاوہ جتنے شَرپسند پابندِسلاسل ہیں اُن سب کی فوٹیج، آڈیوز اور ویڈیوز مکمل ثبوتوں کے ساتھ متعلقہ اداروں کے پاس موجود ہیں۔ عمران خاں کے اِس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اِن سبھی لوگوں کوقُربانی کے بکرے بناکر اپنا دامن بچانا چاہتا ہے۔ ایسا ہونامگر ممکن نہیں کیونکہ 9 مئی کا منصوبہ ساز تووہ خود ہے جس نے زمان پارک میں شَرپسندوں کو پٹرول بم بنانے کی تربیت دلوائی۔

یوں تو کورکمانڈر کانفرنس میں 9 مئی کے شَرپسندوں کو قرارواقعی سزا دلوانے کے عزم کا اظہار کیاگیا ہے لیکن بصدادب گزارش ہے کہ 2ماہ بعد سانحہ 9مئی کو ایک سال ہوجائے گا لیکن تاحال کسی بھی شَرپسند کو نہ صرف یہ کہ سزا نہیں سنائی گئی بلکہ چوہوں کی طرح بِلوں میں گھُسے مفرور بھی ایک ایک کرکے باہر آنے لگے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مفروروں کو عدالتوں سے دھڑادھڑ ضمانتیں بھی ملنے لگی ہیں اور کئی مفروروں نے تو عام انتخابات میں حصہ بھی لیا۔ ہمیں یادہے کہ سانحہ 9مئی کے فوراََ بعد تحریکِ انصاف کی ساری قیادت یاتو جیلوں میں تھی یاپھر مفرور۔

سانحہ 9 مئی کے ملزمان کی حراست کے لیے جگہ جگہ چھاپے مارے جارہے تھے۔ یہی نہیں بلکہ سمگلروں، حوالہ ہُنڈی کرنے والوں اور ذخیرہ اندوزوں کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جارہا تھا۔ پھر پتہ نہیں اچانک کیا ہوا کہ نرمی اور مصلحت نے پَرپھیلائے اور شرپسندوں نے یہ جانا کہ اُن پرہاتھ ڈالنے والا کوئی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مفرور دھڑادھڑ باہر آئے اور بزعمِ خویش رَہنماء آگ اُگلنے لگے۔ ایسے لوگوں کوملک وقوم کاہمدردکیسے کہاجا سکتا ہے جن کاہر قدم ملکی سلامتی کے خلاف اُٹھ رہا ہو۔

اِس وقت وطنِ عزیز کی حالت یہ کہ خزانہ خالی اور ملک ڈیفالٹ کے کنارے پر۔ ہرصاحبِ فکرونظر پریشان کہ اِس دَورِابتلاء سے چھٹکارا کیسے ممکن ہو لیکن اڈیالہ جیل میں بیٹھے عمران خاں نے IMF کو خط لکھ کر قرضے کی اگلی قسط کی ادائیگی روکنے کی بھرپور سعی کی۔ IMF کا بھرپور تھپڑتو عمران خاں کے مُنہ پرپڑ چکاجس نے بیان دیاکہ IMF کسی ملک کے اندرونی سیاسی معاملات پرتبصرہ نہیں کرتا۔ IMF کے ترجمان کاکہنا تھا "پی ٹی آئی کی جانب سے 28فروری کو خط ملاہم پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ قلیل مدتی قرض کا دوسرا جائزہ مکمل کرنے کے کام کے لیے پُرعزم ہیں۔ IMF چاہتا ہے کہ ترقی کا ثمر ہر پاکستانی شہری تک پہنچے اور غریب طبقات کو تحفظ ملے"۔ سوال مگریہ کہ کیا کوئی بھی محبِ وطن پاکستانی آئی ایم ایف کو اِس قسم کاخط لکھ سکتا ہے جس میں ملکی بربادیوں کی داستانیں رقم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہو۔