1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. پروفیسر رفعت مظہر/
  4. منڈی کے بھاؤ

منڈی کے بھاؤ

پاکستانی سیاست میں اتنا گند گھُل چکا کہ اب اسے جمہوری سیاست کہنا بھی جمہوریت کی توہین ہے۔ یہاں ضمیر فروشوں کی منڈی سجی رہتی ہے۔ ایسے لوگوں کو گھوڑے کہیں، گدھے یا کچھ اور، اُنہیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ یہ بکاؤ مال ضمیر فروش ہے اور جس میں ضمیر نہیں، اُس میں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں۔ قوم عشروں سے کسی مسیحا کی تلاش میں ہے لیکن جسے مسیحائی کے لیے منتخب کیا جاتاہے وہ اپنے آپ کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیتاہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو سے لے کر کپتان تک سبھی "مسیحاؤں" نے قوم کو سبزباغ دکھائے اور ہر مرتبہ اُسے مایوسیوں کا سامنا ہی کرنا پڑا۔ کبھی روٹی، کپڑا اور مکان کا دِل خوش کُن نعرہ تو کبھی اسلامی نظام کا اعلان۔ کبھی "قرض اُتارو، ملک سنوارو" کی گونج تو کبھی 90 دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کا اعلان۔ منشور تو سبھی سیاسی جماعتوں کا بہت دلکش اور دِل خوش کُن مگر عمل درآمد مفقود۔ سچ یہی کہ ملک پر جس اشرافیہ کی حکومت متواتر چلی آرہی ہے، اُسے ذاتی اغراض کے سوا کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سجھائی۔ اگر معزز قارئین نوازلیگ، پیپلزپارٹی، تحریکِ انصاف اور قاف لیگ کے منتخب ارکانِ اسمبلی کا مطالعہ کرنے کی زحمت فرمائیں تو اُنہیں حیرت ہوگی کہ ہماری سیاست ایک ایسی "میوزیکل چیئر" میں ڈھل چکی ہے جس کے کھلاڑی وہی ہیں جو اِس میوزیکل چیئر کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ کسی نئے شخص کو اِس کھیل میں داخل ہونے کی سرے سے اجازت ہی نہیں۔ مسیحاؤں کی تلاش میں قوم کی حالت اب یہ

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اِک تیز رو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی رَہبر کو میں

آجکل سینٹ انتخابات کی منڈی سجی ہوئی ہے جس میں گدھوں، گھوڑوں کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ جو ضمیر فروش اِن گدھوں کی خریداری کے بعد سینیٹر منتخب ہو جائیں گے، کیا اُن سے خیر کی توقع کی جا سکتی ہے؟ ۔ اِسی لیے دنیا کہتی ہے کہ پاکستان میں سیاست، تجارت میں ڈھل چکی۔ خود وزیرِاعظم کے مطابق ایک ایک ووٹ کی بولی 40 سے 70 کروڑ تک لگ رہی ہے۔ اِسی بولی کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی سینٹ کا طریقۂ انتخاب بدلنا چاہتی ہے جس پر بڑے زور وشور سے نہ صرف مباحثہ جاری ہے بلکہ صدارتی آرڈینینس بھی جاری ہوچکا جس کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کر دیا گیاہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے فرمایا ہے کہ الیکشن شیڈول کے مطابق ابھی سینٹ الیکشن میں کافی وقت باقی ہے، انتخابات سے پہلے فیصلہ جاری کر دیا جائے گا۔

اوپن بیلٹ کے ذریعے سینٹ کے انتخابات کروانا مستحسن مگر اپوزیشن کا خیال ہے کہ تحریکِ انصاف کو شک ہے کہ اگر خفیہ ووٹنگ ہوئی تو تحریکِ انصاف کے بہت سے ارکانِ اسمبلی اُسے ووٹ نہیں دیں گے اسی لیے اوپن بیلٹ کا شوشہ چھوڑا جا رہاہے۔ سچ یہی کہ اگر حکومت مخلص ہوتی اور اُس کے ذاتی مفادات شامل نہ ہوتے تو بہت پہلے اِس کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ یہاں معاملہ "میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا تھو تھو" والاہے۔ جب چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی تو سینٹ میں اپوزیشن کی واضح اکثریت ہونے کے باوجود عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی۔ اُس وقت تحریکِ انصاف نے خریداری سمیت ہر حربہ استعمال کیا۔ اِس سے پہلے 2018ء میں سینٹ کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے خیبر پختونخوا اسمبلی کے 20 ارکان نے اپنا ضمیر بیچا جس کی ویڈیو اُس وقت بھی موجود تھی اور خود عمران خاں نے اِن ارکان کو یہ کہتے ہوئے پارٹی سے نکالا کہ اُن کے پاس مکمل ثبوت موجود ہیں۔ اگر کسی رکنِ اسمبلی کو شک ہے تو وہ اُن کے پاس آئے اُسے نوٹ گنتے ہوئے دکھا دیا جائے گا۔

اب جبکہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور وزیرِاعظم صاحب کو یہ شک کہ اُس کی جماعت کے بہت سے ارکان بک جائیں گے تو وہ ویڈیو لیک کر دی گئی تاکہ سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لیا جاسکے۔ جب وزیرِاعظم سے یہ سوال کیا گیا کہ وہ اِس ویڈیو کو 2018ء ہی میں سامنے کیوں نہیں لائے تو اُنہوں نے کہا "میرے پاس ویڈیو ہوتی تو میں نیب میں جاتا"۔ حیرت یہ کہ اگلے دن ہی ایک انٹرویو میں وزیرِاعظم یہ فرماتے ہوئے نظر آئے کہ اُنہوں نے جو تحقیقاتی کمیٹی بنائی اُس کے پاس یہ ویڈیو موجود تھی لیکن کمیٹی نے اُنہیں ویڈیو دینے سے انکار کر دیا البتہ کمیٹی نے یہ ضرور کہا کہ وہ ویڈیو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ کمیٹی وزیرِاعظم صاحب نے خود تشکیل دی۔ تحریکِ انصاف کے ارکانِ اسمبلی اِس کمیٹی میں موجود تھے۔ پھر بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ کمیٹی کے ارکان اُنہیں ویڈیو دینے سے انکار کر دیتے۔ عمران خاں اپنے پہلے بیان میں یہ فرماتے ہیں کہ وہ اِس بکاؤ مال کوویڈیو میں نوٹ گنتے ہوئے دکھا سکتے ہیں۔ دوسرے بیان میں وہ اپنے پاس ویڈیو کی موجودگی سے ہی انکاری ہیں اور تیسرے بیان میں اُنہوں نے ایسا جواز گھڑا جس پر عقیل وفہیم تو کجا کوئی عامی بھی اعتبار نہیں کر سکتا۔ سچ اظہرمِن الشمس کہ اب خاں صاحب کو اپنے سینیٹرز منتخب کروانے کی ضرورت ہے اِس لیے وہ اوپن بیلٹ کا شور مچا رہے ہیں۔

2013ء کے انتخابات میں تبدیلی کے علمبردار نے خیبرپختونخوا میں ایسے لوگوں کو ٹکٹ سے نوازا جن میں سے بہت سے بکاؤ مال تھے۔ خیبرپختونخوا کے عوام نے تبدیلی کے نام پر تحریکِ انصاف کو ووٹ دیئے لیکن جب سینٹ کے انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو وزراء سمیت تحریکِ انصاف کے کئی گدھوں گھوڑوں نے اپنا ضمیر فروخت کر دیا۔ پیپلزپارٹی کے حصّے میں صوبائی ارکانِ اسمبلی کی اتنی سیٹیں بھی نہ آئیں کہ وہ اپنا ایک سینیٹر بھی منتخب کروا سکتی لیکن حیرت انگیز طور پر پیپلزپارٹی کے 2 سینیٹر منتخب ہوگئے اور تیسرا محض 2 ووٹوں سے رہ گیا۔ اُس وقت جن ارکانِ اسمبلی کے خلاف کارروائی کی گئی اُن میں ایک نام عارف یوسفزئی کا بھی تھا جس نے عمران خاں کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر دیا۔ اُس کو منانے اور دعویٰ واپس لینے کے لیے بابر اعوان کو اُس کے گھر بھیجا گیا۔ اِسی عارف یوسفزئی کو منانے کے بعد پارٹی عہدہ بھی دیا گیا۔ اِسی طرح ویڈیو میں نظر آنے والا ایک شخص سلطان محمود بھی تھا جسے 2018ء کے انتخابات میں ٹکٹ سے نوازا گیا اور انتخاب جیتنے کے بعد وزیرِقانون بھی بنا دیاگیا۔ یہ بھی تلخ حقیقت کہ سپریم کورٹ میں جانے اور نیب کو اِن ضمیرفروشوں کی انکوائری کرنے کے اعلان کے باوجود عمران خاں صاحب نے اِن کے خلاف نہ صرف یہ کہ کوئی ایکشن نہیں لیا بلکہ چند ایک کو نوازا بھی گیا۔ اِس لیے یہ کہنا کہ اوپن بیلٹ میں تحریکِ انصاف کی کوئی ذاتی غرض شامل نہیں، بالکل غلط ہوگا۔

پہلے عرض کیا جا چکا کہ پیپلزپارٹی نے تحریکِ انصاف کے صوبائی ارکانِ اسمبلی کو خرید کر اپنے 2 سینیٹرز منتخب کروا لیے لیکن حیرت تو اُس وقت ہوتی ہے جب تبدیلی سرکار نے صرف ایک ہفتے کے بعد اُسی پیپلزپارٹی کے اُمیدوار سلیم مانڈوی والا کے حق میں اپنے سینیٹرز سے ووٹ دلوا کر اُسے ڈپٹی چیئرمین منتخب کروایااور اپنے چیئرمین سینٹ کے اُمیدوار صادق سنجرانی کو منتخب کروانے کے لیے پیپلزپارٹی سے ووٹوں کی بھیک بھی مانگی۔ پنجابی میں اِسی کو "وَٹّا سٹّا" کہتے ہیں۔ اگر نئے پاکستان کے بانی کے نزدیک تبدیلی اِسی کا نام ہے تو پھر ہم پُرانے پاکستان میں ہی بھلے۔