1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. پروفیسر رفعت مظہر/
  4. 9مئی، یوم سیاہ

9مئی، یوم سیاہ

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ سیاسی رَہنماؤں کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو پھانسی پر جھول گئے، بینظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کیا گیا اور الزام آمر پرویز مشرف پر آیا۔ اِسی آمر کی بدولت میاں نوازشریف کو اپنے خاندان سمیت جلاوطنی کا دُکھ جھیلنا پڑا۔ میاں صاحب کو اپنے عزیز اَز جان باپ کی رحلت پر بھی پاکستان آنے کی اجازت نہ دی گئی۔

2013ء کے انتخابات کے بعد میاں صاحب تیسری بار وزیرِاعظم بنے تو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی ملّی بھگت سے اُنہیں تاحیات نااہل کر دیا گیا۔ عدلیہ کا یہ فیصلہ پاکستان کی تاریخِ عدل کے ماتھے پر ایک سیاہ داغ ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی شہادت پر آگ لگی نہ گھر جلے۔ بینظیر بھٹو کی شہادت پر آصف زرداری "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگا کر جیالوں کے اُبلتے جذبات کو ٹھنڈا کرتے رہے۔

2017ء میں جب 3 بار کے منتخب وزیرِاعظم میاں نوازشریف کو تاحیات نااہل کیا گیا تو وہ وزیرِاعظم ہاؤس چھوڑ کر اپنے گھر جاتی اُمرا چلے آئے۔ پاکستان کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ سیاسی لیڈر حوصلے سے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور وطنِ عزیز کی خاطر کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا۔

پھر ایک انقلابی اُٹھاجو کبھی سونامی، کبھی نیاپاکستان، کبھی ریاستِ مدینہ اور کبھی حقیقی آزادی جیسے بیانیے گھڑ کر ناپختہ ذہنوں کو مسموم کرتا رہا۔ جب 2013ء میں تحریکِ انصاف نے خیبرپختونخوا کی حکومت سنبھالی تو صوبہ 95 ارب روپے کا مقروض تھا لیکن جب 2023ء میں حکومت چھوڑی تو یہ قرض بڑھ کر 950 ارب تک جا پہنچا۔

2018ء کے عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی اور اپنی اندھی طاقت کے زور پر اُس کے سَر پر وزارتِ عظمیٰ کا تاج سجایا تو اپنے ساڑھے 3 سالہ دَورِ حکومت میں اُس نے پاکستان کے کل قرضے کے 75 فیصد کے برابر قرضہ لیا اور لگائی ایک اینٹ بھی نہیں۔ "بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے" کے مصداق جب اسٹیبلشمنٹ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اُس وقت تک پاکستان نہ صرف ڈیفالٹ کے کنارے تک پہنچ چکا تھا بلکہ اقوامِ عالم میں تنہائی کا شکار بھی ہوگیا۔ لاڈلے کی مگر پھر بھی یہ ضد تھی کہ اُسے اگلے 10 سالوں تک اسٹیبلشمنٹ گود میں بٹھائے رکھے۔

اسٹیبلشمنٹ کو مگریہ منظور نہ تھا کیونکہ لاڈلے کا ہر قدم نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کی بدنامی کا باعث بن رہا تھا بلکہ پاک فوج کے بارے میں عوام کی زبانیں بھی دراز ہو رہی تھیں۔ بقول سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ فوج نے فروری 2021ء میں ہی نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ 8 مارچ 2022ء کو جب لاڈلے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی گئی تو اُس نے کہا "اگر مجھے نکالا گیا تو میں اور زیادہ خطرے ناک ہو جاؤں گا"۔

آنے والے دنوں میں اُس نے "خطرے ناک" بن کے بھی دکھایا۔ لاڈلا دراصل اِس احمقانہ زعم میں مبتلاء تھا کہ اگر 2014ء کے دھرنے میں سول نافرمانی کا اعلان کرنے، وزیراعظمِ ہاؤس پر حملہ کرنے، پی ٹی وی پر قبضہ کرنے، پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ توڑنے، یوٹیلیٹی بلز جلانے، پولیس سٹیشن پر حملہ کرکے اپنے کارکُن چھڑوانے اور غیرممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کے باوجود کوئی اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تو اب بھی وہ سُرخ رو ہوگا۔ نرگسیت کا شکار لاڈلا شاید یہ بھول چکا تھا کہ 2014ء کے دھرنے میں پاک فوج اورعدلیہ اُس کی پُشت پر تھی لیکن اب فوج اُسے دھتکار چکی۔

جب اُسے یقین ہوگیا کہ فوج واقعی نیوٹرل ہوچکی تو اُس نے کہنا شروع کر دیا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ ایک سالہ جدوجُہد کے دوران اُس نے کئی بیانیے بدلے اور قدم قدم پر جھوٹ کی آڑھت سجاتے ہوئے کبھی امریکہ تو کبھی اسٹیبلشمنٹ کو موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔ اُس نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اُسے دوبارہ حکومت نہ ملی تو (خُدانخواستہ) پاکستان کے 3 ٹکڑے ہو جائیں گے اور ایٹمی پروگرام بھی ختم ہوجائے گا۔ اُس کے اِس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اُسے ملک وقوم سے مطلق کوئی ہمدردی نہیں تھی۔

اسٹیبلشمنٹ نے تو اُسے دھتکار دیا لیکن بدقسمتی سے عدلیہ نے اُسے گود لے لیا۔ باوجود اِس کے کہ عدلیہ پر طنزوتعریض کے تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی ہے لیکن وہ لاڈلے کے ناز اُٹھانے میں مگن۔ لاڈلے کی خاطر ہی عدلیہ نے صدارتی ریفرنس میں آئین کے آرٹیکل 63-A کو RE-WRITE کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ 25 مئی 2022ء کو وہ جلوس لے کر ڈی چوک اسلام آباد کی طرف عازمِ سفر ہواتو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ احتجاجی جلوس ڈی چوک کی بجائے H-9 پارک اسلام آباد جائے گا۔ لیکن جلوس کی قیادت کرتے ہوئے لاڈلے نے کارکنوں کو ڈی چوک ہی پہنچنے کی ہدایت کی۔

کارکن ڈی چوک پہنچے اور درختوں کو آگ بھی لگائی لیکن جب لاڈلا ڈی چوک سے ایک کلومیٹر دور پہنچا تو اُسے بتایا گیا کہ ڈی چوک میں پہنچنے والے کارکن منتشر ہو چکے ہیں۔ اِس لیے وہ 6 دنوں کا الٹی میٹم دے کر لوٹ گیا۔ 26 مئی کو چیف جسٹس سپریم کورٹ محترم عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جب توہینِ عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو چیف صاحب نے فرمایاکہ ہوسکتا ہے عمران خاں تک سپریم کورٹ کا درست پیغام نہ پہنچا ہو۔ پھر اُنہوں نے 2 تحقیقاتی ایجنسیوں کو ایک ہفتے کے اندر تحقیقاتی رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے بنچ کی کارروائی مؤخر کر دی۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کی رپورٹ تو مقررہ وقت پر جمع ہوگئی لیکن چیف صاحب شاید توہینِ عدالت کی کارروائی بھول چکے کیونکہ ایک سال ہونے کو آیا وہ کارروائی کہیں فائلوں میں گُم ہے۔

9 مئی کو جب عمران خاں توشہ خانہ کیس میں 2 ہفتوں کی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے تو اُنہیں رینجرز نے گرفتار کرکے نیب راولپنڈی کے سپرد کر دیا جہاں اُس کے خلاف القادر یونیورسٹی کا کیس درج تھا لیکن وہ نیب عدالت پہنچنے سے انکاری تھا۔ اُس کے خلاف القادر ٹرسٹ، توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ جیسے کیس درج تھے جن میں وہ تاحیات نااہلی کے ساتھ ہی ساتھ جیل بھی جا سکتا تھا لیکن عدلیہ نے تفتیشی اداروں کو کارروائی سے روکا ہوا تھا۔

9 مئی وہی دن ہے جسے پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ "یومِ سیاہ" کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اُس دن عمران خاں کے دہشت گردوں نے پورے پاکستان میں ٹولیوں کی صورت میں وحشت وبربریت کا ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا جس کی نظیر تاریخِ پاکستان میں نہیں ملتی۔ اُس دن پاکستان کا جھنڈا جلایا گیا، پاک فوج کی وردی جلائی گئی، جنگی اعزازی توپ اور ایم ایم عالم کا وہ جہاز جلایا گیاجس نے 65ء کی جنگ میں بھارتی ایئر بیس ہلواڑہ کو تباہ کیا، لاہور میں قائدِاعظم محمدعلی جناح کی وہ رہائش گاہ جلائی گئی جو اب کورکمانڈر لاہور کا گھر ہے۔

لاہور کینٹ میں سی ایس ڈی شاپ میں توڑپھوڑکی گئی اور پوری فارمیسی لوٹ لی گئی۔ راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملہ کرکے توڑپھوڑ کی گئی۔ گوجرانوالہ کینٹ پر حملہ کیا گیا۔ ملتان اور کراچی کے کورکمانڈر ہاؤسز پر حملہ کیا گیا۔ فیصل آباد میں آئی ایس آئی کا دفتر جلایا گیا اور جہاں کہیں فوجی تنصیبات نظر آئیں، وہیں پٹرول بمبوں سے آگ لگائی گئی۔ کیپٹن کرنل شیر خاں شہید نشانِ حیدر کے مجسمے کی تباہی پر بھارتی میجر گورو آریا نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا "کرنل شیر خاں تمہارے لیے مرا، کیا اُسے بھول گئے؟"۔

کارگل کی جنگ میں کیپٹن کرنل شیرخاں اِس بہادری سے لڑے کہ بھارتی فوج نے اُن کی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ شہید کی لاش پاکستان کے حوالے کی۔ اندازہ کریں کہ وہ ملک دشمن شَرپسندکتنے بے غیرت تھے جنہوں نے قائدِاعظم کے گھر کو بخشا نہ شہداء کی یادگاروں کو اور نہ ہی کرنل شیر خاں شہید کے مجسمے کو۔ علاوہ ازیں دہشت گردوں نے حکومتی اور نجی گاڑیوں، بسوں، ایمبولینسز اور حکومتی ونجی املاک کو بھی نذرِآتش کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے عدالت میں اُسے ویلکم کرتے ہوئے درخواست کی کہ وہ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرے لیکن لاڈلے نے جواب دیا کہ یہ اُس کی گرفتاری کا رَدِعمل تھا۔ یہی نہیں بلکہ اُس نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی بیان دیا "اگر مجھے دوبارہ گرفتار کیا گیا تو ویسا ہی ردِعمل آئے گا"۔ اب چاروں طرف سے گھرے "بُزدل خاں" نے 18 مئی کو ایک صحافی کے سوال کے جواب پر کہا "کون کہتا ہے میں نے مذمت نہیں کی"۔

ہم سمجھتے ہیں کہ خوف کے عالم میں دیئے گئے اِس بیان کی کوئی قدروقیمت نہیں۔