1. ہوم
  2. کالمز
  3. ریٔس احمد کمار
  4. افسانوی صدائیں

افسانوی صدائیں

ولر اردو ادبی فورم کشمیر ایک فعال اور متحرک ادبی تنظیم ہے جو نہ صرف اردو زبان و ادب کے فروغ کے حوالے سے سرگرم عمل ہے بلکہ اس نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ اردو کو وہ وقار اور شان دوبارہ دلائی جائے جو اس زبان کو ماضی میں حاصل تھی اور جس کی یہ بین الاقوامی زبان حقیقی معنوں میں حقدار ہے۔

یہ ادبی فورم 2016 میں جناب غلام رسول راتھر کی سرپرستی میں قائم ہوا۔ اس کے صدر طارق شبنم ہیں، جو ایک منجھے ہوئے اور مستند افسانہ نگار کی حیثیت سے وادی اور بیرونِ وادی میں پہچانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی، جو نامور ادیب و ناقد ہیں اور راجہ یوسف، جو ایک معتبر افسانہ نگار ہیں، اس تنظیم کے اہم و بنیادی رکن ہیں۔ یہ شخصیات اس فورم کو فعال بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

یہ ناانصافی ہوگی اگر ایس معشوق احمد اور عمران یوسف کا ذکر نہ کیا جائے۔ دونوں نوجوان قلمکار ایک سپاہی کی طرح خونِ جگر سے اس تنظیم کی خدمت کرتے آئے ہیں اور ادب نوازی کے جذبے کے تحت قدم سے قدم ملا کر اس کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ولر اردو ادبی فورم کشمیر نے اس وقت بھی اپنی خدمات جاری رکھیں جب پوری دنیا کورونا جیسی عالمی وبا سے دوچار تھی۔ انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کرتے ہوئے اس تنظیم نے فیس بک پر افسانوی ایونٹس کا انعقاد کیا۔

دنیا بھر کے ممتاز افسانہ نگاروں نے اس فورم کے پلیٹ فارم پر اپنی تخلیقات ارسال کیں، ناقدین نے ان پر اپنی آرا دیں اور بعد میں طویل مباحثے بھی ہوئے۔ یہ افسانوی ایونٹس ہر سال باقاعدگی سے منعقد ہوتے رہے اور ان میں شامل افسانوں کو کتابی صورت میں محفوظ کرنے کی سنجیدہ کوشش بھی کی گئی۔ 2022 میں بھی حسبِ روایت ایک افسانوی ایونٹ منعقد ہوا، جس میں وادی، ملک اور بیرونِ ملک سے اکتیس افسانہ نگاروں نے شرکت کرکے اپنی تخلیقات پیش کیں اور داد و تحسین حاصل کی۔ بعد ازاں ان افسانوں کو ڈاکٹر شاہینہ یوسف صاحبہ جو اردو کی ایک ابھرتی ہوئی اور نمائندہ آواز ہیں نے کتابی شکل دی تاکہ یہ تخلیقات ہمیشہ کے لیے محفوظ رہیں۔

افسانوی صدائیں نامی یہ افسانوی مجموعہ ایجوکیشنل پبلیکیشنز ہاؤس نئی دہلی سے شائع ہوا ہے۔ یہ 180 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں کل اکتیس افسانوں کے علاوہ پروفیسر خواجہ اکرام الدین، ڈاکٹر مشتاق احمد وانی، ڈاکٹر ریاض توحیدی اور ڈاکٹر شاہینہ یوسف کے مضامین بھی شامل ہیں۔ پروفیسر خواجہ اکرام الدین کے مطابق اس مجموعے میں شامل بیشتر افسانے نئے ہیں اور اپنے عہد کی ترجمانی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کا کہنا ہے کہ ولر اردو ادبی فورم کشمیر کا بنیادی مقصد اردو زبان و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔ کتاب کا پیش لفظ لکھتے ہوئے ڈاکٹر شاہینہ یوسف اعتراف کرتی ہیں کہ اس فورم کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے نامور اور نوآموز قلمکاروں نے ایسے افسانے تخلیق کیے ہیں جن کی مثالیں پیش کرنا مشکل ہے۔

ڈاکٹر ریاض توحیدی نے فورم کے افسانوی ایونٹس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کس طرح ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ان کی یہ آرا قابلِ داد و ستائش ہیں۔ "واپسی" برصغیر کے مایہ ناز اور بلند مرتبہ افسانہ نگار نور شاہ کا یہ افسانہ اس مجموعے کا پہلا افسانہ ہے۔ اس میں موصوف نے کشمیر کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ موجودہ صورتحال کو بھی نہایت کامیابی سے اجاگر کیا ہے، جس میں ہم مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ کر اپنی اپنی الگ "ڈیڑھ اینچ کی مسجد" کھڑی کر چکے ہیں۔

شکور بھنگی اس مجموعے میں شامل ایک اور متاثر کن افسانہ ہے جسے طارق شبنم نے تخلیق کیا ہے۔ شکور بھنگی ایک مل میں مزدور کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ وہ بظاہر نماز وغیرہ کا بالکل بھی پابند نہیں تھا، مگر حیرت انگیز طور پر قرعہ اندازی میں حج کے لئے ہر بار اسی کا نام نکل آتا تھا۔ مل کے مزدور اور مالک سبھی اس بات پر حیران تھے کہ آخر ایسا کیا سبب ہے کہ بار بار شکور ہی منتخب ہوتا ہے۔ آخرکار جب شکور کی بیوی نے راز سے پردہ اٹھایا تو معلوم ہوا کہ شکور درحقیقت ایک نہایت نیک انسان ہے۔ وہ ایک بیوہ عورت کا اس قدر خیال رکھتا تھا کہ خدا نے اسے اس خدمت کے صلے میں حج کی سعادت کے لئے منتخب فرمایا۔

خوشبو، وادیِ گلپوش سے تعلق رکھنے والی ایک معتبر نسوانی آواز نیلوفر ناز نحوی صاحبہ کا تخلیق کردہ افسانہ ہے۔ اس کہانی میں یہ حقیقت نہایت مؤثر انداز میں اجاگر کی گئی ہے کہ جب بھی ہم کسی شخص، خصوصاً کسی عورت، کو اپنے گھر میں کرایہ پر کمرہ دینے کا فیصلہ کریں تو پہلے اس کی صلاحیت اور شرافت کو پرکھ لینا ضروری ہے، ورنہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعد میں پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

کشکول کی قیمت، وادیٔ کشمیر کی نامور افسانہ نگار واجدہ تبسم گورکو صاحبہ کا تحریر کردہ ایک پردرد اور دل کو چھو لینے والا افسانہ ہے۔ اس میں یہ دکھانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے کہ آج کا جدید دور معصوم عورتوں، بالخصوص چھوٹی بچیوں کے لئے کس طرح جہنم بن چکا ہے۔ انسانی شکل میں درندہ صفت مرد، غربت اور محرومی کے دلدل میں جکڑی ان بے سہارا لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، ان کی عصمتیں تار تار کرتے ہیں اور ان کی معصوم زندگیوں سے کھیل کھیلتے ہیں۔

"انسان اور پرندے"، دانش علی راؤ کا یہ افسانہ عہدِ حاضر میں حکومتی سطح پر کیے جانے والے ماحول دشمن اقدامات کی مذمت کرتا ہے۔ ان اقدامات میں نہ صرف ماحولیاتی توازن کو نظرانداز کیا جاتا ہے بلکہ ان بے زبان جانوروں اور پرندوں کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا جن کے آشیانے درختوں پر قائم ہوتے ہیں اور جنہیں کاٹ کر مختلف تعمیراتی منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ ولر اردو ادبی فورم کشمیر واقعی قابل داد اور قابل سراہنا کام انجام دینے میں محو ہے، اللہ کرے یہ ادبی تنظیم دن دگنی رات چگنی ترقی کرے۔