1. ہوم
  2. کالمز
  3. رحمت عزیز خان
  4. تجمل کلیمؔ، پنجابی شاعری کا ترجمان شاعر

تجمل کلیمؔ، پنجابی شاعری کا ترجمان شاعر

پنجابی ادب کا دامن ہمیشہ سے روحانیت، مزاحمت، عشقِ حقیقی و مجازی، دیہی زندگی کے کرب اور معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف صدائے احتجاج سے لبریز رہا ہے۔ بلھے شاہ، وارث شاہ، میاں محمد بخش اور استاد دامن جیسے شعرا نے اس روایت کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔ اسی سلسلے میں جدید دور کے جن شعرا نے اپنے منفرد اسلوب سے اس روایت کو آگے بڑھایا، ان میں تجمل کلیمؔ کا نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ وہ کہتے ہیں:

مرن توں ڈر دے او بادشاہو
کمال کر دے او بادشاہو

کسے نوں مارن دا سوچدے او
کسے تے مردے او بادشاہو

تُسی نا پاؤ دِلاں تے لَوٹی
تُسی تے سَر دے ہو بادشاہو

اے میں کھڈاری کمال دا ہاں
کہ آپ ہَر دے او بادشاہو

کلیم ککھاں توں ہَولے او نا!
تدے ای تر دے او بادشاہو

تجمل کلیمؔ کا تعلق پنجاب کے ضلع قصور کی تحصیل چونیاں سے ہے، جو اپنے صوفیانہ اور دیہی ثقافت کے لیے مشہور ہے۔ چونیاں کی مٹی نے کئی اہلِ قلم پیدا کیے، لیکن کلیمؔ نے پنجابی شاعری کو جو خلوص، دردمندی اور مزاحمتی لہجہ دیا، وہ انہیں معاصر شعرا میں ممتاز کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

اکھ کھولی تے دُکھان دے جال ویکھے
اُتوں ہنڈدے جندڑی نال ویکھے

اک دن سی ہجر دا سال ورگا
اسیں دن نئیں سالاں دے سال ویکھے

تُونہہ کیڑے دے رزق دی سوچ ربا
اسیں بُھکھ توں وکدے بال ویکھے

اسیں ویکھیا لہوُ دا رنگ چٹا
اسیں پُھل کپاہواں دے لال ویکھے

میں نچیاں جگ دے سُکھ پاروں
سد بُلھے نوں میری دھمال ویکھے

ایس جھلے کلیم نوں روک دلا
ایہنوں آکھ سُو ویلے دی چال ویکھے

تجمل کلیمؔ کی شاعری میں دیہاتی تجربات، مظلوم انسان کی چیخ، عشقِ مجازی کی تلخی اور معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف نفسیاتی و علامتی احتجاج شامل ہے۔ ان کی فکر، اسلوب اور زبان پنجابی بولنے والے عام انسان کی آواز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

جیون رُکھ نوں ہتھیں ٹکے نہ مارو
ساہ دے دانے چبو، پھکے نہ مارو

بال کھڈونے ویہندا اے تے کیہ ہویا
آپے ٹر جاوے گا، دھکے نہ مارو

حرصاں اگے موت دہائیاں دیندی رہی
ریفل اگے ویر جے سکے نہ مارو

جت لینا تے کھوہنا اک برابر نئیں
دُکیاں نال تے ساڈے یکے نہ مارو

سارے یار کلیمؔ جی لوبھی نئیں ہندے
دل نوں جندرے پکے پکے نہ مارو

تجمل کلیمؔ کے اب تک شائع شدہ شعری مجموعے درج ذیل ہیں جن میں سرفہرست برفاں ہیٹھ تندور (1996) ہے۔ یہ مجموعہ پنجابی دیہاتی زندگی کی تصویری شاعری ہے، جہاں تندور کی حرارت اور برف کی ٹھنڈک معاشرتی تضادات کی علامت کے طور پر استعمال ہوئی ہے۔

دوسری کتاب ویہڑے دا رکھ (2010) ہے۔ یہ کتاب پنجابی ثقافت کے جمالیاتی پہلوؤں اور محبت کے مدھم، مگر گہرے اظہار کا مظہر ہے۔

تیسری کتاب ہان دی سولی (2012) ہے۔ ہان (محبت یا جدائی کا درد) کو سولی پر چڑھانے کی تشبیہ، کلیمؔ کی شاعری کو صوفیانہ و مزاحمتی روایت سے جوڑتی ہے۔

چوتھی کتاب چیکدا منظر (2017) ہے۔ یہ مجموعہ جدید سیاسی و سماجی منظرنامے پر شاعر کے گہرے تجزیے کو پیش کرتا ہے۔

تجمل کلیمؔ کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی زبان کی سادگی اور خیال کی گہرائی ہے۔ وہ لفظوں سے تصویریں بنانے کا گر جانتے ہیں اور تشبیہات و استعارے ان کی شعری شناخت بن چکے ہیں۔

ان کی شاعری میں مزاحمت اور احتجاج بھی شامل ہے۔ کلیمؔ کی شاعری میں ایک دبی دبی مزاحمت بھی نظر آتی ہے جیسے:

مرن توں ڈر دے او بادشاہو
کسے نوں مارن دا سوچدے او

یہ اشعار دراصل ایک داخلی احتجاج کا اظہار ہیں، جہاں شاعر طاقت کے نمائندوں سے سوال کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔

ان کی شاعری میں دیہی مسائل کے حل کے لیے درد مندی کا اظہار بھی ہے۔ ان کی شاعری میں دیہاتی زندگی کی سچائیاں، فطرت کے مناظر، غربت اور معاشرتی ظلم جابجا نظر آتے ہیں مثلاً:

اکھ کھولی تے دکھاں دے جال ویکھے
اسیں دن نئیں، سالاں دے سال ویکھے

ان کی شاعری میں صوفیانہ رنگ بھی ہے۔ ان کے کئی اشعار بلھے شاہ، میاں محمد بخش اور بابا فرید کی صوفیانہ روایت سے جڑے نظر آتے ہیں جیسے:

میں نچیاں جگ دے سکھ پاروں
سد بُلھے نوں میری دھمال ویکھے

تجمل کلیمؔ کی شاعری کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ سماجی حقیقتوں کو علامتی پیرائے میں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں، جو قاری کو سوچنے اور غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ان کا اسلوب نہایت مربوط، روان اور تہہ دار ہے۔ ان کے ہاں لسانی جدت کے بجائے ثقافتی سچائی کو فوقیت حاصل ہے۔

تاہم بعض تنقید نگار یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ ان کی شاعری میں جدید استعاراتی و علامتی نظام کی گنجائش بہت کم ہے اور وہ بعض اوقات روایتی طرزِ اظہار پر انحصار کرتے ہیں۔ مگر ان کا یہی طرزِ اظہار دراصل ان کے قاری کے ساتھ ربط قائم کرتا ہے۔

تجمل کلیمؔ پنجابی زبان کا ایک سچا اور کھرا ترجمان ہے، جس کی شاعری میں لوک دانش، صوفی وجدان اور مزاحمتی روح کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ پنجابی ادب کے اس تسلسل کا حصہ ہیں جو بلھے شاہ سے شروع ہو کر استاد دامن اور منیر نیازی تک پہنچا اور آج تجمل کلیمؔ جیسے شعرا میں زندہ ہے۔

ان کا شعری سفر ایک معاشرتی شعور کی بیداری کا سفر ہے اور ان کی شاعری آئندہ نسلوں کے لیے روحانی و فکری سرمایہ بن سکتی ہے۔