1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. صا ِئمہ عروج/
  4. صلیب سیاست اور مصلوب جمہوریت

صلیب سیاست اور مصلوب جمہوریت

صائمہ عروج بٹ

"جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"

جلال بادشاہت بھی رہا اور جمہوری تماشا بھی ہے اصول سیاست کے میزان سے گرے تو چنگیزی جہالت اور تخت کا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ کسی بھی ملک کی حکومت مائی باپ ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک کا حکمران تربیت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ابتدائے تحریر میں ہی یہ سوال عنوان زباں ہے کہ کیا ہمارے عوام وفادار واقع ہوئے ہیں؟ کیا یہ ملک کی ترقی سے دلی وابستگی رکھتے ہیں ؟ کیا قلندرانہ ادائیں اور سکندرانہ جلال ہماری قوم میں ہے۔ وہ دلوں کے شہنشاہ اقبال مشرق و مغرب کہتے رہے "خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر"
"بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا،

نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی"۔

اس وسعت اتحاد کو امت مسلمہ کیا اپنائے میری قوم حدود پاکستان میں مکمل پاکستانی نہ بن سکی۔

کیوں؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے کہ حکمرانوں نے اس قوم کو قائداعظم رح کے بعد یتیم ہی سمجھا۔ ۔ ۔ تخت لے کر تختہ کر دیا لیکن آج تک جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم رکھا۔ کلیجہ منہ کو آتا ہے یہ سوچ کر کہ ہائے میرا وطن ایک سر سبز درخت اور اس کی ٹھنڈی چھاؤں کی مانند تھا اسے حکمرانوں کی صورت ایسی آکاس بیل لپٹی کہ اب اس کی چند شا خیں ہی زندہ بچ پائی ہیں۔ اسے پھر کوئی اپنی اولاد کہنے والے شیر جگر باحوصلہ وسعت تخیل اور مضبوط بازوؤں والے والدین چاہئیں۔ ۔ ۔ یہ وطن محبت کی بارش کو ترس گیا ہے۔ اس کے شہر خود پر آنسو بہا رہے ہیں اس کی گلیاں تعفن زدہ ہیں اس کے پرچم کا لباس تار تار ہے اس کی آزادی نوحہ گر ہے اس کے گاؤں اور شہر بیمار ہیں اس کی گلیاں یرقان زدہ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب لوگ چیخ پڑیں گے کہ ہائے یہ کیوں لکھا اور وہ کیوں کہا۔ ۔ ۔ ۔ فرقوں میں بٹے لوگ تو تو میں میں سے آگے جاتے ہی نہیں

پاکستان کے سیاسی میدان خونیں اکھاڑے، اور چوں چوں کا مربع بن جاتے ہیں ان میں عوام کی یہ تربیت ہوتی ہے "لوگو! میں لیڈر ہوں دودھ کا دھلا، میرے والدین پوتر اور جو دوسرا ہے وہ پارٹی کا لیڈر نہیں گیدڑ ہے، ڈنڈے اٹھاؤ گالیاں دو یہ سب ثواب کا کام ہے، دوسروں کی مائیں بہنیں اپنی نہیں ہوتیں اس لیے دوپٹے کھینچ لو، ڈانس کرواؤ، یہ ثواب کا کام ہے، جمہوریت میں اسلام نہیں ہونا چاہیے، اگر کوئی عالم دین جب تک انگریزی نہ بولے اسے پارٹی تو کیا ہمارے اسلام سے خارج کر دو، قرآن و سنت کے مطابق چلو گے تو سادہ لوگ کہلاؤ گے ماڈرن بنو ترقی یافتہ بنو اور تعلیم!!!! یہ کیا بلا ہوتی ہے تمہاری اولادوں کو پیسہ کمانے کے شارٹ کٹ بتائیں گے آئل ٹینکرملک کی ہر سڑک پر الٹا کریں گے ہم جیسے حلال کا رزق کھاتے ہیں ہمارے غریبو!!! رزق تم تک من و سلوی بن کر آئے گا، بچے خالص دودھ پی کر اصلی گندم چاول کھا کر کیا کریں گے ٹیکنالوجی کا دور ہے کیمیکلز سستے ہیں پاگلو! یہ سب تم خود بناؤ گوشت چاول سبزیاں پلاسٹک کی بناؤ۔ ۔ یہ کھیتی باڑی غریبوں کے کام ہیں آو آؤ سب کے سب امیر ہو جاؤ چاہے دو چار اپنوں کے ہی گلے کاٹ دو سب حلال ہے، لیڈر کے لیے سر کٹا دو شہید ہو رسول پاک صلی اللہ علیہ علیہ وآلہ وسلم ہم سب کے لیڈر ہیں ان کا نام لے کر گلے کاٹو سب حلال ہے"

روزانہ ٹی وی اخبار موت کی خبر سے دن کا آغاز کرتے ہیں لاشیں اٹھاتے کندھے تھک جاتے ہیں اور بین کر کر دل اور آنکھیں تھک جاتے ہیں لیکن ہمارے لیڈروں کی تجوریاں بھرتی ہی نہیں۔ ۔ ۔ ۔

ہسپتالوں میں زمیں پر دل کے مریض تڑپتے دیکھے ماؤں کو بچوں کے لیے خون نہیں ملتا تعلیمی ادارے بدمعاشوں کے سرغنوں نے سنبھال رکھے ہیں۔ ۔

یا رب کس سے منصفی چاہیں ؟ کس سے گلہ کریں ؟

آج حکمرانوں کے سؤیس بینک پانامہ فلیٹس اور نہ جانے

دبئ قطر اور لندن کی جائدادوں کے صرف نام زبان زد عام ہونے پر اتنی بے چینی ہے کہ ہم عوام مایوس تر ہو چلے ہیں کہ حکمران اپنی پائی پائی جو اپنے خون پسینے سے بھی نہیں بلکہ حلال و حرام کے مکسچر سے جوڑی ہے اور عوام کا خون نچوڑ کر جوڑی ہے اس کے لیے اشک بہا بہا کر معصوم معصوم بے گناہ بے گناہ کے افسانے سنا رہے ہیں۔

عوام مہنگائی سہتی ہے تو اسحاق ڈار کہتے ہیں مرغی کھاؤ

زرا یہ تو بتائیں کتنے فی صد کی دسترس میں ہے وہ فارم زدہ خوراک سے پلی ہوئی بیماریوں کی گٹھڑی مرغی؟؟؟

اور کتنے لوگوں کی دال تک بھی رسائی ہے؟؟

لوگ پیاز اور آلو نہیں خرید سکتے۔ ۔ کتنے لوگ اس وطن میں عزت سے روٹی کھاتے ہیں؟ کتنے لوگ شام تک گھر جا پاتے ہیں ؟؟ چادر اور چار دیواری کا تحفظ کہاں ہے؟

کیا آپ سب ایسے ہو کہ اپنا اپنا میری میری چھوڑ کر میرے وطن کی غربت ہی مٹا دو؟؟؟ رات کو ماوں کے دامن سے چپک کر روتے بھوکے بچوں کو سردی گرمی اور بھوک سے بچاؤ کے لیے شیلٹر ہومز ہی بنا دو؟؟؟

دو چار مسکین کدے کھول کر جنت کے حقدار نہیں بنا جاتا

۔ ۔ ۔ مسکین کو پالے ایدھی، گھر بنائے ملک ریاض، کوڑا اٹھائیں این جی اوز، بھکاریوں کی خیرات دے تنخواہ دار طبقہ اور آپ ؟؟؟؟؟ آپ حکمرانوں کا تو یہ وطن ہی نہیں نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تو اگر آپ کا یہ وطن نہیں اور ہم عوام آپ کے نہیں تو یہاں سے کمائی ہوئی ہر پائی اگر عوام کا حق تھا اور عوام نہیں حق لے سکے آپ سے تو اللہ اپنا واحد الوجود ہونا بتا رہا ہے آپ کو۔ آپ ایسی دولت پر ضرور پچھتاتے ہیں جب وہ حقدار کے منہ سے چھینی ہو۔ آپ کو دکھ نہ ہوا ہو شائد لیکن اتنا افسوس ہوا دل کو کہ آپ کے حافظ قرآن بچے کو باپ کے گناہوں پر جھوٹ بولنے پڑے۔ حیرت ہوئی کہ جسے جنت اور اللہ کی خوشنودی کے لیے تیار کیا اسے گناہوں کی گاڑی میں بٹھاتے دل نہ کانپا ؟؟؟

شائد عدالت کی پیشیاں بھگتتے بچے آپ کو روز ان مجبور والدین کی یاد دلائیں جو رزق کی کمی اور غربت کے مارے روزانہ اپنے بچے بیچنے نکلتے ہیں اور آپ میں سے ہاں حکمرانوں میں سے ان کے اشک پونچھنے بھی کوئی نہیں آتا

یہ دولت کیا کمال کی شے ہے نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ مر جاتے ہیں سب کچھ اسی دنیا میں چھوڑ جاتے ہیں۔ ۔ ۔ پھر بھی ہوس ہے اس مال کی کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔ ۔ ۔

یاد رہے یہ دنیا کا احتساب ہے اب بھی اس میں نرمی ہو سکتی ہے اللہ کی طرف سے لیکن مر نے کے بعد اعمال کا بوجھ اور عوام کی سسکتے بلکتے شب و روز کا بوجھ کیسے اٹھائیں گے حکمران۔ ۔ ۔

سیاست ایک صلیب ہے تخت کانٹوں کی سیج ہے۔ ۔ منصف اگر منصفی نہ کرے اور حکمران عادل نہ ہو تو یہ تخت مقتل گاہ بن جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہم سب کو سیدھی راہ پر راہنمائی فرمائے

آمین