1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ذیشان نور خلجی/
  4. نور مقدم ! ہم تمہیں زندہ درگور کریں گے

نور مقدم ! ہم تمہیں زندہ درگور کریں گے

لوگ کہتے ہیں نور مقدم قتل ہو گئی، اس کے ساتھ بہت ظلم ہوا۔ یقین جانیے، ظلم نور مقدم کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے پیچھے زندہ بچ جانے والیوں کے ساتھ ہوا ہے۔ ظلم ہماری بیٹیوں کے ساتھ ہوا ہے اور ظلم کرنے والے بھی ہم ہی لوگ ہیں۔

درسی کتابوں میں پڑھا تھا کہ اسلام کی آمد سے پہلے عرب معاشرہ جہالت کا شکار تھا لوگ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں آج ہمارا معاشرہ اس عرب جہالت سے بھی کئی گنا آگے بڑھ چکا ہے۔ وہ عربی بدو، کتابیں جن کی الم ناک داستانوں سے بھری ہوئی ہیں مگر ایسی نوزائیدہ بچیوں کو دفن کیا کرتا تھے احساس و جذبات کی کونپلیں ابھی جن کے دلوں میں پھوٹی نہیں تھیں۔ جب کہ ہم ظالم لوگ ان بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے پر تلے ہوئے ہیں زندگی کی کئی ایک خزائیں (بہاریں) جنہوں نے دیکھ رکھی ہیں۔

اکثر سوچتا تھا کتابوں میں سب جھوٹ لکھا ہوتا ہے بھلا کوئی اپنی بیٹیوں کو بھی زندہ درگور کرتا ہے اور اگر یہ سچ بھی ہے تو ظلم کی ہزار داستانوں میں کوئی ایک آدھ ہی سچی ہو گی۔ لیکن آج اپنے معاشرے کا مسخ شدہ چہرہ دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا ہے کہ واقعی بیٹیاں کوئی اتنی پیاری بھی نہیں ہوتیں کہ ان کا گلا گھونٹتے ہوئے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جائے۔ آ جا کر یہ نیچ مخلوق ہی تو ہیں کوئی ہمارے جگر کا ٹکڑا تھوڑی ہیں جو ان کا خون چوستے ہوئے ہمارے ہونٹ کانپنے لگ جائیں۔

یار لوگ کہتے ہیں تم کس فرسودہ معاشرے کی باتیں کرتے ہو۔ ان سے پوچھیے کیا ہم لوگ وہی نہیں، جنہوں نے اپنی بیٹیوں کا ریپ ہونے کے بعد برملا کہا تھا کہ اگر یہ مناسب لباس پہنتیں تو مرد کے جذبات میں حیوانیت نہ دھر آتی۔ یقین جانیے وہ ہم ہی تھے جنہوں نے اپنی بہن کے متعلق کہا تھا اگر یہ رات کو اکیلی موٹر وے پر سفر نہ کرتی تو ڈاکو اسے اپنی ہوس کا نشانہ نہ بناتے۔ یاد کیجیے ہم ہی تھے وہ لوگ، جنہوں نے وزیراعظم کے بیان پر بغلیں بجائی تھیں کہ ہم مرد ہیں کوئی روبوٹ تھوڑی ہیں جو عورت کو دیکھ کر ہمارے جذبات نہ بھڑکیں۔ عثمان مرزا ہماری جوان بہن کو اپنے دوستوں کے سامنے ننگا کر کے نچاتا رہا اور ہم اپنی ننگی سوچ کے ساتھ اپنی ہی ننگی بہن پر لعن طعن کرتے رہے۔ اور آج نور مقدم کے ساتھ بھی ہم لوگ یہی تو کر رہے ہیں۔ جان لیجیے آج ہم نور مقدم کی سر بریدہ لاش کو مسخ نہیں کر رہے بلکہ اپنی زندہ بچ جانی والی بیٹیوں کی لاشوں کو گدھوں کی طرح نوچ رہے ہیں ان کی روحوں کو کچوکے لگا رہے ہیں اور انہیں زندہ درگور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

یقین جانیے عربی بدو بڑے رحم دل تھے جو اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا کرتے تھے کم از کم ان کی نوزائیدہ بیٹیاں ان کی طرف حسرت کی نگاہ سے تو نہیں دیکھا کرتی تھیں اور کم از کم ان کی بیٹیاں تمام عمر کے غم سے تو آزاد ہو جایا کرتی تھیں۔ جب کہ ہم لوگ اتنے ظالم ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو پال پوس کر پہلے بڑا کرتے ہیں اور پھر انہیں مرنے بھی نہیں دیتے۔

کون کہتا ہے نور مقدم مر گئی ہے۔ ظالمو! نور مقدم زندہ ہے مگر جیتے جی ہمیں مار گئی ہے۔

لوگ کہتے ہیں بے حیائی عام ہو چکی ہے عورتیں ننگی پھر رہی ہیں۔ یقین جانیے آج ہماری عورتیں نہیں بلکہ ہم ننگے ہو چکے ہیں ہماری خباثت کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ جب موٹروے زیادتی کیس میں بھی قصور وار ہماری ہی بہن ہوگی جس کا جرم رات کو اکیلے سفر کرنا تھا۔ جب عثمان مرزا کیس میں بھی قصور وار ہماری ہی بیٹی ہو گی جس کا جرم یار کے ساتھ فلیٹ میں رنگ رلیاں منانا تھا۔ جب ظاہر جعفر کیس میں بھی قصور وار کٹے پھٹے سر والی ہماری ہی بیٹی ہو گی جس کا جرم آزاد خیال سوچ کا مالک ہونا تھا۔ آپ اگر سوچتے ہیں کہ قصور واقعی ہماری بیٹیوں کے تھے تو پھر جان لیجیے یہاں بے حیائی واقعی عام ہو چکی ہے اور وہ بے حیائی ننگے جسموں کی نہیں بلکہ ہماری ننگی سوچ کی ہے۔ دراصل ہم خود ننگے ہو چکے ہیں اور مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک کسی درزی نے ایسا لباس تیار ہی نہیں کیا جو ہماری ننگی سوچ کو اور ہمارے ذہن کے ستر کو ڈھانپ سکے۔

لوگ کہتے ہیں تم نور مقدم کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے ان سے پوچھو کیا میں بے شرم ہوں جو بیچ بازار اپنی جوان بہن کا پوسٹ مارٹم کرنے لگ جاؤں یا میں وہ گدھ ہوں جو اپنی ہی بیٹیوں کو نوچنے لگتا ہے۔

اس جہان میں یا اس جہان میں، نور مقدم! تم جہاں بھی ہو سن لو، ہم تمھیں مرنے نہیں دیں گے بلکہ زندہ درگور کریں گے۔