1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ذیشان نور خلجی/
  4. چاند کی گود میں

چاند کی گود میں

وقت کی ان گھڑیوں میں جب کبھی میں دنیا کا امیر ترین شخص ہوتا ہوں یعنی اپنی من مرضی سے اور پورے اطمینان و سکون کے ساتھ خریداری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں تو میری نظر انتخاب اکثر و بیشتر ایک کتاب پر ہی ٹھہرتی ہے اور پھر اس کتاب کو لے کر ہمیشہ ایک ہی سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ اگلے چند ثانیے میں جو کتاب میری ملکیت میں شامل ہونے والی ہے کیا اس سے مجھے کچھ حاصل بھی ہو گا۔ دراصل اس وقت میں اپنی طبیعت کے برخلاف ایک ٹھیٹھ کاروباری انسان بن جاتا ہوں جس کے پاس حساب و کتاب کرنے والا کیلکولیٹر تو نہیں ہوتا لیکن ایک ایسا پیمانہ ضرور ہوتا ہے جس کے ایک پلڑے میں کتاب رکھی جاتی ہے تو دوسرے پلڑے میں آنے والی زندگی دھری ہوتی ہے اور پھر یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آئندہ زندگی میں یہ کتاب میری کتنی معاون ثابت ہو گی۔

وہ کیا ہے کہ ایک طرف یہ آوارہ مزاج شخص پہروں اپنی تنہائی سگریٹ کے دھوئیں سے باتیں کرتے ہوئے گزار دیتا ہے لیکن دوسری طرف اس کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ اپنی بے وقعت زندگی کے چند ایک گھنٹے کسی ایسی کتاب کی نذر کر سکے جو اہل ذوق کی نگاہ میں تو اہمیت کی حامل ہو لیکن خود اس کی اپنی ذات کے لئے اس میں کوئی تعمیری پہلو موجود نہ ہو۔

لیکن اب کی بار یہ ہوا ہے کہ پچھلے دنوں ایک ایسی کتاب ہاتھ لگی ہے جس نے خیالات میں تبدیلی پیدا کر دی ہے اور اب میرا ماننا ہے کہ اڑھائی تین سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب اگر آپ کو زندگی گزارنے کے لئے کچھ سبق نہ بھی دے تب بھی ایک ایسی مہین سی مسکراہٹ ضرور دے جائے جیسی کہ ایک دو سال کا بچہ، جب اپنی ماں کی آغوش میں دبکا اس کے لٹوں سے کھیلتا ہوا انہیں زور سے کھینچتا ہے تو ماں کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمودار ہوتے ہیں اور بچے کے ہونٹوں پر ایک معصوم سی مسکراہٹ کلبلا اٹھتی ہے، بالکل ایسی ہی بھولی بسری سی مسکراہٹ اگر کسی کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ کے چہرے پر نمودار ہو جائے تو سمجھ جائیے کہ قیمت پوری ہو گئی۔

"چاند کی گود میں " ایک ایسی ہی ہلکی پھلکی سی کتاب ہے جس میں مصنف نے اپنی عام روزمرہ زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی سرکاری ملازمت کا احوال بھی شگفتہ اور مزاحیہ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ گو مصنف کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ کتاب طنز و مزاح پر مشتمل ہے جب کہ میرا ماننا ہے چونکہ طنز میں ایک مخصوص قسم کی چبھن ہوتی ہے جو کہ کتاب میں عنقا ہے لہذا یہ کتاب طنز و مزاح کی نہیں بلکہ ہنستے مسکراتے اور کھلکھلاتے ہوئے شگفتہ مزاح پر مشتمل ہے اور اس میں ایسا کچھ ضرور ہے جو آپ کو اداسیوں سے نکال کر مسکراہٹوں کی دنیا میں لے آتا ہے۔

دوستو! اگر آپ کا بچپن نوے کی دہائی میں گزرا ہے تو یہ کتاب آپ ہی کے پڑھنے کی ہے کیوں کہ یہ محترم اشفاق ایاز کے اسی سادگی والے زمانے میں لکھے گئے کالموں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں آپ کو میاں لچھن اور باؤ کچھن جیسے دلچسپ کردار بھی ملیں گے تو وہیں دوسری طرف سرکاری دفتر کا قاصد محمد لال جو کہ مرزا غالب کے خانوادے سے تعلق رکھنے کے باعث مرزا لال بیگ کہلواتا ہے، کا ذکر بھی ملے گا۔ اس کے علاوہ کتاب میں جو بات مجھے سب سے زیادہ پسند آئی اور جس باعث میں نے اسے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالا وہ ہے اس کا انتساب، جو کہ مصنف نے اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنی زوجہ ماجدہ کے نام کیا ہے۔ اب چونکہ محترمہ سے ہمارے بہت اچھے گھریلو تعلق رہے ہیں لہذا پھر میری متجسسانہ طبیعت کی مجبوری تھی کہ میں ان معزز اور عمر رسیدہ خاتون کی ذات میں چھپی ہوئی اس لڑکی کی تلاش کرتا جس کا ذکر انتساب میں آیا ہے۔

انتساب کچھ یوں ہے

" اپنی بیگم رقیہ فوزیہ کے نام، جو تیس روزہ چاند کی " ایک لڑکی" سے کم نہیں۔"

آپ سے کیا پردہ: سچ کہوں تو میں اس کتاب میں اسی "ایک لڑکی" کو ہی تلاش کرتا رہا اور پتا ہی نہ چلا کب کتاب ختم بھی ہو گئی۔

اور جو لوگ کچھ سڑیل مزاج واقع ہوئے ہیں ان کے لئے یہ کتاب بہت مفید ثابت ہو گی کیوں کہ اس میں مصنف نے قہقہے لگوانے کی کوشش نہیں کی بلکہ قاری کو دھیرے دھیرے مسکراہٹوں سے آشنا کروایا ہے اور پھر یہ کیفیت آخر تک برقرار بھی رکھی ہے۔

آپس کی بات: اگر کتاب پڑھنے میں ناپ تول والی میری نکمی خصلت آڑے نہ آیا کرے تو سچ کہوں ہر دفعہ میری نظر انتخاب "چاند کی گود میں " جیسی ہلکی پھلکی مسکراتی ہوئی کتابوں پر ہی ٹھہرا کرے۔