1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. کشمیر، عہد بہ عہد

کشمیر، عہد بہ عہد

کشمیر کو بھارت جبراً فتح کرنے کے خواب دیکھتا ہے۔ کشمیر، کب کی بات ہے اور اس میں مسلم حکمرانی کا آغاز کب سے ہوا؟ اس حوالہ سے مصنف جی ایم میر، اور معاون مصنف اشفاق ہاشمی نے اپنی تصنیف کشورِ کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں بہترین عکاسی کی ہے۔ وہ کشمیر کے بارے میں یوں راقم طراز ہیں: "جنت ارضی جموں کشمیر کا خطہ گزشتہ چار صدیوں سے (417 سال سے) غلامی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ 16ویں صدی میں مغلوں نے نصف صدی کی پے در پے جارہیت کے بعد 1586ء میں اس خطہ کو تسخیر کرکے اپنی سلطنت کا ایک حصہ بنا لیا اور 166 سال پر حکمرانی کرتے رہے۔

مغلوں کو آیا تو افغانوں نے 1753ء میں تسخیر کرکے 67 سال تک اپنا غلام بنائے رکھا۔ افغانوں کے زوال کے بعد پنجاب کے سِکھ فرمانروار نجیت سنگھ نے افغانوں کو شکست دے کر اس پر اپنا اقتدار قائم کر لیا، جو کہ 1846ء (27 سال) قائم رہا۔ جب انہوں نے انگزیزوں سے جنگ میں شکست کھائی تو تاوانِ جنگ کے طور پر اس خطہ کو انگریزوں کے سپرد کر دیا، جنہوں نے جموں کے ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ اس خطہِ ارضی پر حکمرانی کے حقوق 75 لاکھ روپے میں فروخت کرکے اس کے حوالے کیا اور وہ صدی تک اس خطہِ ارضی پر اپنی مطلق العنان حکومت چلاتے رہے۔

ہزاروں سال پہلے سرزمین کشمیر ایک وسیع جھیل تھی جس کا نام ستی سر تھا، اسے ہر طرف سے اونچے پہاڑوں نے گھر رکھا تھا، نامور محقق پروفیسر محی الدین حاجنی کا خیال ہے کہ اُس زمانے میں پہاڑوں پر اگر کوئی انسان بستے تھے تو اُن کی زندگی بن باسی رہی ہوگی۔ دیو مالائی قصوں کے مطابق جلد بھو (JALODBHAVA) نامی آدم خور دیو جھیل سے نکل کر کناروں پر آباد بستیوں میں لوگوں کو تنگ کرتا تھا۔ کشپ رشی نے بارلہ مولہ کے قریب ایک پہاڑ کاٹ کر جھیل کا پانی باہر نکالا۔

تاہم جو لوگ دیو مالائی کہانیوں پر یقین نہیں رکھتے، انہیں برنئیر جیسے محقق یہ خبر دیتے ہیں کہ یہ علاقہ زلزلوں کی زد میں رہا ہے جسکی وجہ سے پہاڑوں میں شگاف پڑ گئے۔ چنانچہ کھادن یار کے قریب پہاڑ میں شگاف پڑ گیا۔ اور ستی سر کا پانی نشیب کی طرف بہہ نکلا۔ جس کی نشانی آج کا دریائے جہلم ہے۔ مشہور جغرافیہ دان فریڈرک ڈریو کے مطابق دیو مالائی روایات ہمیں ماضی کی تاریخ کے بارے میں اصلیت جاننے میں بہت مدد دیتی ہے۔ چنانچہ یہ بات امکان سے باہر نہیں کہ کشمیر میں پہاڑوں کے پھٹنے اور اس کے نتیجہ میں ایک عظیم سیلاب کے وقوع میں آنے کی وجہ سے ہی ہڑپہ اور موہنجوڈارو کی تہذیبیں ناپید ہوگئیں۔

قدیم زمانے میں یونانی کشمیر کو کیسییر (Kaspeiria) کے نام سے پکارتے تھے۔ ہیروڈوٹس نے اپنے کلاسیکی لٹریچر میں اسے کیسپا تاوئیروس (Kaspatyros) کا نام دِیا ہے۔ ہیکاتایوس (Hekataios) نے کیسپالائیروس یا کیسپا پائیروس کا نام دیا ہے۔ 578 میں چینی سیاحوں توینگ (To Yeng) اور سُنگ یان (Sung Yan) نے اسے شئی می (Shie MI) کا نام دیا ہے۔ 631ء میں اسے ھیون تسانگ (Hieun Tsang)نے کیا شی می لو (Kia Shi Mi Lo) کا نام دِیا۔ کشمیری اور گلگتی اسے کشِیر (Kasheer) کہتے ہیں۔ تبتی زبان میں کھچل (Khachal) کہلاتا ہے اور دردِ لوگ اسے کشروٹ (Kashrot) کہتے ہیں۔ (پی این کے بامزئی)۔

اگرچہ کشمیر میں مسلم حکمرانی کا آغاز 1325ء میں رینچن شاہ سلطان صدرالدین نے کیا تھا لیکن چونکہ اس کی وفات کے بعد راجہ اودیان دیو (سابق حکمران سہد یو کے بھائی) نے دوبارہ کشمیر کا اقتدار سنبھالا جو کہ 1343ء تک جاری رہا، اس لئے حقیقت میں مسلم حکمرانی کے دور کا آغاز 1343ء سے ہی تصور کیا جائے گا جب سلطان شمس الدین میر نے کشمیر کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس کے بعد شاہ میری خاندان 1554ء سے 1586ء تک 32 سال چک حکمران برسرِ اقتدار رہے۔ جن میں سے یوسف شاہ چک نے دوبارہ تحت سنبھالا۔

آخر 1586ء میں دہلی کے مغل شہنشاہ نصف صدی کی مسلسل کوششوں کے بعد کشمیر پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اگرچہ اس دوران کئی بار انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ سطان شمس الدین (1343ء) سے سلطان حبیب شاہ (1554ء) تک 211 سال شاہمیری خاندان کی حکمرانی رہی اور غازی خان چک 1554ء سے یعقوب شاہ چک 1586ء تک 32 سال چک خاندان حکمران رہا۔ 1586ء میں مغل حکمرانوں نے نصف کی کوششوں کے بعد کشمیر کو تسخیر کرکے مغل ایمپائر کا حصہ بنا لیا اور کشمیری عوام غلامی کے ایک طویل دور میں مبتلا ہو گئے جو اب تک جاری ہے۔

کشمیر کے مسلم سلاطین اور بادشاہوں کی تفصیل:

سلطان صدرالدین۔ رینچن شاہ، 1325ء تا 1327ء (2سال 7ماہ)، سلطان شمس الدین، 1339 تا 1342ء (3سال 5ماہ)، سلطان جمشید، 1343ء تا 1344ء (1سال 2ماہ)، سلطان علاوہ الدین، 1344ء تا 1360ء (16سال 2ماہ)، سلطان شہاب الدین، 1360ء تا 1378ء (19سال 3ماہ)، سلطان قطب الدین، 1378ء تا 1394 (16سال)، سلطان سکندر بت شکن، 1394ء تا 1417ء (24سال)، سلطان علی شاہ، 1417ء تا 1423ء (5سال 9ماہ)، سلطان زین العابدین بڈشاہ، 1423ء تا 1474ء(51سال 2ماہ)۔

سلطان حیدر شاہ، 1474ء تا 1475ء (1سال 2ماہ)، سلطان حسن شاہ، 1475 تا 1487ء (12سال 8ماہ)، سلطان محمد شاہ، 1487ء تا 1490ء (2سال 7ماہ)، سلطان فتح شاہ، 1490ء تا 1493ء (2سال 11ماہ)، سلطان محمد شاہ (بار دوئم)، 1493ء تا 1501ء (8سال 9ماہ)، سلطان فتح شاہ (باردوئم)، 1501ء تا 1514ء (14سال 8ماہ)، سلطان محمد شاہ (بارسوئم) 1514ء (5ماہ)، سلطان فتح شاہ (بارسوئم)، 1514ء تا 1517ء (3سال 4ماہ)، سلطان محمد شاہ (بار چہارم)، 1517ء تا 1527ء(10سال 8ماہ)۔

سلطان ابراہیم، 1527ء تا 1529ء (1سال 11ماہ)، سلطان محمد شاہ (بار پنجم) 1529ء تا 1537ء(7سال 9ماہ)، سلطان شمس الدین، 1537ء تا 1538ء (1سال)، سلطان اسمعیل شاہ، 1538ء تا 1540ء (1سال 6ماہ)، سلطان ابراہیم شاہ ثانی، 1540 (4ماہ)، سلطان نازک شاہ، 1540 تا 1551ء (10سال 8ماہ)، سلطان اسمٰعیل شاہ ثانی، 1551ء تا 1553ء (3سال)، سلطان حبیب شاہ، 1553ء تا 1554ء (11ماہ)، سلطان غازی خان چک، 1554ء تا 1563ء (8سال 10ماہ)۔

سلطان حسین خان چک، 1563 تا 1570 (6سال 9ماہ) سلطان علی شاہ چک، 1570 تا 1579 (8سال 8ماہ)، سلطان یوسف شاہ چک، 1579ء تا 1580ء (1سال 1ماہ)، سلطان سید مبارک بیہقی، 1580ء (6ماہ)، سلطان گوہر شاہ چک، 1580ء تا 1581ء (1سال 1ماہ)، سلطان شاہ چک (بار دوئم) 1581ء تا 1585ء (3سال 10ماہ)، سلطان یعقوب شاہ چک"۔ کشمیر کی تاریخ سے عیاں ہے کشمیر، کشمیریوں کا ہے اور رہے گا۔

عابد ہاشمی

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔