1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فرخ شہباز/
  4. اک گل پچھاں؟

اک گل پچھاں؟

میڈیا نے رپورٹ کیا، سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے ویڈیوز پوسٹ کیں اور یہ باور کروایا کہ پولیس حراست میں وفات پانے والا صلاح الدین ایک پاگل، چور، ڈکیت، جھوٹا، دھوکے باز، مجرم تھا۔ ایک لمحے کے لیے مان لیا جائے کہ اس کے بارے میں کی جانے والی ساری باتیں ٹھیک ہیں تو کیا اس کے بعد اس کو مارنا فرض ہوچکا تھا؟ اب تو خود مجھے بھی یقین ہونے لگا ہے وہ پاگل تھا۔ آپ اس کے پاگل پن کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ تھانے میں بیٹھ کر پولیس والوں سے کہہ رہا تسی مارنا کتھوں سکھیا(آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا؟)۔ صلاح الدین نے وہ سب پوچھ لیا جو ہم نہیں پوچھ سکے۔
15 مئی کو بحریہ ٹاؤن کے علاقے میں 22سالہ لڑکی کو سحری کے وقت اسلحے کے زور پر گاڑی میں بٹھایا۔ ان افراد نے اس کی دوست کو بھاگ جانے کو کہا اور پھر سڑک کنارے گاڑی میں لڑکی کا ریپ کیا۔
چاروں ملزمان نے لڑکی کوتشدد کا نشانہ بھی بنایا اور تصاویر اور ویڈیو بھی بنائیں۔ ریپ کے بعد یہ افراد اس کے پاس موجود رقم اور طلائی انگوٹھی چھین کر لڑکی کو اس کے ہاسٹل کے پاس پھینک کر فرار ہو گئے۔
یہ چاروں پولیس اہلکار تھے۔ خبر پھیلی تو انہیں گرفتار کیا گیا، کہا گیا ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہوگی۔ لڑکی کے گھر والوں پر صلح کے لیے دباؤ ڈالا جاتا رہا آج تک اس واقعے کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ زیادہ دور مت جائیں سانحہ ساہیوال ہوا۔ بچوں کے سامنے ان کے والدین کو فائرنگ کر کے ماردیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان لواحقین سے ملے، جوڈیشل کمیشن بننے کی باتیں ہوئیں۔ مگر آج تک یہ بات سامنے نہیں آئی وہ اہلکار کون تھے، ان کو کیا سزا ہوئی؟
بینک سٹاپ فیروزپوروڈ کی خاتون ڈولفن پولیس کی اندھی گولی کا نشانہ بنی۔ خاتون کے گھر پولیس کے اعلی افسران آئے دلاسہ دیا۔ ذمہ دار کون سزا کیا ہوئی کسی کو کچھ نہیں پتا۔
رواں سال کے دوران تین نہتے شہری ڈولفن فورس کی اندھی گولیوں کا نشانہ بننے کے باعث اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے، مختلف واقعات میں تین شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر انہیں موت کے گھاٹ اتارنے والی کوئی اور نہیں ڈولفن فورس تھی۔ شادباغ میں چودہ سالہ بچہ سلیم احمد ڈولفن اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بن گیا، سبزہ زار کے علاقے میں ایک ذہنی معذور نوجوان عمیر احمد بھی ڈولفن اہلکاروں کی فائرنگ کا نشانہ بنا۔ دونوں واقعات کی انکوائری رپورٹ آج تک منظر عام پر نہ آ سکی۔
صحافی حسن رضا کی رپورٹ کے مطابق پنجاب بھرمیں 8 ماہ کے دوران پولیس کی زیرحراست16ملزمان کی ہلاکتوں کاانکشاف ہوا ہے، ایک خودکشی ایک طبعی موت قرارجبکہ 14ہلاکتوں کے 84پولیس افسران واہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے، پنجاب پولیس نے اپنی ہی انتہائی ناقص کارکردگی کو بچانے کے لئے واقعات کو دبانے پر لگ گئی، اور کسی بھی افسر کے خلاف نہ تو کوئی ایکشن لیا گیا نہ ہی مزید معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں، آئی جی پنجاب سمیت دیگر پولیس افسران معاملے سب بچنے کے لئے اعلی حکام کو سب اچھا کی رپورٹ دیتے رہے، بے یاررومددرگار غریب عوام لاوارث اپنے پیاروں کے تحفظ کے لئے پولیس افسران کے دفتروں میں دھکے کھاتے رہے، لیکن تھانہ کلچر تبدیل کرنے کے دعویدار حالات بہتر نہ کرسکے بلکہ گرفتار کرکے تھانوں اور نجی ٹارچر سیلوں میں بند کرکے پھر تشدد کیا جاتا اور پھر مبینہ طور پر ہلاک کیا جاتا رہا۔ لاہور میں کل اس سال 4 افراد کو دوران پولیس حراست تشدد کرکے مبینہ طور پر قتل کیا گیا ہے، جن کے مقدمات شمالی چھاؤنی اور گجر پورہ تھانہ میں درج ہیں، پولیس حراست میں 14ملزمان کی ہلاکتوں کے مقدمات درج ہوئے جس میں 84 پولیس افسران واہلکارمقدمات میں نامزدکئے گئے جس میں صرف22پولیس ملزمان کوگرفتارکرکے چالان کردیا گیا ہے۔ لاہورمیں درج2مقدمات کاکوئی بھی ملزم گرفتارنہیں ہوسکا، ریکارڈ اوکاڑہ5، گجرات کی 3سمیت 22ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی، زرائع کے مطابق لاہور میں ہونے والے مقدمات میں 13 پولیس افسران اور ملازمین نامزد کیے گئے ہیں، رحیم یار خان میں صلاح الدین کو ہلاک کیا گیا، اوکاڑا میں قربان عرف بنی، پاکپتن میں محمد عباس، قصور میں ارشد علی، گجرات میں ارشد اقبال، منڈی بہاؤ الدین سرفراز احمد سمیت دیگر اضلاع میں دوران پولیس حراست مبینہ طور پر تشدد کرکے ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے سینکڑوں واقعات ہیں جن کا کسی کو علم نہیں۔ ہمارے ارد گرد یہ واقعات ہوتے ہیں ہم افسوس کرتے ہیں۔ کچھ دکھی سٹیٹس دیتے ہیں، ڈی پی بدلتے ہیں اور سب بھول جاتے ہیں۔ کاش ہم سب صلاح الدین بن جائیں جہاں جہاں ظلم زیادتی دیکھیں وہاں صرف یہ کہہ دیں اک گل پچھاں؟