1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فرخ شہباز/
  4. جب عثمان بزدار بے بس ہوگئے

جب عثمان بزدار بے بس ہوگئے

عام محفلوں میں ہر دوسرا شخص یہ سوال ضرور پوچھتا ہے کہ آخر پنجاب میں حکومت کس کی ہے۔ عام آدمی سوچتا ہے صحافی با اثر ہوتے ہیں یہ ہمارے مسئلے حل کرواسکتے ہیں۔ ہم بتاتے تو ہیں شاید سمجھا نہیں پاتے کہ ہمارا کام مسئلے کی نشاندہی کی حد تک کا ہے، مسئلہ حل پھر بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھے افراد اور افسر شاہی نے کرنا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ادھر ہم ایک خرابی کی طرف توجہ دلاتے ہیں اگلے دن مسائل کانیا انبار ہمارے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ عام آدمی تو ایک طرف جن لوگوں کو عوام نے اسمبلیوں میں بھیجا ہے ان کی بے بسی دیکھ کر بھی لگتا ہے جیسے یہ مسائل ٹھیک ہو ہی نہیں ہوسکتے۔ گوجرانوالہ کی خاتون رکن اسمبلی شاہین رضا پنجاب کے وزیراعلی عثمان بزدار کے کمرے میں دہائی دیتی داخل ہوئیں انھوں نے پنجاب کے طاقت ور وزیراعلی کو بتایا کہ کیسے ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ شعیب طارق نے ’’بڑے لوگوں،، سے دشمنی مول لے کر ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کیا، وہ تجاوزات جن کو مسمار کرنا پچھلے کئی سالوں سے ناممکن ہوچکا تھاوہ مسمار کردی گئیں۔ خاتون رکن اسمبلی نے وزیراعلی کو بتایا کہ کیسے شریف برادران کے رشتہ دارسابق وفاقی وزیرکا وہ پٹرول پمپ جس کی طرف دیکھنے کی کوئی جرات نہیں کرسکتا تھا، وہ بھی گرادیا گیا۔ اس آفیسر نے کسی تفریق کے بغیر تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا مگر ایک پٹرول پمپ کے مالکان کو جب نوٹس بھیجا گیا تو اچانک ڈپٹی کمشنر کو تبدیل کر دیا گیا۔ وہ پٹرول پمپ گوجرانوالہ سے لیگی ایم پی اے چوہدری اقبال گجر کی ملکیت ہے ان کے بیٹے احسن گجر نے یہ تبادلہ کروایا ہے۔ خاتون ایم پی اے کی ساری بات سننے کے بعد وزیراعلی پنجاب خاموش ہوگئے، خاتون کہاں چپ رہنے والی تھیں انھوں نے کہا آپ یہ تبادلہ رکوائیں ہمیں لوگ باتیں سنارہے ہیں، یہ کیسی تبدیلی ہے۔ سردار عثمان بزدار جو بڑے تحمل کے ساتھ بات سن رہے تھے یوں لگتا تھا جیسے انہیں اس سارے واقعے کی تفصیلات پہلے سے معلوم ہیں۔ خاتون نے جواب طلب نظروں سے وزیراعلی پنجاب کی طرف دیکھا تو وزیراعلی نے شہادت کی انگلی آسمان کی جانب بلند کی اور کہا ’’اوپر سے،، اس کے بعد خاتون ایم پی اے کو وزیراعلی سٹاف کی طرف سے بتایا گیا کہ آپ کی ملاقات کا وقت ختم ہوچکا ہے، صاحب کی مزید میٹنگز ہیں۔ رکن اسمبلی مسلسل کہتی رہیں یہ سب ٹھیک نہیں ہورہا، شاہین رضا اپنے مسئلے کے حل کے لیے پنجاب کی دوسری طاقت ور شخصیت عبدالعلیم خان تک پہنچیں ان کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ ساری بات سننے کے بعد عبدالعلیم خان نے کندھے اچکا کر کہا ’’میں کیا کرسکتا ہوں، میں نے تو کچھ نہیں کیا،،۔ خاتون رکن نے پنجاب کی تیسری اہم شخصیت چوہدری پرویز الہی سے وقت لیا اور انہیں ساری بات بتائی تو چوہدری صاحب نے انہیں چائے کے ساتھ پیش کیے گئے لوازمات کھانے کو کہا اور ساتھ ہی بتادیا کہ اس وقت پنجاب میں حکومت پی ٹی آئی کی ہے ق لیگ کی نہیں اور وہ اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے۔ خاتون نے اسلام آباد کی چند اہم شخصیات سے بھی رابطے کیے انہیں پارٹی سے دیرینہ وابستگی بھی یاد دلائی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔

اس سارے قصے میں دلچسپ نقطہ یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے جی ٹی روڈ پر قائم 5 میں سے 4 غیر قانونی پٹرول پمپس کو مسمار کر دیا، صرف ایک پٹرول اسٹیشن باقی بچا جوگجرخاندان کی ملکیت ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے محکمہ اراضی سے پانچوں پٹرول اسٹیشنز کی لینڈ ریکارڈ سے توثیق چاہی جس پر حکومت پنجاب نے چار پٹرول اسٹیشنز کو غیر قانونی قرار دیا لیکن ایک کے بارے میں خاموشی اختیار کی۔ پٹرول اسٹیشن کے علاوہ اس خاندان کے افراد کی گوجرانوالہ میں ہاؤسنگ سوسائٹی بھی ہے جسے جی ڈی اے نے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ احسن گجر کا موقف ہے کہ ان کے اور ان کے والد کے درمیان کئی سالوں سے بول چال نہیں اور ان کا اس تبادلے سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح اقبال گجر بھی بتاتے ہیں کہ ان کا اپنے بیٹے کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ احسن گجر کا وزیراعلی پنجاب سے تعلق ڈھکا چھپا نہیں ہے موجودہ ڈی سی لاہور اس فیملی سے تعلق کی بناء پر کئی دن پہلے بتاچکی تھیں کہ وہ ڈپٹی کمشنر لاہور بننے والی ہیں۔

اس سے بھی بڑھ کر پنجاب میں ایک بااثر’’گجرگروپ،، بن چکا ہے جس میں وفاق میں بیٹھی دو اہم شخصیات اور پنجاب کابینہ کے دو وزراء کا کردار نمایاں ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے یہ گروپ پرائم منسٹر ہاؤس سے سی ایم ہاؤس تک خاصا ایکٹو ہے اس کے اثرات ابھی سے نظر آنا شروع ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ سوال ابھی تک وہیں کھڑا ہے پنجاب میں حکومت کس کی ہے؟