1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فرخ شہباز/
  4. کیا آپ مشہور ہونا چاہتے ہیں؟

کیا آپ مشہور ہونا چاہتے ہیں؟

ویسے تو ہمارے شعبے میں اسے روٹین کا معاملہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ آڈیو کی بازگشت ہے جوسوشل میڈیا پر وائرل ہے یہ ایک قومی اخبار کے چیف ایڈیٹر کی ہے اس آڈیو میں موصوف خاتون سے جو باتیں کر رہے ہیں۔ وہ یہاں لکھے جانے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ کالم میرے گھر سمیت کئی گھروں میں پڑھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ کام مجھ سے نہیں ہوگا۔ اگرچہ انہیں کرتے ہوئے شرم نہیں آئی مگر مجھے لکھتے ہوئے بہت آئے گی۔ کچھ دوستوں نے مجھے آڈیو وٹس ایپ کی اور پوچھا کہ کیا یہ وہی بزرگ ایڈیٹر ہیں جن کے شاگرد آج کل مختلف چینلز اور اخبارات میں ہیں؟ میں نے کہا جی ! یہ وہی ہیں جن کے اخبار پر نعرہ درج ہے جہاں بھی ظلم ہو گا وہاں ان کا اخبار ہوگا۔ اب ان کا سلوگن یہ ہونا چاہیے جہاں ان کا اخبار ہوگا وہاں ظلم ضرور ہوگا۔

ویسے یہ ہماری فیلڈ کے کام کرنے والوں کے لیے ایسی کوئی حیرت کی بات بھی نہیں۔ اس میں کچھ نیا نہیں ہر دوسرے دن ایسی کوئی کہانی’’میڈیا منڈی‘‘ کے بارے میں سننے کو ملتی ہے۔ کچھ دن قبل مجھے ایوان اقبال میں ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ جہاں چیف جسٹس آف پاکستان مہمان خصوصی تھے اورکچھ سینئر صحافی مہمان مقرر تھے۔ یہ ایڈیٹر صاحب بھی مقرر تھے ان کو خطاب کے لیے دعوت دی گئی تو انہوں نے قرآن سے مثالیں دینا شروع کیں اور موضوع پر بولنے کی بجائے صرف اور صرف چیف جسٹس کی تعریفوں کے پل باندھے۔ بعد میں پتا چلا موصوف ان دنوں اپنے چینل کے کیس میں عدالت کے چکر کاٹ رہے ہیں یہ سب اس سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ وہ متعلقہ موضوع پر ایک لفظ بھی ادا نہ کرسکے۔ کسی نے کہا صحافی معاشرے کی آنکھیں اور کان ہیں۔ خود میں نے کہیں کہہ دیاتھا صحافت معاشرے کاآئینہ ہے یعنی جو کچھ سوسائٹی میں ہورہا وہ دکھا رہا ہے۔ اب سوچتا ہوں کیا معاشرے کا عکس اتنا گدلا ہوچکا ہے۔ کچھ دن پہلے نوجوان قلم کار نے بتایا کہ پاکستان کے پرانے قومی اخبار کے ایڈیٹر صاحب نے فریش گریجوایٹ لڑکی کو اینکر پرسن کے ساتھ کالم نگار بنانے کی آفر کی ہے۔ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی یہ تو اچھی بات ہے کہ ہمارے سینئر نئے آنے والوں کو مواقع فراہم کر رہے ہیں اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے؟ قلم کار نے کہا آپ نے پوری بات نہیں سنی ایڈیٹر صاحب نے فرمایا ’’یہ سب کچھ ممکن ہوسکتا ہے اگر ہم دونوں دوست بن جائیں‘‘۔ کچھ باتیں ہضم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ میرے آبائی علاقے سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی جن کی شہرت ہر دوسرے دن بڑے سکینڈلز سے پردہ اٹھانے کی ہے۔ جو بڑے بڑے سیاسستدانوں کے خلاف آواز اٹھانے سے نہیں ڈرتے۔ اپنے ایسوسی ایٹ پروڈیوسر پر زبردستی کی کوشش کرنے لگے تو لڑکے نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو آزاد کروایا۔ یہاں تک کے اسے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کچھ دن پہلے اس لڑکے اور اس کے باس کی اجازت سے ہمارے دوست نے یہ واقعہ اپنی ویب سائٹ پر شائع کردیا۔ رات گئے اس لڑکے کی جانب سے ہمارے دوست کو پیغام بھجوایا گیا خدارا وہ خبر ویب سائٹ سے ہٹادیں مجھے اجنبی فون نمبرز سے کالیں آرہی ہیں۔ ’’سائیں مجھے چھوڑیں گے نہیں‘‘۔ ایک چینل کے مالک نے اپنے چینل پر کام کرنے والی اینکر کو فون کیا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ اینکر نے جواب دیا میں اپنے شوہر کے ساتھ آؤں گی۔ اس پر مالک نے غصے سے یہ جواب دیتے ہوئے فون بند کردیا’’کہ نوکری لینے تو اکیلے آئی تھی‘‘۔ ہمارے سرکاری چینل کے کچھ سال پہلے رہنے والے ہیڈ کرنٹ افئیرز کا ناجائز مطالبہ جب زور پکڑنے لگا تو ایک دن خاتون اینکر نے مجھے یہ سارا قصہ سنا دیا۔ ان صاحب نے پہلے پہل تو اپنے رازدار پروڈیوسر کے ذریعے ہلکا پھلکا دباؤ ڈالا، پھر ایک دن اینکر کو اپنے موبائل میں کچھ معروف خواتین اینکر کی فحش تصاویر دکھائیں جو اس کے فلیٹ پر بنائیں گئیں تھیں۔ اس نے خاتون اینکر سے کہا ان سب کی طرف دیکھو یہ سٹار بن چکی ہیں میں تمہیں بھی راتوں رات مشہور کردوں گا۔ میرے علم کے مطابق اس اینکر نے جسم کی قربانی دے کر مشہور ہونے سے انکار کردیا تھا۔ سی کلاس چینل کے اینکرجو کچھ سال میں اینکر بنے ہیں سیاست دانوں کو اخلاقیات کاسبق پڑھاتے ہیں ایک یونیورسٹی میں گئے وہاں کی سٹوڈنٹ لڑکیوں سے رابطے میں آگئے۔ رات گئے میسج کر کے کہتے رہے آپ جب تک اپنی سوچ کو ماڈریٹ نہیں کریں گی تب تک بڑی اینکر نہیں بن سکتی ہیں۔ سوچ کو ماڈریٹ کرنے کا مطلب آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ بے شمار واقعات ہیں کچھ آنکھوں کے سامنے کے ہیں۔ بظاہر پرکشش اور آسان راستہ ہے۔ دوسری صورت میں مشکلات ہیں، دباؤ ہے۔ مگر مشہور ہونے کے لیے عزت کی قیمت ادا کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ آپ لڑکا ہیں، لڑکی ہیں چاہے کسی بھی شعبے سے ہیں جب بھی آپ کو ایک آواز آئے توآپ کو ایک لمحے کے لیے ضرور سوچنا چاہیے۔ وہ آواز ہے۔ کیا آپ مشہور ہونا چاہتے ہیں؟