1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فرخ شہباز/
  4. میں سب ٹھیک کرسکتا ہوں

میں سب ٹھیک کرسکتا ہوں

پروفیسر صاحب میرے محلے دار ہیں، یہ اکنامکس کے مایہ ناز ٹیچر تھے۔ کچھ سال پہلے ریٹائرڈ ہوگئے۔ کبھی کبھار ملاقات بھی ہوجاتی ہے۔ ایک دن مجھے دور سے آتے دیکھ کر کھڑے ہوگئے میں نے پاس آکر سلام کیا۔ پروفیسر صاحب نے سلام کا بھرپور جواب دیا۔ کہنے لگے میں کافی دنوں سے سوچ رہا تھا تم سے دل کی بات کر ہی ڈالوں۔ تم میڈیا میں کام کرتے ہو شاید کچھ کرسکو۔ گھر واپس پہنچنے کی جلدی کے باوجود مجھے کہنا پڑا پروفیسر صاحب کیوں شرمندہ کرتے ہیں حکم کیجیے۔ بیٹا تمہیں تو پتا ہے میری طبیعت بھی خراب رہتی ہے، بچوں کی شادی کی ذمہ داریوں سے بھی الحمداللہ فارغ ہوچکا ہوں۔ اب میری شدید خواہش ہے پاکستان کے لیے کچھ کروں۔ دراصل یہی میری مٹی ہے جس نے مجھے اس مقام تک پہنچایا ہے، آج میں جو کچھ بھی ہوں پاکستان کی وجہ سے ہوں۔ اب وہ دن آگیا ہے کہ اس پاک مٹی کا قرض اتار دوں۔ جو شخص اپنے ملک کے لیے کچھ نہیں کرسکتا ایسے شخص کا اور ایسی زندگی کاکیا فائدہ ہے؟ میں نے پروفیسر صاحب کو سر سے پاؤں تک دیکھ کر ہاں میں سر ہلایا۔ تم تو جانتے ہو میں نے اب تک ایک ہی چیز کمائی ہے۔ ۔ جی جی (اس سے پہلے کہ میں جملہ مکمل کرتا) انہوں نے مکمل کردیا وہ ہے عزت۔ پروفیسر صاحب پر جذباتی کیفیت طاری ہوتے دیکھ کرمیں نے لقمہ دیا، سر بتائیے میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟ہاں بیٹا میں سوچ رہا تھا کہ اخبار میں کالم لکھنا شروع کردوں۔

اب میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب چپ نہیں بیٹھوں گا۔ ان چور لٹیروں، سیاسی ٹھگوں کو بیچ بازار میں بے نقاب کروں گا۔ تہیہ کرچکا ہوں اب ان کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔ بہت ہو گیا میں سارا دن سوچتا ہوں کیا بنے گا آخر اس ملک کا، ہم شریف لوگ آخر کب تک چپ کاروزہ رکھیں گے۔ یہ خاموشی کسی کو تو، توڑنا ہوگی۔ کسی کو تو سامنے آنا ہوگا۔ کسی کوتو صدائے حق بلند کرنا ہوگی۔

بس تم اپنے جاننے والے ایڈیٹر صاحب سے بات کرو انھیں بتاؤ کہ پروفیسر علوی نے زندگی میں ہمیشہ اصولوں پر کھڑے ہونا سیکھا ہے۔ برائی کے آگے ڈٹ جانا میری پرانی عادت ہے۔ لیکن پروفیسر صاحب وہ تو۔ ۔ ۔ ۔ نہیں نہیں تم پیسوں کی فکر نہ کرو میں کم پیسے لے کر بھی اخبار کے لیے کالم لکھ دوں گا۔ بیٹا میرا مقصد عظیم ہے۔ اس نیک مقصد کے لیے میں چالیس پچاس ہزار پر مہینہ بھر کالم لکھنے کے لیے تیارہوں۔ اور ہاں کسی چینل پر کرنٹ افئیرز کے پروگرام میں شرکت کا بھی بندوبست کرواؤ۔ یقین کرو میں نے ان سب تجزیہ کاروں کو ناکوں چنے نہ چبوا دیے تو میرا نام بدل دینا۔ میرے پاس اندر کی خبریں بھی ہیں جو ابھی تک کسی چینل نے آن ائیر نہیں کیں۔ مجھے سب پتا ہے کس سیاست دان، کس سٹار، کس بیوروکریٹ نے کتنی شادیاں کی ہوئیں ہیں۔ میری پاس ایسی کلاس کی معلومات ہیں کہ بتادوں تو دنگ رہ جاؤ گے۔ دیکھنا کیسے چینل کی ریٹنگ اوپر لے کر جاتا۔ بس تم جلدی سے ایڈیٹر صاحب سے میری بات کرو۔ ’’جی پروفیسر صاحب میں سمجھ گیاآپ بے فکر رہیں آپ کا کام ہوجائے گا‘‘ پروفیسر صاحب سے آخری مصافحہ کرتے ہوئے میں نے جواب دیا۔

حاجی خان کی چائے کی دوکان ہمارے بیٹھک کی جگہ ہے۔ ہم دوست جب کٹھے ہوتے ہیں قریب ہونے کی وجہ سے خان کی چائے کی دوکان پر ہی بیٹھ جاتے ہیں۔ جب گپ شپ طویل ہو جائے تو چائے کا آرڈر بھی دے دیتے ہیں وہ الگ بات ہے اس کی چائے ہم با امر مجبوری پیتے ہیں۔ حاجی خان اب ہمیں پہچاننے لگا ہے وہ ہم دوستوں کے شعبوں سے بھی واقف ہے۔ چند دن پہلے محفل خان کے ڈھابے پر محفل لگی ہوئی تھی وہ ہمیں دیکھ کرکاؤنٹر لڑکے کے حوالے کر کے ہمارے پاس آگیا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے تو ٹی وی پر لگے میچ پر خان کی نظر پڑی۔ وہ غصے میں آگیا کہنے لگا ان لوگوں کو آخر کب کھیلنا آئے گا۔ کاش کوئی مجھے گراؤنڈ میں بھیج دے میں ان نکھٹو لوگوں کو کھیل کر بتاؤں کہ کرکٹ کھیلتے کیسے ہیں۔ میں نے کہا خان تم کرکٹ کھیل لیتے ہو؟ بھائی میں کھیل سکتا یا نہیں لیکن(معروف بیٹسمین کا نام لے کر) اس سے بہتر کھیل سکتا۔ یہ جو ہمارا فاسٹ باؤلر ہے اسے کبھی بال پھینکتے دیکھا ہے۔ اسے تو لائن لینتھ کا نہیں پتا۔ اس نے خاک بالنگ کروانی ہے۔ کیسے کیسے لوگ ہم ٹیم میں بھرتی کرلیتے ہیں۔

میں تم لوگوں کو بتاؤں یہ کیوں ٹھیک نہیں کھیلتے خان نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہوا ہاتھ میں لہرا کر کہا، ہم سب دوست متوجہ ہوئے کیوں نہیں ٹھیک کھیلتے؟خان کرسی پر ٹیک لگاتے ہوئے بولا’’یہ سب جواری ہیں‘‘۔