1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسن نثار/
  4. میں تجھے بھول جائوں اگر

میں تجھے بھول جائوں اگر

کچھ اندھے ہوتے ہیں، کچھ عقل کے اندھے اور کچھ دونوں طر ف سے فارغ ہوتے ہیں۔ آج کل ایسے لوگوں کی کمی بری طرح کھٹک رہی ہے۔ دھمالوں، چنڈالوں، خلالوں کےبغیر سیاست کی رونق آدھی بھی نہیں رہ گئی۔ یہ سب وہ لوگ تھے جنہیں عمران کے ہاتھوں پر وزارت ِعظمیٰ کی لکیر ہی نظر نہیں آتی تھی۔ جو آج لکیر سے کہیں بڑھ کر ان کے لئے سیاسی پل صراط بن چکی جس پر بکتربند گاڑیوں کی آمد و رفت بھی جاری ہے۔ آنکھوں اور عقل کے اندھوں کے بعد آج کل اک نئی کھیپ میدان میں ہے۔ یہ پہلوں جیسی رونقی تو نہیں لیکن ان کی کمی پوری کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ یہ وہ نابغے ہیں جو ڈری ڈری دھمکیاں دے رہے ہیں یا بددعائیں۔ تازہ ترین دھمکی ملاحظہ فرمائیں۔ ۔ ۔ ۔ ’’نواز شریف کے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی‘‘ کتنی آسانی سے بھول گئے کہ کبھی یہ آصف زرداری کو بکتربند گاڑیوںمیں گھمایا کرتے تھے اور جان بوجھ کرگاڑی کودھوپ میں کھڑا رکھتے تھے اور جہاں تک تعلق ہے ’’وقت بدلنے میں دیر نہ لگنے کا‘‘ تو اسے صحیح معنوں میں سمجھنا ذرا مشکل ہے۔ گمنام، بے نام، بے چہرہ، بے شناخت و بے شجرہ خاندان صدیوں گمنامی، غربت، خانہ بدوشی کے اندھیروں میں گم رہنے کے بعد ’’سلاطین عثمانیہ‘‘ بنے اور پھر یوں بکھرتے، سمٹتے اورمٹتے ہیں کہ ان کا نام و نشان نہیں ملتا۔ آج جب کوئی خود کو ’’مغل‘‘ کہتا ہے تو لوگ مسکرا دیتے ہیں، کورنش بجا نہیں لاتے۔ ایران کے صفوی ڈھونڈے سے نہیں ملتے اور روس کے زاروں کا ایک شہزادہ مرا دوست ہے، میرے ساتھ ٹائم طے کرکے آئیں اور ’’کلام شاعر بزبان شاعر‘‘ سن لیں اوریہ خاندان جو چند ماہ پہلے تک "JIT" بھگتانے کے دوران خود کو ’’حکمران خاندان‘‘ قرار دیتا تھا تو میں تب بھی سوچا کرتا تھاکہ قیا م پاکستان کے وقت جب قتل و غارت، کشت و خون، لوٹ مارعروج پر تھی، ٹرینیں لاشوں سے بھری تھیں، بچے مائوں کے پیٹوں سے نکال کر تلواروں، نیزوں، کرپانوں پر اُچھالے جارہے تھے، مہاجرین قافلہ در قافلہ روندے جارہے تھے، مائیں، بہنیں، بہوئیں، بیٹیاں درندگی کا نشانہ بن رہی تھیں، 14 اگست 1947 یہ ملک معرض وجود میں آرہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تب کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ غربت کامارا جاتی امرا امرتسر سے آیا یہ مزدور خاندان نوزائیدہ پاکستان کی آدھی عمر تک اس پر قابض رہے گا اور خود کو ’’حکمران خاندان‘‘ قرار دیتے ہوئے شرمائے گا بھی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واقعی وقت بدلتے دیر نہیں لگتی لیکن اس کا مطلب صرف وہی جانتا ہے جو بےشک انسانوں کے درمیان دنوں کو پھیرتا رہتا ہے۔ شہباز شریف کو اس جملے کی سمجھ نہیں آرہی تو وقت سمجھادےگا۔ انگریز بیوروکریٹ گیزیٹئرز تیار کیا کرتے تھے جو ریکارڈ پر ہیں تو کوئی زحمت فرمائے 1945، 1946 وغیرہ میں لاہور کے معززین، شرفا، رئوسا، عمائدین میں کون کون لوگ تھے اور کیا آج ان میں سے کسی ایک کا بھی نام و نشان، آل اولاد باقی ہے؟ ہے تو کہاں اور کس حال میں ہے؟ ’’کیسے کیسے، کیسے کیسے ہوگئے؟‘‘یہ جائے عبرت ہے لیکن رسی جل بھی جائے تو اس کے بل جانے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ کل تک مجھ جیسا کودن یہ سوچ سوچ کڑھتا تھا کہ پروردگار! یہ پاکستان کیا اس لئے بنایا تھا کہ یہ خاندان یہاں دندناتا اور من مانیاں کرتا پھرے، ادارے برباد کردے، میرٹ پامال کردے، اخلاقیات کے جنازے نکال دے، اقتصادیات کا حشرنشر کردے لیکن پھرسمجھ ہی نہ آئی سین کیسے تبدیل ہوتا چلا گیا کہ مجھے فیس بک پر ’’ایک زندان پورا خاندان‘‘ جیسا عنوان دینا پڑا۔ بخدا مجھے اس صورتحال پر نہ کوئی خوشی نہ غم۔ ۔ ۔ ۔ کانپتا لرزتا اور توبہ توبہ کرتارہتا ہوں۔ دھمکیاں دینے والوں کے علاوہ جو دوسراگروہ ہے، اس کا گزر بسر آج کی ’’بددعائوں‘‘ پر ہے۔ وہ ناکامیوں کی پیش گوئیاں کرنے کے لئے ننگے پائوں پیدل دور دور کی کوڑیا ں لا رہے ہیں اور میں اپنے قلم کے کوڑے سے مٹی جھاڑتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے دعا مانگ رہاہوں کہ اے میرے رب! سب ٹھیک کردے۔ اس ملک کی سمت تبدیل کردے، ہمیں خوددار اور خودکفیل کردے، حکمرانوں کے دل ودماغ منور کردے، ان کی روحیں معطر کردے، ان کے لئے مشکلات مسخر کردے۔ آج کل دوست، احباب، ملاقاتی اپنے اپنے انداز میں یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ’’اب تو PTI اقتدار میں آگئی، اب آپ کیا کریں گے؟‘‘ تو عرض کرتا ہوں کہ وہی کروں گا جو آج تک کرتا آیا ہوں کیونکہ بنیادی طور پر میری کمٹمنٹ کسی فرد یا پارٹی کے ساتھ نہیں، پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ ہے۔ خود عمران نے ایک بار ہنستے ہوئے بہت سنجیدہ بات کی تھی کہ ’’اگر ہم اقتدار میں آگئے تو یہی حسن نثار ہمارا بدترین ناقد ہوگا‘‘ بے شک یہی آخری سچائی ہے۔ میں نے چند سال پہلے ملک چھوڑنے کی بات کی تھی۔ امیگریشن کا پراسیس شروع ہوئے 6 سال ہوگئے، دوچار سال مزید لگ جائیں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ میرا خوف بڑھ رہا ہے اور اس دعا میں بھی شدت بڑھتی جارہی ہے کہ ’’مولا! میرا ملک ایساکردے کہ اسے چھوڑنے کاخیال بھی کسی کو نہ آئے۔ ‘‘ قلم کے کوڑے کو تھامے اگلی حکومت کی پرفارمنس کامنتظر ہوں اور عوام کے ساتھ یہ عہد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تجدیدعہد کہمیں تمہیں بھول جائوں اگرمرا داہنا ہاتھ اپنا ہنر بھول جائے‘‘مدینہ تو دور کی بات، ہمیں عکس مدینہ بھی دےدو تو ہم خوش، ہمارا خد ا خوش اور میرے قلم کے کوڑے پر مٹی جمتی جائے گی۔