1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. حیرت نگری

حیرت نگری

آپ نے کبھی ٹافی کھائی ہوگی۔ اس کو دانتوں کے درمیان دبا کر اگر ہاتھ سے کھینچیں تو وہ لمبی ہوتی جاتی ہے اور بالآخر ٹوٹ جاتی ہے۔ اس طرح کے ٹوٹنے کو سائنس کی زبان میں ڈکٹائل فریکچر ductile fracture یعنی لچکدار ٹوٹنا کہتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف گولی کو دانتوں کے درمیان دبائیں تو وہ بالکل شیشے کی طرح کرچی کرچی ہو جاتی ہے۔ اس طرح کے ٹوٹنے کو سائنس کی زبان میں برٹل فریکچر brittle fracture کہتے ہیں۔

ایسی تمام اشیاء جیسے شیشہ، پتھر، چینی کے برتن اور دیگی لوہا وغیرہ جو برٹل فریکچر سے ٹوٹتے ہیں کی طاقت عموماً کم ہوتی ہے اور ان کا استعمال بہت زیادہ زور کی جگہ پر نہیں کیا جاتا۔ جبکہ لوہا، تانبہ پیتل، سلور اور ایسی دوسری اشیاء جن کا ٹوٹنے کا عمل ڈکٹائل فریکچر سے ہوتا ہے ان میں طاقت زیادہ ہوتی ہے اور ان کو اعتماد کے ساتھ زیادہ زور برداشت کرنے والی جگہ پر لگایا جا سکتا ہے۔

اب دوبارہ ٹافی کی طرف چلتے ہیں۔ شدید سردی میں آپ نے کبھی تجربہ کیا ہو کہ آپ ٹافی منہ میں رکھتے ہیں اور دانتوں سے زور لگاتے ہیں تو وہ بالکل گولی کی طرح ٹوٹ جاتی ہے مگر جیسے ہی منہ کی گرمی کی وجہ سے ٹافی کا درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے وہ نرم ہو کر پھر سے اپنی عمومی خاصیت کی طرح چبائی جا رہی ہوتی ہے۔ درجہ حرارت کم ہونے پر لچکدار اشیاء کا شیشے جیسا رویہ اختیار کر لینا ڈکٹائل تو برٹل ٹرانزیشن۔ Ductile to brittle transition کہلاتا ہے۔ اور وہ درجہ جس پر کوئی شے ڈکٹائل سے برٹل میں منتقل ہوتی ہے ڈکٹائل ٹو برٹل ٹرانزیشن ٹمپریچر dbtt کہلاتا ہے۔ مختلف اشیاء کے dbtt مختلف ہوتے ہیں۔

ہمارے ارد گرد بیشتر اشیاء ڈکٹائل ٹو برٹل ٹرانزیشن دکھاتی ہیں۔ ان میں سرفہرست فولاد کی بنی ہوئی اشیاء۔ فولاد کی مختلف اقسام کا ٹرانزیشن ٹمپریچر دس ڈگری سے منفی پچیس ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔ اس لیے فولاد کی بنی اشیاء کا استعمال ایسے علاقوں میں جہاں درجہ حرارت نکتہ انجماد سے گر جاتا ہے بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔

فولاد کے اس عمل کی سب سے بڑی مثال ٹائیٹینک جہاز کا ٹوٹ کر ڈوبنا تھا۔ ٹائیٹینک جہاز میں لوہے کے مختلف تختوں کو جوڑنے کے لیے جو نٹ قابلے استعمال کیے گئے تھے وہ اس وقت برفیلے پانیوں میں ٹرانزیشن کا شکار ہو کر شیشہ بن گئے تھے جو گلیشئر سے ہونے والی ٹکر کا زور برداشت نہیں کر پائے اور ٹوٹ گئے جس سے جہاز دو ٹکڑے ہو کر ڈوب گیا۔ اب بحری جہاز ایسے فولاد سے بنائے جاتے ہیں جو برفیلے سمندروں میں ٹرانزیشن سے محفوظ رہیں لہٰذا اب ایسے حادثات نہیں ہوتے۔

سمندروں سے اب چلتے ہیں فضاؤں کی طرف۔ آپ جانتے ہیں کہ فضاؤں میں جہاں ہوائی جہاز چلتے ہیں وہاں درجہ حرارت منفی پچاس کے آس پاس ہوتا ہے۔ لوہا، پیتل تانبہ اور ایسی بھاری دھاتیں تو اپنی کثافت اضافی یعنی بھاری پن کی وجہ سے ہوائی جہاز بنائے جانے کے قابل ہی نہیں۔ ایسے میں صرف ایک ایلومینیم ہی بچتا تھا جو وزن میں انتہائی ہلکا ہونے کی وجہ جہاز بنائے جانے کے قابل تھا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر ایلومینیم کا dbtt بھی لوہے یا دوسری دھاتوں کی طرح منفی پچیس یا حتٰی کہ منفی پچاس بھی ہوتا تو جہاز شاید اپنی پہلی پرواز پر ہی ٹکروں میں تقسیم ہو کر بکھر جاتا۔

اب سوچیں کہ کون ایسا زبردست منصوبہ ساز ہے جس نے صرف اور صرف ایلومینیم کو ایسا بنا دیا کہ نہ صرف وہ اتنا ہلکا اور مضبوط ہے کہ اس سے جہاز اور راکٹس بنائے جا سکیں بلکہ اس کا کوئی ڈکٹائل ٹو برٹل ٹرانزیشن ٹمپریچر ہی نہیں۔ جتنا بھی ٹھنڈا کر لیں اس کی طاقت مزید بڑھتی رہتی ہے، حتٰی کہ منفی دو سو پر بھی کارآمد ہے۔ تو پھر کیوں نہ اگلی بار جب ہوائی جہاز کو محو پرواز دیکھیں تو دل سے کہیں

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔

اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔