1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. تو پھر دیر کیسی

تو پھر دیر کیسی

آپ ویرانے میں اجنبی راہوں پر محو سفر ہیں بہت پیاس لگی ہے۔ ایک جگہ ایک جھونپڑی دکھائی دیتی ہے۔ آپ رُکتے ہیں۔ جھونپڑی کے مکین سے پانی طلب کرتے ہیں۔ وہ انتہائی مشقت سے، بہت دور سے لائے گئے پانی کے گھڑے میں سے پیالہ بھرکر آپ کو پیش کرتا ہے۔ آپ دو تین گھونٹ پی کر باقی پانی گرا دیتے ہیں، ضائع کر دیتے ہیں۔ کیا خیال ہے آپ کا وہ آپ کی اس ادا سے خوش ہوگا۔ پھر کچھ دیر بعد آپ وہاں سے جانے لگتے ہیں۔

آپ کو خیال آتا ہے کہ تھوڑا پانی ساتھ رکھ لینا چاہیے نہ معلوم دوبارہ کب ملے۔ آپ کے پاس پانی رکھنے کے لیے کوئی برتن یا انتظام نہیں۔ تب آپ سوچتے ہیں کہ چلو تھوڑا پانی اور پی لیا جائے تاکہ پیاس کچھ دیر سے لگے۔ آپ اس مکین سے کہتے ہیں کچھ پانی اور دو۔ فطری طور پر اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ اگر وہ آپ کی پرانی ادا کو ذہن میں رکھتے ہوئے پانی دینے سے انکار نہ بھی کرے تو کم از کم آپ کو اس بار پیالہ بھر کر پیش نہیں کرے گا کہ اس نے تو آدھے سے زیادہ ضائع ہی کرنا ہے۔

ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ فطرت اس جھونپڑی کے مکین کی طرح نہیں سوچتی۔ حالانکہ کہ ہمارا رویہ ہمیشہ مسافر والا رہا ہے۔ ہر بارہر فصل پر عسرت اور تنگدستی کے مارے ہوئے فطرت سے رجوع کرتے ہیں۔ فطرت ہر بار پھلوں اور سبزیوں کے، اناج کے ڈھیر لگادیتی ہے۔ ہر بار پہلے سا نوازتی ہے۔ اور ہم ہر بار آدھا استعمال کرتے ہیں آدھا کچرے کے ڈھیر پر۔ کبھی اعلی معیار کے ٹماٹر نہروں میں بہائے جاتے ہیں، کہیں بہترین اقسام کے سیب مویشی کھا رہے ہیں۔ کبھی سٹرابریری تیس روپے کلو ہوجاتی ہے اور کبھی آلو تیرہ روپے کلو۔

اللہ کریم فرماتے ہیں:"اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے"۔

آپ بتائیں یہ شکر ہے کہ عطاء کی گئی آدھی نعمتیں کچرے میں پھینک دی جائیں۔ شکر یہ ہے کہ اس کی عطاء کردہ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے، اس کے تفویض کردہ علم سے علم وہنر سیکھ کر اس کی عطاء کردہ نعمتوں کا زیادہ سے زیادہ درست استعمال کرتے ہوئے ان نعمتوں کو اور خود اپنی ذات اپنے معاشرے کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بنایا جائے۔

اہل چین کے کھیت کو دیکھتے ہیں عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ آپ ویڈیوز دیکھ لیں۔ ایسے زبردست پھل اور اسقدر زیادہ فی ایکڑ پیداور پھر ان پھلوں سبزیوں کو علم وہنر سے فیکٹریوں اور مشینوں کے ذریعے ایسے خوبصورت انداز میں محفوظ کرکے پوری دنیا میں پہنچاتے ہیں۔ کہ ایک ایک دانہ مفید ہوجاتا ہے۔ یہ ہے شکر کہ پوری محنت سے علم و ہنر سیکھے اور پوری مشقت اور دل جمعی سے ان کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کی نعمتوں سے بھرپور استفادہ کیا۔ اور اللہ کا وعدہ کیسا کھرا ہے کہ ہم سے کئی گنا زیادہ ان کو عطاء کررہے ہیں۔ اس کے باوجود کہ وہ اس کو کم ہی مانتے ہیں۔

دوسری جانب ہمارا رویہ عجیب ہے۔ ہر چھ ماہ بعد ہم نعمتیں ضائع کرتے ہیں۔ اور سالہا سال سے کررہے ہیں۔ کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ کسی کو خیال نہیں آتا کہ اور کچھ نہیں تو تھوڑی منصوبہ بندی ہی کرلیں۔ جتنی ضرورت ہے اتنا اگالیں باقی رقبہ پر نئی اجناس کاشت کرلیں۔ تین چارسوارب روپے کا خوردنی تیل درآمد کرتے ہیں۔ کینولا ہی کاشت کرلیں۔ کسی کو نہیں سوجھتا کہ جو ضائع ہورہا ہے اسے محفوظ بھی کیا جاسکتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے اس غفلت پر۔

یاد رکھیں اگر آپ ذرا سی مشقت سے ہنر سیکھ کر اللہ کی نعمتوں کا بہتر استعمال کرسکتے ہیں، اور آپ تن آسانی، سستی یا نااہلی کی وجہ سے نہیں کررہے تو آپ کفران نعمت کر مرتکب ہورہے ہیں۔ اور کفران کی وعید اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ جو وقت غفلت میں بیت گیا قدرت اس کے لیے صرف نظر فرمائے۔ آئیں آج سے عہد کرتے ہیں کہ ہمارا کوئی بھی شعبہ ہے، ہم کوئی لمحہ کوئی وقت بے کار کاموں میں ضائع نہیں کریں گے۔

بہتر سے بہتر علم وہنر کی جستجو سے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے اور زبانی جمع خرچ سے نہیں اپنے عمل سے شکر گزار بندے بنیں گے۔ بخدا اگر آج بھی ہم سب ہنر کی کرید میں لگ جائیں تو چند سال میں اس ملک کی معاشی کایا پلٹ سکتی ہے۔ تو پھر دیر کس بات کی ہے۔