1. ہوم
  2. کالمز
  3. عابد ہاشمی
  4. ہمارے زوال کی پہلی سیڑھی

ہمارے زوال کی پہلی سیڑھی

کسی بھی مہذب اور باشعور معاشرے کی پہچان اس کے اہلِ قلم سے ہوتی ہے۔ مصنف، شاعر، محقق اور ادیب وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی فکری و تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے قوموں کو شعور، نظریہ، مقصد اور سمت عطا کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں نسلوں کے اذہان پر اثر انداز ہوتی ہیں، دلوں کو جلا بخشتی ہیں اور اندھیروں میں چراغ کی مانند راستہ دکھاتی ہیں۔ ہمارے ہاتھوں انہی مصنفین کی حوصلہ شکنی ایک معمول بنتی جا رہی ہے۔ ہم ایک ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جہاں اہلِ قلم کی قدر نہیں، ان کی تخلیقات کو یا تو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

کتاب لکھنا آسان نہیں، یہ مہینوں اور برسوں کی محنت کا ثمر ہوتی ہے، مگر اس کا اعتراف، پذیرائی یا سراہنے کی روایت ہماری سوسائٹی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ روش صرف افراد کی نہیں، بل کہ پورے معاشرے کی فکری گراوٹ کا پتہ دیتی ہے۔ کیونکہ جب اہلِ علم کی حوصلہ شکنی کی جائے، تو نوجوان نسل تحقیق، مطالعے اور تخلیق سے منہ موڑ لیتی ہے، نتیجتاً ایک ایسا خلا جنم لیتا ہے جو معاشرے کو فکری بانجھ پن کی طرف لے جاتا ہے۔

آج اکثریت کتاب لکھنے والے ہمارے معاشرتی رویے سے پریشان ہی نہیں، بل کہ دلبراشتہ ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارا رویہ ہے جو اہلِ کتاب سے کیا جاتا ہے اور اسے قابلِ فخر سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اپنے وسائل، وقت کو دوسروں کے لئے وقف کرکے کتابیں لکھی جاتی ہیں، جن کا مقصد انسانیت کو شعور کی بیداری ہوتا ہے۔ کتب ہی ہیں جو معاشرتی ترقی کی راہیں ہموار کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ نسلِ نو کو اپنی تاریخ سے آشنا کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن ہمارا رویہ اہلِ قلم کے لئے ناقابلِ بیان ہے۔ ہم کتاب لکھنے والے جن کا خون شامل ہوتا ہے اس گلستان میں، ان کی داد کے بجائے ہم کتاب تحفہ لینا بھی ایک احسان سمجھتے ہیں۔

کتاب ایک ایسا خاموش استاد ہے جو بنا کسی تعصب، آواز اور تفریق کے علم بانٹتی ہے۔ اقوامِ عالم کی ترقی، تہذیبی ارتقاء اور فکری بیداری میں کتاب کا کردار ہمیشہ سے نمایاں رہا ہے۔ یہ محض اوراق کا مجموعہ نہیں، بلکہ صدیوں کے تجربات، مشاہدات، خوابوں اور خیالات کا نچوڑ ہوتی ہے۔ "ابو الفرج اصفہانی" اپنی مشہور ادبی کتاب "الاغانی" لکھ رہے تھے تو اندلس کے امیر کو علم ہوگیا، تو اس نے اندلس سے ایک نسخے کی قیمت کے طور پر ایک ہزار دینار بھیج دیے اور کہا کہ جوں ہی کتاب مکمل ہو، مجھے بھیج دی جائے۔

معاشرتی تبدیلی محض نظام کی تبدیلی نہیں، بلکہ فکر کی تبدیلی ہے۔ جب معاشرے میں رہنے والے افراد کی سوچ بدلتی ہے، جب وہ جہالت سے علم کی طرف سفر کرتے ہیں تو تبدیلی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ کتاب اس سفر کی اولین سیڑھی ہے۔ کتاب انسان کو شعور عطاء کرتی ہے، اسے اپنے حقوق و فرائض کا شعور دیتی ہے، ظالم اور مظلوم میں فرق سکھاتی ہے، خاموشی کے خلاف آواز بناتی ہے اور انسان کو انسانیت کی اصل پہچان سے روشناس کرواتی ہے۔ کتابیں صرف سبق نہیں دیتیں، یہ خواب دیتی ہیں۔ یہ ہمیں عظمتوں کا سبق پڑھاتی ہیں۔ اقبال، قائداعظم، نیلسن منڈیلا، گاندھی یا دنیا کے کسی بھی بڑے انقلابی رہنما کو دیکھ لیجیے، ان کی شخصیت سازی میں کتاب کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔

ہمارے رویوں سے نسلِ نو کتاب سے دور ہورہی ہے اور کتاب دوری کے سبب آج تک مسلمان مسلسل نشیب میں جا رہے ہیں اور اہلِ مغرب فراز پر چڑھ رہے ہیں، کیوں کہ آج امریکہ، جاپان، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا اور اٹلی وغیرہ ممالک میں سب سے زیادہ کتابیں پڑھی اور لکھی جارہی ہیں۔

بدقسمتی سے دُنیا میں 28 سے زیادہ وہ ممالک ہیں، جہاں کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں، ان میں ایک بھی اسلامی ملک نہیں۔ پاکستان میں تو 72 فیصد پاکستانی کتاب سے دوری اور 27 فیصد کتب بینی کے شوقین ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ کتابوں کا وجود رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا سبب بن گیا تھا یعنی لڑکیوں کو جہیز میں کتب خانے دیے جاتے تھے۔ "امام اسحاق بن راہویہ" نے "سلیمان بن عبداللہ" کی بیٹی سے شادی اس لیے کی تھی کہ اس سے انہیں امام شافعی کی جملہ تصانیف پر مشتمل لائبریری مل گئی تھی۔

خلیفہ ہارون الرشید، کاتب "ابنِ اسحاق" کو ہر اس کتاب کا سونے سے تول کر معاوضہ دیا کرتا تھا جو وہ غیر دیگر زبانوں سے عربی میں منتقل کرتا تھا۔ غرض یہ کہ عوام سے لے کر امرا تک سارے لوگ علوم و فنون کے قدردان تھے۔ تب ہی تو اسے مسلمانوں کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ اُس وقت عالمِ اسلام میں کوئی شہر، کوئی گاؤں ایسا نہیں تھا جس میں لائبریری نہیں تھی۔ مثلاً "دارالحکمت" قاہرہ میں اس قدر عظیم الشان ذخیرہ کتب جمع کیا گیا تھا، جو اس سے پہلے کسی بادشاہ نے جمع نہیں کیا تھا۔

تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے کتاب سے دوستی رکھی، وہ زندگی کے ہر میدان میں ترقی اور عروج کی منازل طے کرتی گئیں، لیکن جیسے ہی کتاب و علم سے رشتہ توڑا پستی اور ذلت نے انہیں گھیر لیا۔ ساتویں صدی سے تیرہویں صدی عیسوی تک بغداد علم و ادب کا گہوارہ رہا۔ غرناطہ، قرطبہ اور قاہرہ دنیا کے عظیم تاریخی اور علمی سرمایے تصور ہوتے تھے، لیکن آج علم و ادب سے دوری نے مسلمانوں سے ان کا وقار اور تخت تک چھین لیا ہے۔ 1858ء میں جب مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا، تو انگریزوں نے لال قلعہ کے شاہی لائبریری سے بھی ہزاروں کتابیں لندن پہنچا دیں۔ آج بھی لندن میں انڈیا آفس لائبریری اور پیرس لائبریری میں مسلمانوں کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ آج ہمارے منظر کا ذکر علامہ محمد اقبال نے کچھ اس طرح کیا کہ:

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا۔

آج جب معاشرہ نفرت، عدم برداشت، جھوٹ، بے حیائی اور فکری انحطاط کا شکار ہے، تو ایسے میں کتاب ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو ہمیں فکری پستی سے نکال سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ کتاب سے اپنا رشتہ دوبارہ مضبوط کریں، لائبریریوں کو آباد کریں، مطالعے کو فیشن نہیں، ضرورت بنائیں۔ کیونکہ یاد رکھیں! قلم کی توہین، فکر کی توہین ہے اور فکر کی توہین، زوال کی پہلی سیڑھی!

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔