1. ہوم
  2. کالمز
  3. عابد ہاشمی
  4. الجھن کا شکار ہیں لوگ

الجھن کا شکار ہیں لوگ

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہاں اکثر خوشی اور کامیابیوں پر مقابلے کی فضا چھا جاتی ہے۔ دوسروں کی ترقی، کامیابی، یا خوشی پر دل سے خوش ہونا اب ایک نایاب خوبی بنتی جا رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی کی خوشی میں خوش ہونا نہ صرف ایک اعلیٰ ظرفی کی علامت ہے بلکہ انسان کے باطن کی پاکیزگی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دل میں حسد، بغض، یا احساسِ کمتری کی جگہ نہیں ہوتی۔ وہ جانتے ہیں کہ دنیا میں ہر کسی کا رزق، کامیابی اور وقت الگ الگ ہے۔ اگر آج کسی اور کے نصیب میں خوشی ہے تو کل ان کی باری بھی آئے گی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خوشیاں بانٹنے سے کم نہیں ہوتیں، بلکہ دُگنی ہو جاتی ہیں۔

آج ہم میں سے 50٪ افراد دوسروں کی کامیابیاں دیکھ کر پریشانی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ دوسرے بچوں کے امتحانات میں نمبر زیادہ ہونے سے کئی بچے خود کشی اور کئی ذہنی مریض بنتے جا رہے۔ اس میں ان کا قصور نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی رویے ایسے کرنے پر انہیں مجبور کرتے۔ دراصل دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا اپنے آپ کو کامیاب کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔

ہمارے اسلام میں اس عمل کی بہت اہمیت ہے۔ ایک دن رحمت کونینﷺ تشریف فرما تھے، رحمت کونینﷺ نے مسجد نبوی کے ایک دروازے کی طرف دیکھا اور فرمایا "اس دروازے سے ابھی ایک جنتی اندر داخل ہوگا، صحابہؓ نے اپنی نظریں دروازے پر جما دیں، زیادہ وقت نہیں گزرا، دروازے سے ایک ضعیف انصاری اندر داخل ہوئے، سلام کیا اور چپ چاپ محفل میں بیٹھ گئے، دن گزر گیا، دوسرے دن دوبارہ محفل لگی۔ رحمت کونینﷺ سوالوں کے جواب دے رہے تھے، آپ ﷺ نے ایک بار پھر اس دروازے کی طرف دیکھا اور فرمایا "اس دروازے سے ابھی ایک جنتی اندر داخل ہوگا" صحابہؓ دوبارہ دروازے پر نظریں جما کر بیٹھ گئے، تھوڑی دیر بعد وہی بزرگ صحابیؓ اندر داخل ہوئے، سلام کیا اور چپ چاپ بیٹھ گئے، تیسرے دن بھی اللہ کے حبیب ﷺ نے فرمایا "اس دروازے سے ابھی ایک جنتی اندر داخل ہوگا" اور اس دن بھی وہی صحابیؓ تیسری بار اندر داخل ہو گئے، محفل میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ تھا، یہ عبادت گزار ترین صحابی تھے۔

وہ رات بھر عبادت کرتے تھے، صبح روزہ رکھتے تھے اور دن میں ایک قرآن مجید ختم کرتے تھے، ان کی یہ عبادت گزاری دیکھ کر اللہ کے حبیب ﷺ نے ان پر پابندی لگا دی۔ آپ رات کو آرام بھی کریں گے، ایک دن چھوڑ کر ایک روزہ رکھیں گے اور تین دن میں ایک قرآن مجید ختم کریں گے، یہ تینوں دن رسول اللہ ﷺکی محفل میں موجود تھے، اُنہوں نے ان صحابیؓ کے بارے میں یہ بشارت سنی تو سوچا یہ مجھ سے زیادہ عبادت گزار ہوں گے، چنانچہ وہ اگلے دن ان صحابیؓ کے گھر چلے گئے اور چند دن کے لیے مہمان بننے کی خواہش کی، انصاری صحابیؓ نے اپنے دروازے ان کے لیے کھول دیے، مہمان اور میزبان دونوں نے رات کا کھانا کھایا، عشاء کی نماز پڑھی اور چارپائیوں پر چلے گئے، حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے منہ پر چادر تانی، چادر میں ایک درز بنائی اور چھپ کر بزرگ صحابیؓ کی چارپائی کی طرف دیکھنے لگے۔

ان کا خیال تھا، یہ بزرگ اٹھیں گے اور عبادت شروع کر دیں گے مگر بزرگ صحابیؓ نے چادر تانی اور صبح فجر کی نماز تک مزے سے سوتے رہے، حضرت عبداللہ بن عمروؓ حیران رہ گئے، بزرگ صحابیؓ نے فجر کی نماز ادا کی، ناشتہ کیا اور کام پر روانہ ہو گئے، اگلی رات آئی، حضرت عبداللہؓ کا خیال تھا، یہ اس رات عبادت کریں گے مگر وہ اس رات بھی عشاء کی نماز کے بعد سو گئے، تیسری رات آئی تو اس بار بھی یہی ہوا وہ انصاری صحابیؓ جس کو نبی مہربانﷺ نے تین بار جنت کی بشارت دی تھی، وہ تیسری رات بھی سو گئے۔

یہ وہ دور تھا جب مدینہ کا کوئی شہری تہجد بھی ضایع نہیں کرتا تھا جب کہ وہ صحابیؓ صرف فجر کے وقت اٹھتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ پریشان ہوئے اور انھوں نے چوتھے دن بات کھول دی، انھوں نے فرمایا، اللہ کے حبیب ﷺ نے آپ کے لیے تین دن مسلسل جنت کی بشارت دی تھی، میں یہ معلوم کرنے کے لیے آپ کے گھر ٹھہرا تھا، آپ کون سی ایسی عبادت، کون سا ایسا فعل کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اللہ کے رسولﷺ نے آپ کو جنت کا حق دار قرار دیا لیکن مجھے ان تین دنوں میں آپ میں کوئی انوکھی بات نظر نہیں آئی، آپ کی زندگی صرف فرائض تک محدود ہے، آپ نفلی عبادت تک نہیں کرتے پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیوں منتخب کیا؟

بزرگ صحابیؓ نے قہقہہ لگایا اور فرمایا "بھتیجے میں جیسا ہوں، میں آپ کے سامنے ہوں، میں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوں" حضرت عبداللہؓ مایوس ہو کر روانہ ہونے لگے، وہ دروازے تک پہنچے تو بزرگ صحابیؓ نے آواز لگائی "بھتیجے سنو، بھتیجے سنو" حضرت عبداللہ واپس مڑ آئے، بزرگ انصاری صحابیؓ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور کہا "میری اس جگہ دنیا کے کسی شخص کے لیے کوئی بغض، کوئی نفرت اور کوئی حسد نہیں، اللہ تعالیٰ جب بھی کسی شخص کو کوئی نعمت عطا کرتا ہے تو میں دکھی نہیں ہوتا، میں خوش ہوتا ہوں" حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے یہ سنا تو انھیں کرنٹ سا لگا اور وہ چلا کر بولے "یہی ہے وہ، یہی ہے وہ"۔ اس سے ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم دوسرو ں کی خوشی میں خوش ہو کر جنت کے مستحق بننا چاہتے ہیں یا کسی کی خوشی سے اپنا آپ تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

ایسے افراد سماج کا اصل حسن ہوتے ہیں۔ جب وہ دوسروں کی کامیابی پر تالیاں بجاتے ہیں، دعائیں دیتے ہیں، تو نہ صرف دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ہیں بلکہ اپنی روحانی دنیا کو بھی سکون اور اطمینان سے بھر لیتے ہیں۔ یہ رویہ معاشرے میں محبت، اپنائیت اور باہمی تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ یہاں الجھن کا شکار ہیں لوگ کہ کوئی اچھا ہے تو کیوں؟ ہمارے معاشرے کو مقابلے، حسد اور نیچا دکھانے کے رجحانات نے اس خوبصورتی کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔

آئیے ہم بھی دل وسیع کریں۔ دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہو کر، ان کی کامیابیوں پر دل سے خوش ہو کر، ایک بہتر معاشرے کی بنیاد رکھیں۔ کیونکہ جو خوشی دینے والے ہوتے ہیں، وہی اصل میں خوش رہنے والے ہوتے ہیں۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔