1. ہوم
  2. کالمز
  3. عمران امین
  4. پارلیمنٹ کی بالادستی بمقابلہ عدلیہ کی آزادی

پارلیمنٹ کی بالادستی بمقابلہ عدلیہ کی آزادی

ہر مستحکم جمہوری نظام کی بنیاد طاقت کی تقسیم پر ہوتی ہے جس کے تین اہم ستون پارلیمنٹ، مقننہ اور عدلیہ ہیں۔ جمہوریت کی کامیابی اسی میں ہے کہ یہ تینوں ادارے اپنا کام آزادی اور غیر جانبداری سے انجام دیتے ہوئے ایک دوسرے پر چیک اینڈ بیلنس بھی رکھیں۔ تاہم جب بھی کسی جمہوری ملک میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا پارلیمنٹ کی بالادستی ضروری ہے یا عدلیہ کی بالادستی بہتر ہے تب دنیا کے ممالک مختلف ماڈلز پیش کرتے ہیں۔

پارلیمنٹ کی بالادستی کا مطلب یہ ہے کہ منتخب نمائندوں کی جانب سے بنائے گئے قوانین کو سب سے اعلیٰ قانونی اختیار حاصل ہے اور عدالتوں کو ان قوانین کو رد کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ وغیرہ جہاں پارلیمنٹ کو مکمل بالادستی حاصل ہے۔ اس کے برعکس عدلیہ کی بالادستی کا اصول یہ ہے کہ عدالتوں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی جانب سے بنائے گئے قوانین کو آئین کے خلاف ہونے کی صورت میں کالعدم قرار دے سکیں۔ مثال کے طور پر امریکہ اور جرمنی سمیت بعض ممالک جہاں عدلیہ کو آئینی تحفظ کا اعلیٰ اختیار حاصل ہے۔

مشہور فلسفی مونٹیسکئے نے اپنی کتاب The Spirit of Laws میں خبردار کیا تھا کہ "جب قانون سازی اور انتظامیہ کی طاقت ایک ہی شخص یا ایک ہی جسم میں متحد ہو جائے تو آزادی کا وجود نہیں رہتا"۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں اداروں میں توازن قائم رہنا انتہائی ضروری ہے۔

بد قسمتی سے پاکستان میں 1973 کے آئینِ کی منظوری کے بعد سے ہی عدلیہ اور پارلیمنٹ کے اختیارات کے درمیان تناؤ اور کشمکش کا آغاز ہوگیا تھا مختلف ادوار میں فوجی اور سیاسی مداخلتوں نے اس توازن کو متاثر کیا ہے۔ جہاں اٹھارویں آئینی ترمیم نے وفاقی نظام کو مضبوط کیا وہیں حالیہ Constitution (Twenty-seventh Amendment) Act، 2025 اس توازن کو ایک نئی شکل دینے کی کوشش ہے۔ نومبر 2025 میں پارلیمنٹ نے ستائیسویں آئینی ترمیم منظور کی۔ اس ترمیم کا مقصد عدلیہ کے ڈھانچے میں بہتری لانا اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کو مضبوط کرنا ہے

اس ترمیم کی بنیادی تبدیلیاں یہ ہیں۔ وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court - FCC) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ترمیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان (SCP) کے آئینی معاملات (مثلاً آئینی تشریح، وفاق اور صوبوں کے مابین تنازعات) کو ختم کر دیا ہے۔ اب صرف FCC ہی آئینی مقدمات اور وفاقی و صوبائی اختلافات کا فیصلہ کرے گی اور یوں سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی ہوئی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کو صرف اپیلری دائرہ کار (دیوانی اور فوجداری اپیلز) تک محدود کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے از خود کارروائی (Suo Moto) کے اختیار کو بھی محدود کیا گیا ہے۔ ججز کی تعیناتی اور تبادلے کا عمل عدالتی کمیشن کے ذریعے کنٹرول ہونے کے بجائے اب پارلیمنٹ اور صدر کے اختیار میں رکھا گیا ہے۔

حکومت پاکستان کے بقول اس ترمیم کے ممکنہ فوائد مندرجہ ذیل ہوں گے۔ آئینی مقدمات FCC کو منتقل ہونے سے سپریم کورٹ کا بوجھ کم ہوگا اور وہ صرف اپیلری کیسز پر توجہ دے سکے گی جس سے فیصلہ سازی میں تیزی آسکتی ہے اور التواء والے کیسز کا فیصلہ بھی جلد ہو پائے گا۔ FCC وفاقی اور صوبائی تعلقات میں اصلاحات اور تنازعات کو جلد نمٹانے میں مدد کر سکتی ہے اور یوں پارلیمنٹ کی بالا دستی سے حکومتی فیصلوں میں تسلسل اور استحکام آئے گا جو جمہوری کے لیے نہایت ضروری ہے۔

دوسری جانب اگر ہم سنجیدگی کے ساتھ نقصانات اور خطرات کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ جب عدلیہ کا آئینی کردار محدود ہو جاتا ہے تو حکومت یا پارلیمنٹ کی پالیسیوں پر اس کی جانچ پڑتال (Check) کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے جس سے قانون کی حکمرانی کمزور ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ اس کے علاؤہ ججز کی تعیناتی پر پارلیمنٹ اور صدر کا اختیار بڑھنے سے عدلیہ کی غیر جانبداری کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس پر سیاسی دباؤ بڑھنے کا اندیشہ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر عوام یہ محسوس کریں کہ عدلیہ حکومت یا پارلیمنٹ کے تابع ہوگئی ہے تو عدالتی فیصلوں پر اعتماد اٹھ جائے گا جو جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے۔ اگر ہم دیگر ممالک کے تجربات کی روشنی میں دیکھیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ توازن کا بگڑنا کئی ممالک میں جمہوریت کو کمزور کر چکا ہے۔ جنوبی کوریا کا ماڈل اس حوالے سے متوازن ہے جہاں آئینی سوالات اور سادہ قانونی فیصلوں کے لیے الگ الگم عدالتیں ہیں لیکن عدالتی طاقت کو مقننہ سے علیحدہ رکھا گیا ہے۔

ستائیسویں آئینی ترمیم نے پاکستان میں پارلیمنٹ کی بالادستی کے بیانیے کو مضبوط کیا ہے لیکن اس کے نتیجے میں عدلیہ کی آزادی اور آئینی تشریح کا اختیار شدید خطرے میں پڑ گیا ہے۔ بادی النظر میں امکانی نقصانات میں عدلیہ کی آزادی میں کمی، عوامی اعتماد کا نقصان اور حکمرانی کی شفافیت کا متاثر ہونا شامل ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنے والی ہے کہ جمہوری استحکام کے لیے یہ ضروری نہیں کہ مقننہ یا عدلیہ میں سے کوئی ایک "بالاتر" ہو بلکہ یہ زیادہ اہم ہے کہ دونوں کے مابین مؤثر توازن قائم رہے۔

مقننہ کو آئینی حدود میں رہتے ہوئے قانون سازی کرنی چاہیے اور عدلیہ کو سیاسی دباؤ سے آزاد ہو کر قانون کی تعبیر کرنی چاہیے۔ آئندہ اقدامات میں حکومت کو چاہیے کہ وہ عدلیہ کی آئینی تشریح کی صلاحیت کو بحال کرنے اور ججوں کی تقرری و تبادلے کے عمل کو مزید شفاف اور غیر سیاسی بنانے کے لیے مؤثر میکانزم وضع کرے تاکہ یہ ترمیم جمہوری عمل کی راہ میں رکاوٹ بننے کے بجائے ایک متوازن، آئینی اور جمہوری عمل کی ترویج کا باعث بن سکے۔