1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. توفیق

توفیق

ذہین احمد کے گھر سے کچھ فاصلے پر ایک بڑا سا خالی میدان تھا جہاں کرکٹ کے متوالوں نے سیمنٹ کی پچ بنا رکھی تھی۔ جمعہ کے جمعہ (کہ ان دنوں ہفتہ وار چھٹی جمعہ کے روز ہوا کرتی تھی) وہاں مقامی ٹیم اور کسی دوسرے علاقے یا شہر کی ٹیم میں میچ ہوا کرتے۔ قابل اور بہت زیادہ پڑھاکو ذہین احمد کی واحد تفریح وہ میچ تھے۔ جو عموماً عصر اور مغرب کے درمیان ہوتے۔

آج بابا عصر پڑھ کر نکلے تو ذہین احمد کو مسجد میں نہ پاکر کچھ متفکر ہوئے۔ مسجد سے واپسی پر معمول کے راستے کی بجائے میدان والے راستے سے ہولیے۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد ذہین احمد کچھ دوستوں کے ساتھ سڑک کے کنارے گھاس پر بیٹھے میچ دیکھتے ہوئے مل گئے۔ بابا کو دیکھ کر پریشانی اور عجلت میں اٹھے اور چپل پہننے لگے۔ بابا نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا، پیار سے اپنے ساتھ لگا کر بھینچا اور کمال محبت سے پوچھا۔۔ عصر نہیں پڑھی۔ ذہین احمد خاموش کھڑے رہے۔ بابا نے کہا جائیں پہلے عصر پڑھیں پھر آکر میچ دیکھیں۔

رات عشاء کے بعد کے بعد بابا نے ذہین احمد کو پاس بٹھایا اور بولے۔۔ بیٹا جیسے لوگوں کے آمدن کے لحاظ سے مراتب ہوتے ہیں، کسی کی تنخواہ پچیس ہزار، کسی کی پچاس ہزار، کسی کی لاکھ اور کسی کی دس لاکھ ماہانہ ہوتی ہے، جیسے معاشرے میں کوئی غریب، کوئی سفید پوش، کوئی امیر اور کوئی بہت امیر ہوتا ہے۔۔ بالکل ایسے ہی انسانوں کے روحانی درجے بھی ہوتے ہیں۔

روحانی درجے یعنی نیکی کے حساب سے امیر یا غریب۔ جیسے تنخواہ دار کو محنت اور قابلیت کا صلہ کم یا زیادہ تنخواہ کی صورت ملتا ہے، بالکل ایسے ہی روحانی درجہ بندی کا صلہ نیکی کی توفیق کی صورت میں ملتا ہے۔ جو شخص زیادہ شوق سے خیر کے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے، خود پر زیادہ قابو رکھتے ہوئے گناہوں سے بچتا ہے اس کو زیادہ نیکیوں کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ یہ نیکیوں کی توفیق ملتی نہیں کمانا پڑتی ہے۔ نظام الہی میں واضح قانون ہے کہ " انسان کے لیے کچھ بھی نہیں سوا اس کے کہ جس کے لیے وہ محنت کرے"۔

یعنی نیکی کی توفیق بھی محنت کے بغیر نہیں ملتی۔ اب دیکھیں ایک شخص پانچ وقت نماز پابندی سے نہیں پڑھتا، دوسرا نماز باجماعت کی پابندی کرتا ہے، تیسرا نماز کے ساتھ قرآن پاک بھی پڑھتا ہے، لوگوں کا بھلا بھی کرتا ہے، اور کوئی تہجد گذار بھی اور لوگوں کے لیے بہت خیر اور بھلائی کے کام بھی کرتا جاتا ہے تو سب درجے انہیں بغیر محنت کے نہیں مل گئے۔ بلکہ ان سب نے کڑی محنت کرکے خود کو برائیوں سے بچایا ہے۔ جس کا جتنا من برائی سےپاک ہوتا ہے اور جس کی جتنی اللہ کے قرب کی سعی ہوتی ہے اس کو اتنی نیکی کی توفیق یا اجازت ملتی جاتی ہے۔

قرآن پاک میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ "نماز برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے" تو اصل میں اس فقرے میں یہی سمجھایا جارہا ہے کہ " اگر خود کو محنت کرکے، صبر کرکے، منفی اور لذت والے جذبات پر قابو پاکر برائی اور بے حیائی سے نہیں روکو گے تو نماز پڑھنے کی توفیق نہیں ملے گی"۔

گویا جب جب کوئی شخص برائی یا بے حیائی کا مرتکب ہوتا ہے سب سے پہلے اس سے نماز کی توفیق سلب کی جاتی ہے۔ اگر کبھی نماز بھاری لگے، جی نہ کرے تو اپنے معمولات کا محاسبہ کیجئے یقیناً کہیں کوئی ایسی غلطی، برائی یا گناہ سرزد ہورہا ہے جس سے روحانی مرتبہ میں کمی کردی گئی ہے۔

بیٹا جی اس ضمن میں تہجد سب سے زبردست پیمانہ ہے۔ یہ ایسا مرتبہ ہے جو صرف اور صرف انتہائی شفاف دلوں اور پاک روحوں کو نصیب ہوتا ہے۔ حتی کہا ہم نے بزرگوں سے یہ بھی سنا ہے کہ جس ولی کو تین دن مسلسل تہجد نصیب نہ ہو اس کی ولایت خطرہ میں پڑھ جاتی ہے۔ تو میری بات یاد رکھنا جب کبھی نماز سے جی اچاٹ ہونے لگے، نماز کا چھوٹنا دل پر گراں نہ گذرے۔۔ تو جان لوکہ نفس کسی برائی میں الجھ گیا ہیں۔ توبہ کرو اور اس برائی سے چھٹکارا حاصل کرو نماز کی توفیق پھر سے مل جائے گی۔