1. ہوم
  2. کالمز
  3. عمران امین
  4. پاکستانی سیاست کے راستے میں پیروں کا چکر کب ختم ہوگا؟

پاکستانی سیاست کے راستے میں پیروں کا چکر کب ختم ہوگا؟

یہ جملہ محض شاعرانہ تاثر ہی لیے ہوئے نہیں ہے بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک آئینہ ہے۔ ایک ایسا آئینہ جس میں بار بار وہی گرد اُڑتی دکھائی دیتی ہے جو دہائیوں سے سفرِ جمہوریت کے راستوں کو دھندلا کرتی چلی آ رہی ہے۔ یہ "پیروں کا چکر" محض صوفیانہ رموز یا روحانی استعارات نہیں بلکہ طاقت کے ان مراکز، غیر مرئی قوتوں اور سیاسی مصلحتوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جو ہر مرتبہ قومی قافلے کو اپنے ہی قدموں کے نشان تلاش کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سے یہ ملک شفاف سیاسی ارتقاء کی منازل طے کرنے کی بجائے مسلسل اور بار بار مختلف اداروں اور شخصیاتی مداخلتوں، نااہل قیادتوں، وقتی فیصلوں اور غیر فطری اتحادوں کے گرد گھومتا رہا ہے۔

1950 کی دہائی میں گورنر جنرل کے اختیارات سے لے کر 1958 کے پہلے مارشل لا تک قوم ہمیشہ اپنی محبوب قیادتوں کی جانب سے کیے گئے "نئے راستے" کے وعدے پر نکلی مگر بدقسمتی سے ہر موڑ پر وہی "چکر" آ جاتا رہا یعنی طاقت اور مفادات کا وہ لا متناہی اور غیر منتخب دائرہ جو اپنی مصلحت کے مطابق سیاسی بساط سجا دیتا تھا۔

1960 کی دہائی میں ایوب خان کی ترقیاتی کہانی اور اس کے بعد مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی اسی چکر کی ایک صورت تھی جب عوامی مینڈیٹ کے مقابل میں کسی کی ذاتی مقبولیت کا بیانیہ اور مخصوص گروہ کے مفادات کی قوت کے قدم ملکی سلامتی اور استحکام سے زیادہ وزنی سمجھے گئے۔ 1977 کی سیاسی بے چینی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ملکی انتشار اور پھر نتیجے میں جنرل ضیاء الحق کا طویل اقتدار اس عوام کے حصے میں آیا۔ یہ شاید اس چکر کا سب سے گہرا نقش تھا جس نے سیاست، معاشرت، مذہب اور سماج کے بیانیے کو ایسی نئی صورت میں ڈھالا کہ آج بھی اس کے اثرات ملکی فیصلوں کے زاویے طے کرتے ہیں۔ 1990 کی دہائی کی "ڈانواں ڈول جمہوریت"، 1999 کی مداخلت اور پھر بعد از 2008 سیاسی نظام کی بحالی بھی اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔

آج جب ہم 2025 کے پاکستان کو دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ آج ڈیجیٹل دور ہے، نوجوان ووٹر کی بھاری اکثریت ہے، سوشل میڈیا بیانیے عوامی رائے کو بدلنے کی قوت رکھتے ہیں اور عالمی دنیا کے نقشے پر اب کئی نئے طاقتور ممالک اپنے بلاک بنا چکے ہیں، جنگوں کا طریقہ کار بدل چکا ہے، عسکری طاقت کی بجائے معیشت میں ترقی و تنزلی ممالک کی بقا کے لیے اہم ہوگئی ہے یعنی آج کی ڈیجیٹل دنیا ایک دم بدل گئی ہے لیکن ہمارا ملکی سیاسی ڈھانچہ اب بھی پرانی گتھیوں میں الجھا ہوا ہے۔

آج بھی ملکی سیاست افراد کے گرد زیادہ اور ملکی سلامتی والے اداروں کے بیانیوں کے گرد کم گھومتی دکھائی دیتی ہے مگر اصل طاقت کا محور عوام اپنی اندھی تقلید میں اپنے اپنے پسندیدہ رہنماؤں کا بیانیہ پسند کر رہے ہیں اور اپنی روش تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ دوسری طرف اگرچہ ہر سیاسی جماعت خود کو تبدیلی کا علمبردار کہتی ہے مگر بھول جاتی ہیں کہ طاقت کے توازن کے بغیر تبدیلی کا سفر ہمیشہ "پیر کا نشان" تلاش کرتا رہتا ہے۔

پاکستانی عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیاست کی تکراری کہانی میں دھائیوں سے ایک ہی اسکرپٹ بار بار دیکھ رہے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، انصاف کی عدم فراہمی، گورننس کا انتشار۔ یہ سب اس "چکر" کی علامتیں ہیں جو ہر دور میں ایک نئے لبادے میں سامنے آتی ہیں۔ ایسے میں عوام کا اعتماد ہر چند برس بعد تازہ ہوتا ہے مگر افسوس نظام کی پرتیں وہی رہتی ہیں۔ اسی لیے ہر انتخاب سے پہلے امید کا چراغ روشن ہوتا ہے مگر کچھ ہی عرصے بعد سیاسی شور، بیانیاتی جنگ، ادارہ جاتی تناؤ اور باہمی عدم اعتماد دوبارہ فضا کو بوجھل کر دیتے ہیں۔ اس وقت پارلیمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ سمیت سب ادارے اپنا کردار احسن طریقے سے ادا تو کررہے ہیں مگر اکثر اوقات فیصلہ سازی کا محور کسی بھی ایک ادارے کی سمت جب زیادہ جھک جاتا ہے تو ایک بار پھر "پیروں کا چکر" دوبارہ تازہ ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ سیاسی جماعتیں خود بھی اپنے اندر جمہوریت لانے میں ناکام رہیں ہیں جس کی وجہ سے قومی سیاست شخصیات کا کھیل بن گئی ہے نہ کہ اصولوں کا میدان۔

ایسے میں جب ہم بیرونی دنیا اور اپنے آس پاس کے ممالک پر نظر ڈالتے ہیں تو بھارت کی جارحیت، افغانستان کی غیر یقینی فضا، چین کے ساتھ تعلقات، خلیجی ممالک کی سرمایہ کاری اور امریکہ کی اسٹریٹجک ترجیحات ہمارے لیے نہایت اہم ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ سب معاملات و حالات پاکستان کے لیے نئے مواقع بھی ہیں اور نئے خطرات بھی مگر بدقسمتی سے اندرونی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اکثر اوقات قومی پالیسی صاف اور واضع خطوط پر استوار نہیں ہو پاتی۔ اس وقت ملک کو ضرورت درست سیاسی سمت کی ہے لیکن ہر چند سال بعد نئے بیانیے، نئے سیاسی اتحاد اور نئی محاذ آرائیاں اسی چکر کو دہراتی ہیں جس کا شکوہ اس مصرع میں جھلکتا ہے۔

"راستے میں پھر وہی پیروں کا چکر آ گیا"

اس مصرعے کی گونج آج بھی پاکستان کی پوری سیاسی فضا پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا چکر توڑا جا سکتا ہے؟

چکر تب ٹوٹے گا جب۔۔

1۔ سیاسی جماعتیں داخلی جمہوریت کو مضبوط کریں گی۔

2۔ ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی اعتماد قائم کریں گے۔

3۔ عوامی مسائل کو صرف پارٹی بیانیے کا نہیں بلکہ پالیسی کا حصہ بنایا جائے گا۔

4۔ معیشت کو سیاسی فیصلوں سے آزاد کیا جائے گا۔

5۔ انتخابی نظام شفاف اور مستحکم ہوگا۔

جمہوریت کا سفر ہمیشہ سیدھا نہیں ہوتا ہے لیکن مسلسل تکرار کسی قوم کی ترقی کے لیے زہر بن جاتی ہے۔ اگر ہم نے تاریخ کو محض دہرانا ہے تو چکر باقی رہے گا مگر اگر ہم نے تاریخ سے سیکھنا ہے تو راستہ بدل سکتا ہے۔ یہ سفر مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلی دفعہ اپنی تاریخ میں "چکر" کو توڑ کر آگے بڑھنے کی اجتماعی ہمت پیدا کرے کیونکہ سفر ابھی جاری ہے۔