1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. جاوید چوہدری/
  4. بابے رحمتے کو یہ بھی سوچنا پڑے گا

بابے رحمتے کو یہ بھی سوچنا پڑے گا

بابے رحمتے کو کسی دن پاکستان کے عدالتی اور تفتیشی نظام کا تجزیہ بھی کرنا پڑے گا‘ بابا اگر کسی دن سی ڈی اے کی فائلیں ہی کھول کر دیکھ لے تو بابا پریشان ہو جائے گا۔

پاکستان نے آج تک ہزاروں بیورو کریٹس پیدا کیے لیکن ان میں کامران لاشاری جیسے وژنری‘ متحرک اور مثبت افسر درجن سے زیادہ نہیں ہوں گے‘ یہ کمال انسان ہیں‘ آپ انھیں خشک پہاڑ دے دیں یہ دو سال میں اس پہاڑ کو آرٹ کا نمونہ بھی بنا دیں گے اور یہ اس کے اردگرد اربوں روپے کی معاشی سرگرمیاں بھی شروع کرا دیں گے‘ کامران لاشاری کی پوری زندگی کامیاب منصوبوں کا البم ہے‘ یہ جہاں بھی گئے یہ وہاں داستان چھوڑ آئے‘ یہ 2003ء سے 2008ء تک سی ڈی اے کے چیئرمین بھی رہے‘ یہ پانچ سال اسلام آباد کی تاریخ کا شاندار ترین دور تھا‘ آپ کو آج بھی اس شہر میں جو خوبصورت چیز نظر آئے گی آپ کو اس کے پیچھے کامران لاشاری ملیں گے لیکن آخر میں ان کے ساتھ کیا ہوا؟ آپ فائلیں کھولتے جائیں اور افسوس کرتے جائیں‘ لاشاری صاحب نے 2007ء میں اسپین سے 13 کروڑ روپے کے ’’ڈانسنگ فونٹین‘‘ منگوائے تھے‘ یہ فوارے ’’راول لیک‘‘ میں لگنے تھے۔

اسپین کی کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہو گیا‘ کمپنی نے اسلام آباد آ کر راول لیک میں فوارے لگا دینے تھے لیکن منصوبہ مکمل ہونے سے قبل کامران لاشاری سپریم کورٹ میں تاریخیں بھگتتے بھگتتے فارغ ہو گئے‘یہ اس کے بعد چیف جسٹس افتخار محمدچودھری کی مہربانی سے فٹ بال بن گئے‘ یہ اگلے چار سال میں چیف کمشنر اسلام آباد‘ فیڈرل سیکریٹری انوائرمنٹ ‘ سیکریٹری پٹرولیم‘چیف سیکریٹری سندھ‘ او ایس ڈی اور سیکریٹری ہاؤسنگ بن کر 2012ء میںریٹائر ہو گئے‘فوارے اس دوران سی ڈی اے کے گوداموں میں پڑے رہے‘ لاشاری صاحب کی ریٹائرمنٹ کے چار سال بعد 2016ء میں ایف آئی اے کے ایک انسپکٹر نے انھیں طلب کر لیا‘ یہ لاہور سے انسپکٹر کے دفتر پہنچ گئے‘ انسپکٹر نے فواروں کا ایشو ان کے سامنے رکھا اور ان سے کہا’’ سر آپ نے اسپین کی جس کمپنی کو فواروں کا کنٹریکٹ دیا تھا وہ انجینئرنگ کونسل آف پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں تھی‘ یہ قواعد کی خلاف ورزی تھی‘ آپ اس کا کیا جواب دیں گے‘‘ کامران لاشاری نے قہقہہ لگایا اور انسپکٹر کو جواب دیا ’’میرے بھائی ان فواروں پر سرکار کے 13 کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔

یہ آٹھ سال سے گوداموں میں پڑے ہیں‘ میرے بعد چار چیئرمین آئے‘ کسی نے وہ فوارے نہیں لگائے‘ کیا آپ نے ان میں سے کسی سے پوچھا‘ جناب آپ نے یہ کیوں نہیں لگائے‘ کیا یہ رقم سرکار کی امانت نہیں تھی‘ آپ کسی چیئرمین سے کام مکمل نہ کرنے پر سوال نہیں کر رہے لیکن میں کام کرنے پر آپ کا مجرم بن گیا ہوں‘ کیا یہ انصاف ہے؟‘‘ کامران لاشاری نے انسپکٹر سے پوچھا ’’ کیا ملک میں ڈانسنگ فونٹین کی کوئی کمپنی یا کوئی ایکسپرٹ موجود ہے؟‘‘ انسپکٹر نے انکار میں سر ہلا دیا‘ لاشاری صاحب نے جواب دیا ’’بھائی میرے! پاکستان میں کوئی کمپنی موجود نہیں تھی‘ ہم نے اسپین کی کمپنی سے فوارے منگوا لیے اور اسپین کی کمپنی پاکستان کی انجینئرنگ کونسل میں کیسے رجسٹرڈ ہو سکتی تھی؟‘‘ انسپکٹر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ لاشاری صاحب واپس آ گئے لیکن کیس ابھی تک چل رہا ہے‘ فوارے بھی 10 سال سے گوداموں میں پڑے ہیں‘ یہ گوداموں میں کیوں پڑے ہیں؟ کسی نے پوچھا اور نہ کوئی پوچھے گا لیکن جس دن سی ڈی اے کے کسی ممبر نے یہ فوارے لگانے کی غلطی کر دی۔

اس دن پورا سسٹم ایکٹو ہو جائے گا اور وہ بے چارہ میڈیا کا ہدف بھی بن جائے گا‘ اسے ایف آئی اے کا نوٹس بھی آ جائے گا اور اسے کوئی نہ کوئی عدالت بھی طلب کر لے گی‘ آپ اسی طرح کسی دن شکرپڑیاں چلے جائیں‘ کامران لاشاری نے اپنے دور میں وہاں آرٹ اینڈ کرافٹ ویلج بنایا تھا‘ یہ ویلج 20 ایکڑ میں بنا اور اس پر اربوں روپے خرچ ہوئے‘ لوک ورثہ میں کلچرل سینٹر بنایا گیا‘ اس پر بھی 50 کروڑ روپے خرچ ہوئے اور جی ٹین میں کروڑوں روپے سے لیڈیز کلب بھی بنایاگیا‘ یہ تمام منصوبے مکمل ہونے کے باوجود دس برسوں سے افتتاح کا انتظار کر رہے ہیں‘ عمارتیں انتقال کر چکی ہیں‘چیئرمین آتے رہے‘ چیئرمین جاتے رہے مگر کسی کو ان منصوبوں کا گیٹ کھولنے کی توفیق نہیں ہوئی‘ کسی نے کسی چیئرمین سے اس ظلم کی وجہ بھی نہیں پوچھی جب کہ ان کے مقابلے میں کامران لاشاری آج تک پیشیاں بھگت رہے ہیں اور یہ انتقال تک پیشیاں بھگتتے رہیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ پاکستان میں کام کرنے کی غلطی کر بیٹھے تھے۔

ہم ایک دلچسپ ملک ہیں‘ ہمارے ملک میں بیوروکریٹس جوانی میں سرکاری نوکری شروع کرتے ہیں‘ یہ خواہ پوری زندگی کچھ نہ کریں‘ یہ تنکا تک نہ توڑیں لیکن یہ ترقی کی منزلیں طے کرتے کرتے 22 ویں گریڈ تک پہنچ جائیں گے‘یہ کچھ نہ کر کے بھی شریف کہلائیں گے‘یہ اچھے بھی ہوں گے اور یہ ایماندار بھی‘ ملک کا کوئی ادارہ ان کی سستی اور نااہلی پر انگلی نہیں اٹھائے گا‘ یہ آرام سے ریٹائر ہو جائیں گے‘ پانچ دس کروڑ کا پلاٹ لیں گے اور باقی زندگی گالف کھیل کر گزار دیں گے‘ کوئی ان سے یہ نہیں پوچھے گا ’’جناب آپ نے پوری زندگی کیا کیا تھا‘‘ لیکن جو شخص اس سسٹم میں کچھ کرنے کی غلطی کردے گا‘ جو چیزوں کو ٹھیک کرنے کا جرم کر بیٹھے گا‘ ملک کا ہر ادارہ چھریاں تلواریں لے کر اس پر پل پڑے گا‘ آپ گیس اور بجلی کی مثال ہی لے لیجیے‘ ہمارے ملک میں کسی حکومت نے بجلی کا کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا۔

بجلی کی ڈیمانڈ بڑھتی رہی اور سپلائی کم ہوتی رہی یہاں تک کہ ملک لوڈ شیڈنگ میں ڈوب گیا لیکن کسی نے کسی حکومت سے نہیں پوچھا‘ سپریم کورٹ نے بھی بجلی اور پانی کے کسی وزیر‘ کسی وزیراعظم کو بلا کرلوڈشیڈنگ کے بارے میں سوال نہیں کیا‘ گیس کی صورت حال بھی دگرگوں تھی‘ ملک میں سردیوں میں کارخانے بند ہو جاتے تھے‘ چولہے ٹھنڈے پڑ جاتے تھے اور سڑکوں پر سی این جی کے لیے قطاریں لگ جاتی تھیں لیکن کسی عدالت نے کسی حکومت سے پوچھا اور نہ ہی ایف آئی اے‘ نیب اور میڈیا نے سوال اٹھایا مگر جوں ہی میاں نواز شریف نے بجلی کے کارخانے لگانا شروع کیے اور یہ جوں ہی ملک میں ایل این جی لے آئے‘ نیب بھی ایکٹو ہو گئی‘ ایف آئی اے بھی جاگ اٹھی اور عدالتوں نے بھی انصاف شروع کر دیا‘ آپ اسی طرح کسی دن پنجاب حکومت کے خلاف درخواستوں کا حساب بھی کر لیں۔

آپ کو میٹرو پراجیکٹ سے لے کر روٹی اسکیم‘ آشیانہ اسکیم‘ دانش اسکول‘ قائداعظم سولر پارک‘ اورنج لائین ٹرین‘ انڈر پاسز‘ اوور ہیڈ برجز‘ رنگ روڈز‘ صاف پانی اسکیم‘ کول پاورپلانٹ اور وال سٹی پراجیکٹ غرض آپ کو پنجاب حکومت کے ہر منصوبے کے خلاف درجنوں انکوائریاں نظر آئیں گی‘ آپ کو ہرفورم پر پنجاب کے بیوروکریٹس‘ سیاستدان اور میاں شبہاز شریف جواب اور حساب دیتے ملیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ کام کرنے کی غلطی کر بیٹھے تھے جب کہ اس کے مقابلے میں باقی تینوں صوبوں میں کسی نے کچھ نہیں کیا‘ سندھ حکومت دس برسوں میں کراچی کا کچرہ نہیں اٹھا سکی‘ بلوچستان اور کے پی کے میں بچوں اور امراض قلب کے اسپتال تک موجود نہیں ہیں‘ پنجاب کی سابق حکومتوں نے بھی تنکاتک نہیں توڑاتھا لیکن کسی نے ان سے نہیں پوچھا ’’ جناب عوام نے آپ کو مینڈیٹ دیا تھا‘ آپ نے عوام کے لیے کیا کیا؟‘‘ جب کہ پنجاب حکومت روز پیشیاں بھگت رہی ہے۔

ہمارے ملک میں سڑک نہ بنانے والے کا احتساب نہیں ہوگا‘ سڑک توڑنے والے سے بھی کوئی نہیں پوچھے گا لیکن جس شخص نے سڑک بنانے یا بچانے کی غلطی کر دی ہمارا پورا سسٹم اس کے خلاف جہاد شروع کر دے گا‘ وہ شخص جلد یا بدیر جیل میں ہوگا‘ ذوالفقار علی بھٹو نے آدھا پاکستان بچا لیا تھا‘ وہ پاکستان کے ہزاروں فوجیوں کو بھارت کی جیلوں سے بھی نکال کر لایا ‘ ہم نے اسے پھانسی چڑھا دیا‘ وہ ہمارا ولن تھا جب کہ ضیاء الحق نے ملک کو امریکا کی جنگ میں دھکیل دیا‘ جنرل پرویز مشرف کے غلط فیصلوں نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ یہ دونوں ہمارے ہیرو ہیں ‘ ملک میں درجن بھر وزراء اعظم آئے اور کچھ کیے بغیر گھر چلے گئے ‘وہ آرام سے زندگی گزارتے رہے لیکن وہ وزیراعظم جس نے جیسے تیسے کچھ کرنے کی کوشش کی‘ جو کم از کم ملک میں بجلی اور گیس لے آیا وہ عدالتوں میں دھکے کھا رہا ہے‘ وہ لوگوں سے اپنا جرم پوچھ رہا ہے‘ ہمارے وہ تمام بیورو کریٹس جو تنکا توڑے بغیر بھرپور نوکری کے بعد ریٹائر ہوگئے وہ گھر بیٹھے ہیں جب کہ کامران لاشاری جیسے لوگ فائلیں اٹھا کر عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں‘ عدالتیں انھیں روز بلا لیتی ہیں‘ یہ صورت حال کب تک رہے گی‘ ہم کب تک اس اندھیر نگری کو ملک اور اس چوپٹ راج کو معاشرہ کہتے رہیں گے۔

میری چیف جسٹس سے درخواست ہے آپ اگر ملک میں واقعی انصاف قائم کرنا چاہتے ہیں تو آپ ان تمام بیورو کریٹس‘ سیاستدانوں اور ججوں کو بھی عدالت میں طلب کریں جو پوری زندگی سرکار کے داماد بنے رہے‘ جنہوں نے بھرپور مراعات لیں لیکن پوری زندگی ایک اینٹ تک نہیںلگائی‘ ملک میں اگر کچھ کرنا جرم ہے تو پھر نہ کرنا اس سے بڑا جرم ہونا چاہیے‘آپ زیادہ نہ کریں آپ بس ترقی کو پرفارمنس کے ساتھ نتھی کر دیں‘جو کچھ کرے وہ آگے چلا جائے اور جو نہ کرے وہ باہر نکل جائے اور آپ اسپتالوں کے دورے بھی ضرور کریں لیکن آپ ان سول کورٹس پر بھی توجہ دیں جہاں روز انصاف قتل ہوتا اور عدل پھانسی چڑھتا ہے‘ جہاں لوگ جوانی میں آتے ہیں اور بابا رحمتا بن کر فوت ہو جاتے ہیں لیکن ان کے مقدموں کا فیصلہ نہیں ہوتا‘ ہمارے ملک میں کب تک رحمت خان انصاف کے لیے بابارحمتا بنتے رہیں گے‘ یہ کب تک ایڑھیاں رگڑتے رہیں گے‘بابے رحمتے کو کبھی نہ کبھی یہ بھی سوچنا پڑے گا۔


جاوید چوہدری

جاوید چودھری پاکستان کے مایہ ناز اور معروف کالم نگار ہیں۔ ان کے کالم اپنی جدت اور معلوماتی ہونے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ وہ نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہیں۔ جاوید چودھری "زیرو پوائنٹ" کے نام سے کالم لکھتے ہیں اور ٹی وی پروگرام ”کل تک“ کے میزبان بھی ہیں۔ جاوید چوہدری روزنامہ جنگ کے کالم نگار تھے لیکن آج کل وہ روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز ٹیلیویژن سے وابستہ ہیں۔