1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. جاوید چوہدری/
  4. شہباز شریف کے کرنے کے کام

شہباز شریف کے کرنے کے کام

عوام قصور کی 10 بچیوں کے قاتل عمران علی کو سرعام پھانسی لگتا دیکھنا چاہتے ہیں، وزیراعلیٰ بھی اس شخص کو عبرت کا نشان بنانا چاہتے ہیں، آپ بے شک بنا دیں، آپ بے شک اسے سرعام پھانسی بھی دے دیں لیکن سوال یہ ہے کیا اس پھانسی، عبرت کے اس نشان کے بعد ایسے جرائم رک جائیں گے، کیا زینب جیسی بچیاں محفوظ ہو جائیں گی؟

وزیراعلیٰ اگر یہ یقین دہانی کرا سکتے ہیں تو یہ ملزم کو دس بار سرعام پھانسی دے دیں اور اس کی لاش بے شک دو سال چوراہے پر لٹکائے رکھیں لیکن اگر یہ یقین دہانی ممکن نہیں تو پھر عمران علی کی سرعام پھانسی سے کیا فرق پڑے گا؟

عمران علی درندہ ہے لیکن کیا ریاست سرعام پھانسی دے کر خود کو بڑا درندہ ثابت کرنا چاہتی ہے اور کیا ریاستوں کو درندوں کے ساتھ درندگی کا مقابلہ کرنا چاہیے؟ سرعام پھانسی کے کارنامے ماضی میں فاتح فوجیں مفتوحہ علاقوں میں اپنا خوف قائم کرنے کے لیے سرانجام دیتی تھیں یا پھر یہ حرکت بادشاہ اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے کیا کرتے تھے،انصاف پسند اور مہذب معاشرے مجرموں کو جیلوں یا پھر شہروں سے باہر پھانسی دیتے تھے۔

آج دنیا کے اسی فیصد ملک سرعام تو دور پھانسی دینے کے بھی مخالف ہیں، یہ سو سو لوگوں کے قاتلوں کو بھی اس ملک کے حوالے نہیں کرتے جہاں قتل کی سزا موت ہوتی ہے، یہ ہیگ میں بیٹھ کر پاکستان کو حکم دیتے ہیں آپ کلبھوشن یادیو کو پھانسی نہیں دے سکتے، ریاستیں درندوں کے ساتھ درندگی کا مقابلہ نہیں کیا کرتیں، یہ درندگی کو روکنے کا سسٹم بنایا کرتی ہیں اور ہمارے سسٹم کی حالت یہ ہے عمران علی نے ریپ کے بعد دس بچیاں قتل کر دیں لیکن سسٹم کو پتہ تک نہ چلا۔

ریاست ملزم تک پہنچنے کے لیے آئی ایس آئی، ایم آئی اور آرمی چیف سے مدد لینے پر مجبور ہو گئی مگر مجرم کی نشاندہی آخر میں زینب کے ماموں اور اسپیشل برانچ کے ایک سب انسپکٹر نے کی، یہ ہے ہمارا سسٹم۔ میری حکومت سے درخواست ہے آپ عمران علی کی سرعام پھانسی پر توانائی ضایع کرنے کے بجائے وہ سسٹم بنائیں جس کے ذریعے زینب جیسی بچیاں درندوں سے محفوظ ہو جائیں۔

دنیا کی ماڈرن پولیسنگ چار ستونوں پر کھڑی ہے، فرانزک، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اسپیشلائزیشن اور سزا اور جزا کا قطعی نظام، فرانزک میں تین چیزیں آتی ہیں، فنگر پرنٹس، ڈی این اے اور بیلسٹک فنگر پرنٹس، ہمارے نادرا کے پاس ہر بالغ شخص کے فنگر پرنٹس موجود ہیں لیکن تھانوں میں فنگر پرنٹ میچنگ سسٹم نہیں، ملک کے ہر تھانے میں یہ سسٹم ہونا چاہیے، پولیس مشکوک لوگوں کے فنگر پرنٹس لے، میچ کرے اور کارروائی شروع کر دے۔

ہر شہر میں فیس میچنگ سسٹم بھی ہونا چاہیے، یہ سسٹم اگر قصور میں ہوتا تو پولیس سی سی ٹی وی فوٹیج کو سسٹم میں ڈالتی اور سسٹم عمران علی کو ٹریس کر لیتا یوں یہ پہلے دن ہی گرفتار ہو جاتا، یہ حقیقت ہے پنجاب ملک کا پہلا صوبہ ہے جس نے جدید ترین ڈی این اے لیب بنائی، باقی صوبوں کو یہ بھی توفیق نہیں ہوئی، مردان کی بچی اسماء کا ڈی این اے سیمپل بھی لاہور گیا، عمران خان کے پورے انقلابی صوبے میں ڈی این اے لیب نہیں لیکن یہ بھی سچ ہے پنجاب میں ملزموں اور مجرموں کا ڈی این اے ڈیٹا موجود نہیں۔

پنجاب حکومت کو چاہیے یہ حوالات اور جیلوں میں بند تمام مجرموں اور تھانوں میں زیر تفتیش تمام ملزموں کے ڈی این اے سیمپل جمع کر لیا کرے، ڈاکٹر عمر سیف چیئرمین نادرہ بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں،یہ جب کامیاب ہو جائیں تو یہ ڈی این اے کوبھی شناختی کارڈ کا حصہ بنا دیں، یہ کام سردست وزیر داخلہ احسن اقبال بھی کر سکتے ہیں، یہ حکم کریں اور ڈی این اے شناختی کارڈ کا حصہ بن جائے گا یوں دس سال بعد پولیسنگ بھی آسان ہو جائے گی اور عدالتیں بھی ناقابل تردید ثبوتوں کی وجہ سے جلد انصاف دینے لگیں گی۔ امریکا میں جب بھی کوئی شخص ہتھیار خریدتا ہے تو اسلحہ ڈیلر ہتھیار حوالے کرنے سے قبل دکان کے اندر دو فائر کرتا ہے۔

گولی کے "فنگر پرنٹس" لیتا ہے اور یہ فنگر پرنٹس گاہک کے باہر نکلنے سے پہلے سسٹم پر چڑھا دیتا ہے، یہ ہتھیاراس کے بعد پورے امریکا میں جب اور جہاں استعمال ہوتا ہے پولیس چند لمحوں میں ملزم تک پہنچ جاتی ہے، یہ عمل "بیلسٹک فنگر پرنٹ" کہلاتا ہے، وزیراعلیٰ گوگل پر ساری تفصیل کا مطالعہ کر سکتے ہیں، یہ صوبے میں بیلسٹک فنگر پرنٹس کا سسٹم بھی نافذ کر دیں، پولیس پورے صوبے میں قتل سے لے کر ہوائی فائرنگ تک ملزموں کو چند گھنٹوں میں گرفتار کرلیا کرے گی۔

ہم اب آئی ٹی کی طرف آتے ہیں، جدید دنیا سی سی ٹی وی کیمروں، مجرموں کے ڈیٹا، موبائل فون اور سوشل میڈیا مانیٹرنگ سے جرائم کنٹرول کر رہی ہے، میں دو سال قبل آسٹریلیا گیا، امیگریشن آفیسر نے کاؤنٹر پر پاس ورڈز کے بغیر میرے تمام ای میل باکس، فیس بک اور ویب سائیٹس بھی کھول لیں اور چند منٹوں میں ان کا تجزیہ بھی کر لیا، ہم یہ کیوں نہیں کر سکتے؟

ہم مشکوک شخص کا نام سسٹم میں ڈالیں اور اس کے تمام سوشل میڈیا پیجز کھول لیں، ہم چند لمحوں میں اس کی پوری شخصیت کا تجزیہ کر لیں گے، وہ وقت چلا گیا جب کہا جاتا تھا آپ مجھے کسی شخص کے دوستوں سے ملا دیں میں آپ کو بتا دوں گا اس شخص کا کردار کیسا ہے؟ ہم اب ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں آپ کسی شخص کے سوشل میڈیا پیج دیکھ لیں، آپ یہ دیکھ لیں وہ روزانہ کون کون سی ویب سائیٹس کھولتا ہے یا وہ کون کون سا مواد شیئر کرتا ہے تو آپ چند منٹوں میں اس کی شخصیت میں جھانک سکتے ہیں۔

ریاست کے پاس ہر شہری کی اس گہرائی تک پہنچنے کے ٹولز ہونے چاہئیں، آپ اسی طرح موبائل فونز پر نظر رکھیں، فون کی لوکیشنز سب کچھ بتا دیتی ہیں، کالز کا ڈیٹا کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور آپ اسی طرح پورے ملک یا پورے صوبے کو کیمروں کے ساتھ لنک کردیں، آپ تمام میونسپل کمیٹیوں کی کمیٹی بنا کر سال میں پورے صوبے میں کیمرے لگا سکتے ہیں،آپ ڈرونز کے ذریعے بھی پورے شہر کی فوٹیج اکٹھی کر سکتے ہیں، آپ گوگل میپ کے ذریعے پورے شہر کا ڈیٹا حاصل کر سکتے ہیں، آپ اگر گوگل سے چار جنوری کا قصور کا ڈیٹا لے لیتے تو آپ کو پتہ چل جاتا عمران علی زینب کو کہاں لے گیا تھا اور ملزم کس جگہ سے اپنے گھر واپس آیا تھا۔

آپ کو آرمی چیف کا شکریہ ادا نہ کرنا پڑتا، یورپ اور امریکا کے پولیس ڈیپارٹمنٹ تیسری دنیا کے پولیس افسروں کو سافٹ ویئرز کی فری ٹریننگ دیتے ہیں، چیف منسٹر کو چاہیے یہ ہر ضلع کے دو دو افسروں کو ٹریننگ کے لیے باہر بھجوائیں اور یہ افسر واپس آ کر اپنے کولیگز کو ٹریننگ دیں، پنجاب پولیس آئی ٹی میں بھی جدید دنیا میں داخل ہو جائے گی۔

اسپیشلائزیشن جدید پولیسنگ کا تیسرا جزو ہے، آج اسپیشلائزیشن کا دور ہے، پنجاب حکومت قتل، چوری، ڈکیتی، اسٹریٹ کرائمز، اغواء برائے تاوان، گاڑی چوری اور ریپ کی تفتیش کے لیے پولیس کے اسپیشل یونٹ بنادے، یہ یونٹ لاہور میں قائم ہوں، یہ اپنا ڈیٹا بھی جنریٹ کریں،یہ ٹریننگ بھی لیں اور صوبے میں جہاں ضرورت پڑے یہ یونٹ وہاں جا کر کام شروع کر دیں، پولیس کا کام آسان ہو جائے گا، ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا پولیس کی اصل ذمے داری کیا ہے؟

پوری دنیا میں پولیس کا کام لاء اینڈ آرڈر ہوتا ہے مگر ہم ستر برسوں سے اس سے سیکیورٹی کا کام لے رہے ہیں چنانچہ ہماری پولیس نکمی ہو چکی ہے، وزیراعلیٰ پولیس کے سیکیورٹی کے استعمال پر پابندی لگا دیں، پولیس کسی جگہ ہجوم کو روکنے یا جلسے کامیاب اور ناکام کرانے میں استعمال نہ ہو، آپ نئی کراؤڈ فورس بنائیں یا پھر آپ احتجاج سے نمٹنے کا کام مستقلاً رینجرز اور فوج کے حوالے کر دیں، پولیس صرف اور صرف تھانوں میں رہے، رائفل اٹھا کر بندے مارنا اس کا کام نہیں ہونا چاہیے، پولیس کا کوئی جوان گولی چلاتا نظر نہیں آنا چاہیے اور جدید پولیسنگ کا آخری حصہ جزا اور سزا ہے۔

مجرم کو اگر یہ معلوم ہو میں کوئی بھی ہوں اور میں کہیں بھی ہوں میں جرم کے بعد بچ نہیں سکوں گا تو یہ جرم سے پہلے دس بار سوچے گا، عمران علی نے دس بچیوں کو ریپ کے بعد قتل کیوں کیا؟ کیونکہ یہ سمجھتا تھا میں سو وارداتوں کے بعد بھی بچ جاؤں گا، ریاست اگر پہلی بچی کے قتل پر زینب جتنی ایکٹو ہو جاتی تو ملزم کبھی دوسری بچی تک نہ پہنچ پاتا، ہماری تفتیش اور انصاف کے سسٹم میں ہزاروں نقائص ہیں، مجرم ہمیشہ ان نقائص کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

عمران علی بھی شروع میں بچ نکلا تھا، یہ ڈی این اے ٹیسٹ سے بھی بچ گیا تھا، یہ صرف جیکٹ اور شیو کرانے کی وجہ سے پکڑا گیا، اس کا کیس اگر اب بھی عام عدالت میں شفٹ ہوجاتا ہے یا حکومت بدل جاتی ہے تو یہ بری ہو جائے گا، ہمارے سسٹم کے یہ نقائص مجرموں کو شہہ دیتے ہیں، ہمیں یہ تاثر بھی بدلنا ہوگا، ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا مجرم اگر جرم کے بعد مریخ پر بھی چلا جائے تو ریاست اسے وہاں سے بھی گرفتار کرے گی، آپ یقین کیجیے ملک میں جرائم کم ہو جائیں گے۔

میں وزیراعلیٰ پنجاب کا فین ہوں، اچھا ہو یا برا یہ کچھ نہ کچھ کر تو رہے ہیں، یہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے، باقی تینوں صوبوں میں تو یہ بھی نہیں ہورہا لیکن میں مزید کا متمنی ہوں، شہباز شریف اپنی توانائیاں سرعام پھانسی کے بجائے سسٹم پرصرف کریں، یہ وہ کام کریں جو ملک میں جرائم کے خلاف بند باندھ سکتے ہیں،میں سمجھتا ہوں ہم نے اگر یہ اقدامات نہ کیے تو ہم خواہ عمران علی جیسے ہزاروں درندوں کو سرعام پھانسی لگا لیں ملک میںزینب جیسی بچیاں محفوظ نہیں ہوں گی،والدین کوڑے کے ڈھیروں سے لاشیں اٹھاتے رہیں گے اور شائننگ اسٹارز تالیاں بجاتے اور قہقہے لگاتے رہیں گے۔

جاوید چوہدری

جاوید چودھری پاکستان کے مایہ ناز اور معروف کالم نگار ہیں۔ ان کے کالم اپنی جدت اور معلوماتی ہونے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ وہ نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہیں۔ جاوید چودھری "زیرو پوائنٹ" کے نام سے کالم لکھتے ہیں اور ٹی وی پروگرام ”کل تک“ کے میزبان بھی ہیں۔ جاوید چوہدری روزنامہ جنگ کے کالم نگار تھے لیکن آج کل وہ روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز ٹیلیویژن سے وابستہ ہیں۔