1. ہوم
  2. کالمز
  3. راؤ کامران علی
  4. گوگی بٹ اور ٹیپو ٹرکاں والا

گوگی بٹ اور ٹیپو ٹرکاں والا

سال 2001 کی بات ہے۔ میں نے ایم بی بی ایس مکمل کیا اور میو اسپتال میں ہاؤس جاب شروع کی۔ میری جاب ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں تھی اور ڈیوٹی عموماً ایمرجنسی میں ہوتی۔ رات کو اسپتال، دن میں پڑھائی، یہی معمول تھا۔ انہی دنوں ایک رات میری ملاقات پہلی بار گوگی بٹ سے ہوئی۔ وہ میڈیکو لیگل ڈیپارٹمنٹ میں آیا ہوا تھا، کسی کیس میں اپنی مرضی کی ایم ایل سی رپورٹ بنوانے کے لیے۔ اس کے ساتھ چار پانچ لمبے تڑنگے گن مین تھے، سب کے چہروں پر رعب اور بدن پر غنڈہ گردی کی چھاپ۔

گوگی بٹ میڈیکل آفیسر سے ایسے بات کر رہا تھا جیسے کوئی بادشاہ اپنے مصاحب سے بات کرے۔ سامنے والا ڈاکٹر بار بار "بٹ صاحب، بٹ صاحب" کرتا ہوا اس کے سامنے دو زانو بیٹھا تھا۔ یاد رہے، یہ وہ زمانہ تھا جب پورے گوالمنڈی میں چرچا تھا کہ مشرف لاہور آتا ہے تو گوگی بٹ کے گھر ٹھہرتا ہے اور دونوں اکٹھے "بسنت" مناتے ہیں۔

ریڈیالوجی میں ہاؤس جاب کے ساتھ ساتھ میں یو ایس ایم ایل ای کی تیاری بھی کر رہا تھا، مگر میری ہاؤس جاب پیڈ نہیں تھی، تو خرچہ چلانے کے لیے میں نے پارٹ ٹائم رنگ محل میں ایک ڈسپنسری سنبھال لی۔ پھر ایک دن مجھے صداقت کلینک سے پیشکش ملی، یہ نشے کے مریضوں کا مشہور مرکز تھا، شاد باغ میں۔ تنخواہ ٹھیک تھی، کھانا بھی مفت، اس لیے لگا کہ پڑھائی کے ساتھ یہ کام بہترین رہے گا۔ شاد باغ، مصری شاہ اور سرکلر روڈ، یہ وہ علاقے تھے جہاں اس وقت ٹیپو ٹرکاں والے کا راج تھا۔ اس کے کئی آدمی نشے کے علاج کے لیے آتے۔ ان کی گفتگو سے احساس ہوتا کہ شہر کے اندر ایک اور شہر ہے، جہاں قانون سے زیادہ اثر اور بندوق چلتی ہے۔

خیر 2003 تک یو ایس ایم ایل ای ہوگیا۔ میں اپنے سرٹیفیکیٹس اکٹھے کر رہا تھا تاکہ امریکہ جا سکوں۔ اسکے لئے ایک دن جب میو اسپتال گیا تو دیکھا، اسپتال کے اندر کلاشنکوفیں لیے لوگ گھوم رہے تھے۔ ان سب کا سردار ایک لمبا چوڑا پہلوان نما شخص تھا، سر گنجا اور چہرہ بہت بڑا جیسے آنگلو بانگلو، نظریں وحشی۔ بعد میں پتا چلا کہ ٹیپو ٹرکاں والے پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے، کئی لوگ مارے گئے ہیں، مگر وہ سخت جان نکلا اور بچ گیا اور یہ اسکی سیکیورٹی تھی۔

میں نے جا کر ٹیپو کو آئی سی یو میں دیکھا۔ اس کے جسم میں سات آٹھ گولیاں لگی تھیں مگر وہ زندہ تھا۔ اسپتال کے باہر اس کے گن مین گالیاں دے رہے تھے، قسمیں کھا رہے تھے کہ گوگی بٹ اور طیفی بٹ کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس لمحے اسپتال کسی جنگ کے میدان جیسا لگ رہا تھا، جہاں سفید کوٹ، خون اور بندوق سب ایک ساتھ تھے۔

پھر وقت گزرتا گیا۔ میں امریکہ چلا آیا، مگر لاہور کی خبریں آتی رہیں۔ صداقت کلینک میں کام کرنے والے دوستوں نے بتایا کہ 2010 میں ٹیپو ٹرکاں والا مارا گیا، تو لگا شاید اب یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔

میرا ان لوگوں سے کوئی ذاتی تعلق نہیں تھا۔ مگر چونکہ انکے علاقوں میں کام کیا، ان کے بندوں سے واسطہ پڑتا رہا۔ سچ یہ ہے کہ آج دونوں گروہ، گوگی بٹ اور ٹیپو ٹرکاں والے، خود کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم کہتے ہیں، مگر دونوں ہی ظالم تھے۔ یہ غریب نواز کہلاتے تھے، یہ بھی ہر بدمعاش کا رابن ہڈ ڈھکوسلہ ہوتا ہے، بھئی تم ہو کون غریب کی دادرسی کرنے والے جب کہ پولیس ہے عدالت ہے، یہ لوگ ویسے بھی غریب سے اچھے رہتے کیونکہ اس کے پاس لٹوانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ ورنہ تو آپ ان کے علاقوں میں پلاٹ نہیں لے سکتے تھے۔ بھتہ دئیے بغیر کاروبار نہیں کرسکتے تھے۔ یہ دونوں بد ذات گروپ پراپرٹی کے لئے کسی کا بھی جوان بیٹا مار دیتے اور مخالف بچی کچھی اولاد بچانے کے لئے کیس نہ کرتا۔ اپنے پلازے اور فیکٹری سے دستبردار ہوجاتا۔ اس کالم کا لبِ لباب ہی یہ ہے کہ ایسی فلمیں باتیں بنانا بند کردیں، غنڈہ اور بدمعاش محض ایک مجرم ہوتا ہے۔ غریب پرور وہ ہوتے ہیں جو اپنی کمائی سے یا محنت سے غریبوں کا بھلا کرتے ہیں۔

اُس وقت پولیس بھی انہی کے اشاروں پر چلتی تھی۔ اندرون لاہور، گوالمنڈی اور شاہی مسجد کے تھانے ایک ایک کروڑ کے پچیس سال پہلے بکتے تھے اور ان کرپٹ افسران کا گڑھ بن چکے تھے۔ وہی زمانہ تھا جب انسپیکٹر عابد باکسر اور انسپکٹر نوید سعید جیسے کرپٹ افسر اس نظام کا حصہ بنے۔ آج کل سوشل میڈیا اور ٹک ٹاک کی وجہ سے پولیس پر کچھ دباؤ آیا ہے، لوگ ویڈیوز بنا کر ہر ظلم کو دکھا دیتے ہیں، مگر اُس وقت بدمعاشی ہی قانون تھی۔

گوگی بٹ کا نمبر لگ چکا ہے گو کہ وہ منتیں کررہا ہے کہ وہ جرائم چھوڑ چکا ہے لیکن مقتدر طاقتیں اسکا فیصلہ کرچکی ہیں۔ اسے لمبا عرصہ جیل میں ڈالنے کی آپشن ریجیکٹ کی جاچکی ہے کیونکہ ایسے لوگ جیل سے ریکٹ چلا لیتے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ لاہور کی اس طویل خون آشام کہانی کا اب اختتام قریب ہے۔

شاید یہ اصلی ہیپی اینڈنگ ہو!