1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. اچھی ٹیم مثبت نتائج کی ضامن

اچھی ٹیم مثبت نتائج کی ضامن

ہماری اردو سے محبت تقاضہ کرتی ہے کہ ہر ممکن کوشش کی جائے کہ لفظوں کو اردو میں ہی لکھیں، چاہے انہیں تلاش کرنے کیلئے انگریزی کا ہی سہارا کیوں نا لینا پڑے۔ ٹیم کو اردو میں گروہ کہتے ہیں گوکہ عنوان میں صرف گروہ بھی لکھا جاسکتا تھا لیکن عام فہم میں گروہ سے مراد مجمع کیلئے جاتے ہیں اضافی خصوصیت یہ کہ کسی منفی سرگرمی میں ملوث ہونے کا بھی اندیشہ رہتا ہے، غرض یہ کہ لفظ ٹیم استعمال کرنے سے یہ فائدہ ہے کہ عمومی طور سمجھا جاتا ہے اور یہ بھی سمجھ آجاتا ہے کہ مخصوص کام کیلئے مخصوص صلاحیتوں سے آراستہ افراد کا ایک جگہ جمع ہونا ٹیم کہلاتا ہے۔ ٹیم کسی کھیل کیلئے تیار کی گئی ہو، یا پھر میڈیا سے متعلق کسی فلم ڈرامہ یا پھر معلوماتی پروگرام یا پھر کسی جنگی مقاصد کیلئے یا پھر کسی بھی خاص مقصد کیلئے اسکی کارگردگی سے اسکی صلاحیتوں کا پتہ چل جاتا ہے۔ کسی زمانے میں لوگ صرف یہ جانتے تھے کہ پاکستان جیت گیا اور حنیف محمد نے یہ کارنامہ سرانجام دیا، حسن سردار کی وجہ سے ٹیم جیت گئی، (عسکری مقاصد کیلئے مخصوص نام لکھنا ممکن نہیں) وغیرہ وغیرہ۔ میڈیا کی جدت نے رازوں سے پردے اٹھانا شروع کیئے تو معلوم ہوتے ہوتے یہ پتہ چل گیا کہ پیش کار اور اداکار یا کھلاڑی ہی سب کچھ نہیں ہوتے بلکہ اصلی کارنامہ تو کوچ، ہدایت کار انکے پیچھے مصنف اور تشکیل دینے والے لوگ نبہاتے ہیں۔ جن تک عام لوگوں کو رسائی تو دور کی بات تھی شناسائی کوئی نہیں تھی۔ دوسری طرف اس بات کو بھی خاطر میں رکھا جائے کہ ایسا بھی دیکھاگیا ہے کہ بہترین ٹیم اپنے بہترین ہونے کا عملی ثبوت دینے سے قاصر رہتی ہے۔ نا چاہتے ہوئے بھی لکھ رہا ہوں کہ 2019 کے کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں بھارت کی ٹیم سے بہترین اور تقریباً ناقابل تسخیر سمجھی جا رہی تھی لیکن وہ فائنل مقابلے تک رسائی نہیں بناسکی اور نیوزی لینڈ سے سیمی فائنل میں ہار گئی۔ ٹیم نوجوان ہوگی تو مقابلے کیلئے بھرپور طاقت سے لبریز ہوگی اور مخالف کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا اب اس ٹیم کیساتھ کچھ تجربہ کار کھلاڑی بھی شامل کئے جائیں تو طاقت اور تجربے کابہترین امتزاج بن جائے گا۔

سیاسی میدان میں آجاتے ہیں یہاں سیاسی جماعتیں بھی ٹیموں (گروہ) کی طرح ہوتی ہیں، ان کا مقابلہ ہر پانچ سال بعد بلکل کھیلوں کے عالمی مقابلوں کی طرح انتخابات کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ جماعتیں انتخابات کیلئے اپنے اپنے کھلاڑی تیار کرتی ہیں یا پھر کسی دوسرے راستے سے ایوانوں تک پہنچادیتی ہیں۔ ہر ٹیم (گروہ) کا بنیادی منشور و مقصد جیت کیلئے میدان میں اترنے سے رہنے تک ہوتا ہے۔ جماعت کا چیرمین یا صدر کپتان کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بھی ایک فطری عمل ہے کہ نئی ٹیم پرآسانی سے بھروسہ نہیں کیاجاتا۔

ایک طرف تو عالمی سیاست سے تین اہم خبریں گرم ہیں پہلی یہ کہ فن لینڈ نے دنیا کی کم عمرترین خاتون محترمہ سننا مرین کو اپنا وزیر اعظم منتخب کر لیا ہے انکی عمر43 سال ہے اور انہیں ملک کے اہم ترین عہدے تک پہنچنے کیلئے زیادہ طویل سفر نہیں کرنا پڑا منسلک اہم بات یہ ہے کہ انکی کابینہ مکمل طور پر خواتین پر مشتمل ہوگی، ایوان کی کل 200 نشستوں پر 39 خواتین انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے پہنچی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ برطانیہ کی تذبذب کی شکار لیبر پارٹی کو انتخابات میں شکست سے دوچار ہونا پڑا جس کی اہم ترین وجہ بریگزٹ ہے اوراب وہ موقع آگیا ہے جس کا برطانوی عوام گزشتہ سالوں سے انتظار کر رہے تھے اور یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ بورس جانسن برطانیہ کو یورپی یونین سے باہر لے آئیں کیونکہ کنزرویٹوز کا یہی منشور انہیں اقتدار تک لے آیا ہے۔ برطانیہ کے اس عمل سے دنیا کی بدلتی ہوئی سوچ کا تعین کیا جاسکتا ہے کہ اب دنیا کے ممالک اپنی اپنی سرحدوں تک سوچ کو محدود کرنا چاہ رہے ہیں۔ تیسری اور آخری اہم ترین بات امریکہ کہ صدر کا مواخذہ ہے جوکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار پر کوئی خاص اثر انداز ہوتا دیکھائی نہیں دے رہا۔ مذکورہ بالا تینوں صورتحال میں ٹیم (گروہ) اور کپتان کی کارگردی و حکمت عملی واضح دیکھائی دے رہی ہے۔ سب کہ سب جارحانہ انداز میں کھیلتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ کیونکہ اپنی حکمت عملیوں پر بدلتی ہوئی صورتحال کیمطابق ردوبدل نہیں کی جارہی یا پھر صورتحال کو اسکی اہلیت پر نہیں جانچا جا رہا، جس کی وجہ سے مسلسل مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

پاکستان کی صورتحال سے شائد ہی دنیا کا کوئی ملک آگاہ نا ہو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک پاکستان کی روزمرہ کی خبریں ضرور رکھتے ہونگے بہت ممکن ہے کہ خاص افراد پاکستان کی صورتحال پر نظر رکھنے کیلئے متعین کر رکھے ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے بائیس سال جدوجہد کی پھر کہیں جاکہ وہ اپنی بات عوام کو سمجھا سکے جس کے بدلے میں انہیں اقتدار تک رسائی مہیہ کی گئی۔ جیسا کہ جماعت کہ نام سے ہی منشور اخذ کیا جاسکتا ہے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ پاکستان ہمیشہ سے کسی بھی قسم کے چیک اور بیلنس (روک تھام یا قدغنی توازن اقتدار)سے ماورا رہا آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ جس کی لاٹھی اسکی بھینس کی طرح چلایا جاتا رہا، جانے والاکچھ بھی چھوڑ کے نہیں گیا اور آنے والے نے آتے ہی کچھ نا چھوڑ کے جانے دینے پر کام شروع کردیا اور اسی طرح سے چلتا رہا یہاں تک کہ ملک کو چلانے کیلئے قرضے لینے شروع کئے گئے افسوس کہ ان قرضوں سے بھی اپنے گھر وں کو سجایا گیا۔ اہل اقتدار یہ بھول گئے تھے کہ انکے گھر بھی اسی ملک میں ہیں اور انکا اقتدار اور بذات خود تاقیامت تک نہیں رہنے والے لیکن پھر بھی ان سے جو بدعنوانی ممکن ہوسکی وہ کرتے ہی چلے گئے۔ انہیں اس بات کامکمل یقین رہا کہ یہ قانون سے بالا تر ہیں اور کوئی انہیں نا تو روک سکتا ہے اور نا ہی کوئی پکڑنے کی جرات کرسکتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی کائناتی سچ ہے کہ اللہ رب العزت نے ہر فرعون کیلئے موسی کو پیدا فرمایا ہے جو اسکے کئے کہ آگے حق اور سچ کا علم بلند کرتا ہے اوراس بات کی دلیل بنتا ہے کہ بیشک حق ہی رہنے کیلئے ہے۔

پاکستان آج کل ایک ایسی ٹیم (گروہ) کہ پاس ہے جس کا کپتان نا صرف جیتنے کا شوقین ہے بلکہ جیت کو یقینی بنانے کے فن سے بھی ہم آہنگ ہے، گوکہ کپتان نے جو ٹیم چن رکھی ہے ان میں سے بہت کم ہی ایسے کھلاڑی ہیں جن کا سیاست کا کوئی خاص تجربہ ہے لیکن وہ سچے اور پکے پاکستانی ہیں اور پاکستان کی قدر و منزلت و اہمیت سے خوب واقف ہیں اور وہ اپنے کپتان کی بصارت (مقاصد) کو خوب سمجھتے ہیں۔ جبکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو سیاست کے کھیل کے ماہر کھلاڑی ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ماضی میں ان حکومتوں میں بھی ذمہ داریاں نبھائی ہیں کہ جو ملک کو لوٹنے میں ہر اول دستے کی طرح تھیں، لیکن انہیں اپنی خطاءوں کا اپنی بدعمالیوں کا اعتراف ہوا جس کے ازالے کیلئے انہوں نے بطور کھلاڑی کپتان کا ساتھ دینے کی ٹھان لی اور اپنے اپنے محاظ پر ڈٹ گئے ہیں۔

گوکہ ٹیم اپنی خلوص نیت سے کام کرتی دیکھائی دے رہی ہے ہر کھلاڑی اپنی اپنی جگہ پر چوکنا ہے اور صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن کہیں کوئی ایسی گڑبڑ ہو رہی ہے جو کپتان کی نظروں میں نہیں آرہی جس کی وجہ سے میدان میں کچھ نفسا نفسی سے محسوس کی جارہی ہے، جسکے لئے کپتان کو سب سے پہلے اپنی آستینں جھاڑنی پڑینگی اور پھر بہت دھیان سے پرکھنا ہوگا کہ کہاں اور کون سا کھلاڑی کمزور پڑ رہا ہے یا کوئی کھلاڑی بدعنوانی کا مرتکب تو نہیں ہورہا۔ قوم کی اکثریت اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستان ابھی بحالی کے کمرے میں ہے جہاں جراحی (سرجری) کے بعد مریض کو رکھا جاتا ہے۔ اس بات کی بھی یاد دہانی بہت ضروری ہے کہ آپ اور آپکی ٹیم کا بنیادی منشور انصاف کی بلاتفریق فراہمی ہے جس پر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ دنیا کہ دیگر ممالک اپنی اپنی سرحدی حدوں تک محدود ہونے کی حکمت عملی مرتب کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ کپتان کی مستقل جدوجہد بغیر ٹیم (گروہ) کی مدد و معاونت کے طے شدہ مقاصد کے حصول سے قاصر رہ جاتی ہے۔ ہم آپ کی منتخب کردہ ٹیم کے ہر کھلاڑی کو سپراسٹار دیکھنے کے منتظر ہیں لیکن اسکے لئے ضروری ہے کہ کپتان بار بار انہیں انکی اہمیت کا پتہ دیتا رہے۔ اللہ حامی و ناصر ہو۔