1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. لوگ خوابیدہ ہی سہی ہم نے صدا دینی ہے!

لوگ خوابیدہ ہی سہی ہم نے صدا دینی ہے!

ایک طرف تو دنیا کے بدلاؤ کا ڈھنڈورا دونوں ہاتھوں سے نہیں بلکہ اربو ں کھربوں ہاتھوں سے پیٹا جا رہا ہے اور یہ بات باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، کہ دنیا میں کسی بھی قسم کی شدت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لوگ بلاتفریق ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہتے ہیں، کسی قسم کی کوئی مذہبی منافرت نہیں ہے، کہیں رنگ و نسل کا مسلہ نہیں ہے۔ دنیا کا یہ تیزی سے بدلتا ہوا رنگ ، دنیا میں صرف سماجی ابلاغ پر دکھائی دیتا ہے یہاں تک کہ بڑی بڑی نظریاتی جنگیں بھی سماجی ابلاغ پر لڑی جارہی ہیں ۔

کم از کم اس ذرائع معلومات و مواصلات سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ آج دنیا میں کہیں بھی کچھ غیر معمولی ہوتا ہے تو لمحہ بھر میں بغیر توقف، دنیا کے کونے کونے میں من و عن پہنچ جاتا ہے۔ تقریباً دودہائیوں سے اسلام اور اسکے ماننے والے مسلمانوں پر شدت پسند ہونے کا خودساختہ الزام لگایا جاتا رہا ہے، گوکہ اس سے اسلام کو مزید تقویت ملی ہے اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں نے اسلام کا بغور جائزہ لیا ہے اور لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بے بنیاد قرار دیا ہے۔

اس عمل سے ایک طرف تو بین المذاہب ہم آہنگی کوکسی حد تک فروغ ملا تو دوسری طرف وہ لوگ یا انکا مذہب بے نقاب ہوگیا، جو حقیقی معنوں میں شدت پسندی کا برملا اظہار کرتے عملی طور پر دکھائی دے رہے ہیں ۔ افغانستان کے بدترین موجودہ داخلی حالات کا ذمہ دار بھی یہی جھوٹا نظریہ رہا ہے کہ اسلام کی شدت پسندی افغانستان کی پسماندگی کی ذمہ دار ہے۔ دنیا نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ آج سچائی کس طرح سے چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ دنیا کی بد امنی اور اور بدترین بدنظمی کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟

افسوس اس امر کا ہے کہ حق بات کہنے کی جراتِ گفتار ناپید ہوچکی ہے اور مفاد پرستی کا دور دورہ ہے، انفرادیت سے شروع ہونے والی یہ مفاد پرستی اجتماعی سطح پر بھی واضح ہونا شروع ہوچکی ہے۔ کشمیر کے مسلئے کو لے لیجیئے، روزانہ کی بنیاد پر ایسی ایسی خبریں منظرِ عام پر آتی ہیں جنہیں دیکھ کر روح تک کانپ جاتی ہے لیکن نرم گرم بستروں کی آسائش بہت جلد ہی کانپتی روح کو سنبھال لیتی ہے۔ اس سے ملتی جلتی صورتحال فلسطین کی بھی ہے وہا ں کی صورتحال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، لیکن کیا کوئی عملی قد م اٹھانے کی جرات کرنے کیلئے تیا رہے؟ نہیں وہ نہتے لڑ رہے ہیں ۔

ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں پامال ہورہی ہیں لیکن ہم حسب ِ معمول سماجی ابلاغ پر سینہ کوبی بھی کر رہے ہیں اور سامنے والوں کو برا بھلا بھی کہہ رہے ہیں ۔ سن 8102 میں فلسطین میں رزان النجار نامی نرس کے فراءض انجام دینے والی لڑکی کو شہید کیا گیا، جسے سماجی ابلاغ پر بھرپور پذیرائی ملی اور خوب اسرائیلی فوجیوں کو لعن طعن کیا گیالیکن اسکا کوئی قاتل ناتو نامزد ہوا اور نہیں کسی کو کوئی سزا ملی اور سب سے بڑھ کر ناہی اسکے لواحقین کو کوئی تسلی دی گئی، اسطرح سے رزان النجار امت کی شہادت، امت کی بیداری میں ایک حقیر کنکر سا ارتعاش پیدا کرکے تاریخ میں کسی روشن ستارے کی طرح پیوست ہوگئی۔

جہاندیدہ کہلائے جانے والے لوگوں نے رزان کی موت پر کسی محمد ابن ِ قاسم کی آمد کی امیدوں کے چراغ بھی جلائے لیکن افسوس، ہاتھوں میں پکڑے ہوئے آسیب سے باہر نکلنا محال ہوگیا، ہوچکا ہے۔ کشمیر میں بھارتی درندگی روز بروز مستحکم ہوتی چلی جارہی ہے، جسکی سب سے بڑی مثال تقریباً دوسال قبل پورے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا کر ظلم اور بربریت کے پہاڑ، نسل کشی کی صورت میں توڑے جا رہے ہیں جسکا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ یقینا ََبھارتی حکمت عملی اور منصوبہ سازوں نے اس کرفیو کی صورت میں ایک جال پھینکا کہ دیکھا جائے کہ دنیا کا اس پر کیا رد ِ عمل آتا ہے یا پاکستان کس طرح سے مزاحمت کرتا ہے؟

تقریباً ایسا کچھ نہیں ہوا جس کی شائد بھارتی منصوبہ سازوں نے توقع کی ہوگی، سوائے اسکے کے ابلاغ کے تمام ذرائع اس بات پر توجہ دلانے کیلئے استعمال کئے گئے، دفتر خارجہ کی ذمہ داریوں میں بتدریج اضافہ ہوا اور ہر ممکن کوشش کی گئی کے دنیا اس مسلئے کے حل کیلئے بھارت پر ممکنہ دباءو ڈالے جوکہ نہیں ہوسکا، پاکستان کی خارجہ پالیسی کو فائدہ پہنچا اور پاکستان اپنا موقف دنیا جہان کے ایوانوں میں پہنچانے میں کامیاب ہوگیا۔ ساتھ ہی وزیر اعظم نے اقوام ِمتحدہ میں دھواں دار تقریر سے بھی پاکستان کے موقف کو بھرپور جلا ملی اور کسی حدتک پاکستان کا مضبوط پیغام دنیا کی سماعتوں نے سن لیا۔

اب جب بھارتی منصوبہ ساز اپنی حکمت ِ عملی میں کامیاب ہوگئے، تو انہوں نے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو کسی نا کسی طرح سے یہ باور کرانا شروع کردیا کہ ہندوستان میں صرف ہندو رہے سکتے ہیں ۔ یہاں بھی سماجی ابلاغ اپنا کردار نبھاتا دکھائی دیتا ہے اور پل پل ہونے والے جبر سے دنیا کو آگاہ کرتا رہتا ہے لیکن دنیا اپنی بے حسی کی بے بسی کے ہاتھوں مجبور ہے۔ جیسا کہ لفظ ہندو، توا بارہا سرکاری سطح پراس لفظ کا بھرپور استعمال کیا جاتا رہا ہے کی جڑیں بہت مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ جو لوگ وقت و حالات کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں، جو لوگ زمانے کی انداز بدلنے کی بات کرتے ہیں، کیا وہ بھارت کا عمومی رویہ نہیں دیکھ رہے؟

گزشتہ دنوں بھارت کے شہر کرناٹکا میں اپنی نوعیت کا اہم ترین واقع رونما ہوا، جب ہندو انتہاپسندوں کے ایک جتھے نے حجاب پہنے ہوئے مسکان نامی ایک لڑکی کے سامنے جے شری رام کے نعرے لگانے شروع کردئیے اور بری طرح ہراساں کرنے کی کوشش اس وقت قطعی دم توڑ گئی، اس عملی صنف آہن نے اس کھوکھلے جھتے کے سامنے باقاعدہ کھڑے ہوکر نعرہ تکبیر اللہ اکبر تواتر سے بلند آواز میں بلند کیا اور اپنے عمل پر ڈٹی رہی۔ یہ سماجی ابلاغ کا دورہے یہاں سارے کام ہاتھوں میں پکڑے تکنیکی آلات پر کئے جارہے ہیں، لیکن اس دخترِ اسلام کی اللہ اکبر کی گونج نے اسلام کے نام لیوا چھپن 56ملکوں کے سربراہان کے ایوانوں میں ضرور ارتعاش پیدا کردیا ہوگا۔

ایک طرف تومسکان نے بہادری کی ایک اعلیٰ ترین مثال قائم کردی ہے اور بھارتی نظام پر اور عالمِ اسلام کو جھنجھوڑنے کی عملی کوشش کی ہے۔ منظر ِعام پر آنے والی ویڈیو دیکھ کر یقین ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح سے اس بہادر لڑکی کو برجستگی سے بلا خوف و خطر نعرہ تکبیر بلند کرنے کی ہمت و حوصلہ عطاء کیا۔ جسے دیکھ کر شاعر (نامعلوم)کے یہ الفاظ باربار گردان کر رہے ہیں کہ

ہم نے سیکھا ہے آذان ِ سحر سے یہ اصول

لوگ خوابیدہ ہی سہی ہم نے صدا دینی ہے

اللہ تعالیٰ مسکان کی حفاظت فرما ئے اور اس دخترِ اسلام کی اللہ اکبر کی صداؤں سے عالم ِ اسلام میں نئی روح بیدار فرمائیں ۔ آمین یا ربّ العالمین