1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. نئے سال کی دستک

نئے سال کی دستک

انسان کے نا شُکرے ہونے سے کسی انسان کو انکار نہیں ہوسکتا، تھوڑی سی ذہنی مشقت اس کائناتی سچائی پر قائل کرنے کیلئے کافی ثابت ہوگی۔ ہم اگر کھوئی ہوئی چیزوں کا دکھ لے کر بیٹھ جائیں، تو شائد اپنے کھوجانے تک، اس دُکھ میں ہی مبتلاء رہیں گے۔ اب تو دیوار پر لگے مہینوں کے بدلنے کا رواج بھی تقریباً دم توڑتا جا رہا ہے۔ یہ وقت کی کمی کی ایک علامت سمجھی جاسکتی ہےکہ، دیوار پر لٹکتا کلینڈر، صفحے کی تبدیلی کا محتاج، سارا سال انتظار میں ہی گُھلتا رہتا ہے۔ وقت کی رتھ ہمیشہ سے ہوا ہے، لیکن اب اسکا ہم رکاب ہونا انتہائی مشکل ہوتا جارہا ہے۔

ترقی کی اس دوڑ میں ان لوگوں نے بروقت سبقت لی، جنہیں اس وقت کی تیزائی کا اندازہ قبل از وقت ہوگیا تھا، وہ اقوام جن کا نظم و ضبط اور اعلیٰ حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہونا انکی نسلوں کیلئے خیر کا باعث بنا ہوا ہے۔ ان قوموں کی خوش قسمتی رہی کہ، انکی ڈوریں ایسے رہنماءوں کے ہاتھوں میں رہیں جو ملک کیلئے اپنی سرزمین کے مخلص تھے، جنہوں نے انسانیت کے منشور پر عمل پیرا ہوکر حکمت عملیا ں ترتیب دیں، اور انہوں نے ہر قدم اپنی ملک کو مضبوط ومنظم کرنے کیلئے اٹھایا، اور قوم نے انکا بھر پور ساتھ دیا۔ یہ وہ قو میں ہیں، جنہوں نے اپنے بہترین کل کیلئے اپنا آج قربان کیا، اپنی آسائشوں پر سمجھوتا کیا، تاکہ انکی نسلیں بہترین آسائشوں سے لطف اندوز ہوسکیں، جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں۔

اس کے برعکس ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وقت تقاضا کر رہا ہے کہ، آج ہر پاکستانی خود کو یہ بتائے کہ، وہ جس کسی بھی پاکستانی سیاست دان کی مانتا ہے، یا حمایت کرتا ہے اس کا بنیادی منشور کیا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ، کیا وہ اس سیاسی قدآور شخصیت کے منشور سے آگاہ ہے۔ اور دوسرا اہم ترین نقطہ یہ کہ، کیا اس کا سیاسی قائد اپنی جماعت کے دئیے گئے منشور پر عمل پیرا ہے؟ (اس بات سے الغرض کے وہ منشور قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھ کر تشکیل دیا گیا ہے یا پھر ذاتی انا کی تسکین کی عکاسی پر مبنی ہے)۔

کیا اس کی سیاسی جماعت کے عملی اقدامات، اس منشور کے نفاذ کیلئے تگ و دو کرتی دیکھائی دی۔ حقیقت میں ہمارے ملک میں قانون کی بالادستی نا ہونے کی وجہ سے، بے تحاشہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں، شخصیات کی بنیاد پر وجود میں آچکی ہیں۔ جو اس بات کی گواہی ہے کہ، ملک کی بقاء و سلامتی پر افراد کی ذاتی ترویج کو فوقیت حاصل رہی ہے، جو لوگوں کی بھوک و افلاس کا خوب فائدہ اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ چند سِکوں اور ایک پلیٹ کھانے پر، ووٹ جیسی قیمتی شے فروخت کر دی جاتی ہے۔

ایک قمری سال کے ختم ہونے پر، دوسرے قمری سال میں داخل ہونے پر، اپنے تمام ہم وطنوں کواور جہاں کہیں بھی دنیا میں پاکستانی بستے ہیں، یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہوں، یا یہ فِکر اُجاگر کرنا چاہتا ہوں کہ، اپنی اپنی سیاسی عینکیں اُتاریں اور تحریک پاکستان کے لئے اپنی جان، مال، عزت، آبرو داءو پر لگانے والوں کا باقاعدہ سوچیں۔ سوچئے اور نئی نسل کیساتھ تذکرہ کیجئے کہ، کس طرح سے اس خطہ زمین کیلئے، پاکستان کیلئے اپنی تمام تر عیش و عشرت چھوڑ کر آنے والے، کیا اس ملک کو چور، ڈاکوں اور لٹیروں کی آماجگاہ بنانا چاہتے تھے؟ کیا ان کی قربانیاں اس لئے تھیں کے ہم عوام ہمیشہ نعرے لگاتے رہیں، اور ڈنڈے کھاتے رہیں، جبکہ جن کے لئے یہ سب کیا جائے وہ اپنی زندگیاں عیش و عشرت سے بسر کرتے رہیں۔

نہیں اہل ِوطن، انکی قربانیاں، مساوات کیلئے تھیں، انکی قربانیاں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کیلئے تھیں۔ کیا ہم سب نے نہیں پڑھا کہ، جب محمد علی جناح، 231، پوچھا گیا کہ، پاکستان میں کونسا نظام ِ حکومت تشکیل دیا جائے گا؟ تو انہوں نے واشگاف الفاظ میں اس بات کی تردید کردی تھی کہ، ہمارا نظام 0041 سال پہلے واضح کردیا گیا ہے، یعنی اسلامی نظام۔ ہمیں ہمیشہ اس نظام سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوششیں کی جاتی رہی ہیں، اور یہی سیاسی لوگ جن کی نسلوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ، دشمن کے آلہ کار بن کر عوام کو پاکستانی کی الوالعزم عوام کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے رکھا جائے تاکہ، یہ اپنے بنیادی مفاد کی جانب دھیان ہی نا دے سکیں۔

ایک لمحہ فکریہ ہے کہ، کیوں یہ قوم ناموس ِرسالت ﷺ پر ایک آواز میں بولتی ہے، کیوں یہ قوم اسلام کے خلاف دنیا میں کہیں بھی کوئی اقدام اٹھایا جاتا ہے تو غم و غصے میں مبتلاء ہوجاتی ہے، یہ قوم کیوں بھول جاتی ہے کہ اس کی زبان، ساتھ کھڑے مسلمان سے مختلف ہے، یہ کیوں علاقائی تقسیم کو نظرانداز کردیتی ہے؟ یہ سب اس بات کی گواہی ہے کہ، خمیر میں تو کچھ اور شامل ہے، بس موسموں کی رنگینیوں سے مرعوب ہوگئے ہیں۔ مغرب کی تہذیب میں گم ہوگئے ہیں، لیکن ابھی جسم کا خمیر جو روح کا اسیر ہے اورتند و تیز ہواءوں کی زد میں جھک گیا ہے، لیکن حقیت یہ ہے کہ بدلا نہیں ہے۔ وقت بہت تیز ی سے گزر رہا ہے اور ہم اتنی ہی تیزی سے اپنے اپنے آخری وقت کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ اس تیزی سے بدلتے ہوئے وقت کا تقاضا ہے کہ صحیح فیصلے بروقت کئے جائیں۔

گزرتے ہوئے سال کیساتھ ایک یقین سا خیال، امید کی امنگوں کو مزید تقویت دے رہا ہے کہ، ہم پاکستانیوں کیلئے بہت جلد ایک اور عظیم معجزہ رونما ہونے والا ہے، جو ہمار ے ملک کو درپیش مشکلات کو ایسے غائب کردیگا جیسے یہ کبھی تھیں ہی نہیں۔ اس معجزے کے رونما ہونے کےیقین کے پیچھے، وزیر اعظم عمران خان کے مزاج کی مستقل مزاجی ہے، مسائل کے ممکنہ حل کیلئے مسلسل جدوجہد ہے، ریاست مدینہ کو عملی نمونہ سمجھنا اور ان سب سے بڑھ کر اللہ رب العزت پر کامل یقین ہے، جسے وہ پہلے دن سے عوام میں اُجاگر کرنے کی کوششوں میں برسرِ پیکار ہیں۔

خیبر پختونخوا میں، پاکستان تحریکِ انصاف کی بلدیاتی انتخابات میں شکست، درحقیقت ایک ایسے نظام کی فتح ہے، جس نے حکومت میں ہونے والی جماعت کو شکست تسلیم کرنے پر آمادہ کر رکھا ہے، اور اس کے نتیجے میں تحریکِ انصاف کی اعلیٰ قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ اسی تبدیلی کی ابتداء ہے، جس کے نعرے ہم پاکستانی پچھلی ایک دہائی سے سنتے آرہے ہیں۔ آپ پاکستان تحریک ِانصاف کے حمایتی نا ہوں، لیکن اپنے آپ سے صدقِ دل سے یہ سوال کیجئے کہ، کیا آپ پاکستان کے بھی حمایتی نہیں ہیں؟

ایک پاکستانی کا، پاکستان کیلئے دل میں تکلیف کا محسوس نا کرنا، اسکے پاکستانی نا ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ اگر پاکستانی ہیں، تو پاکستان کی بقاء کیلئے اور ہماری آنے والی نسلوں کیلئے پاکستان کے ساتھ خیر خواہی کرنے والوں کی نشاندہی آپ کی ذمہ داری ہے۔ اب معاملہ ایک ووٹ سے کہیں آگے نکل چکا ہے، اب وقت ہے کہ، ہم اپنی سوچ کے زاویوں کو تبدیل کریں، انفرادیت سے باہر آئیں اور اجتماعیت کو فروغ دیں، جو کہ پاکستان کی فلاح و بہبود کیلئے ہمیشہ سے ہی بہت ضروری تھا، لیکن اب بدلاءو کا وقت شروع ہوچکا ہے۔

ہر دن کا نیا سورج، نئی امیدوں کو یقین میں بدلنے کیلئے طلوع ہوتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ، نئے سال کا سورج بھی ہم پاکستانیوں کیلئے ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کیلئے کامیابیوں اور کامرانیوں کا سال ثابت ہوگا۔ اللہ ہمیں اب کسی ایسی آفات میں مبتلاء نہیں ہونے دینگے، جس کو دعوت نامہ ہم پہلے سے ہی بھیج چکے ہیں۔ اللہ کرے نئے سال کی دستک کو ہم بدلاءو کیلئے محسوس کریں، اور ایک اچھے، سچے مسلمان بننے کا عہد کریں، اور نبی پاک ﷺ کی کسی ایک سنت کو عملی طور پر اپنائیں، یہاں اشفاق صاحب، 231، کی دعا پر مضمون کا اور 1202کا اختتام کرونگا کہ، اللہ تعالیٰ ہمیں آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمارے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔