1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. یہ مرضی والے اعتماد بھی بیچ چکے ہیں

یہ مرضی والے اعتماد بھی بیچ چکے ہیں

کمزور طاقتور سے جڑنے کیلئے ہر قربانی دینے کیلئے تیار رہتا ہے، دست بستہ خدا کی دی گئی اپنی طاقت سے بے خبر ایک اعلانیہ طاقتور کے آگے پیچھے گھومتا رہتا ہے اور طاقتور اپنی طاقت کے نشے میں اسقدر دھت ہوتا ہے کہ کمزورکے سوائے کمزور ہونے کہ اور کچھ طاقتور کودیکھائی نہیں دیتا۔ مشاہدے سے ثابت ہے کہ مفادات کے حصول کیلئے ایک مخصوص طبقہ کسی قدرے بہترشخصیت کو جو کسی غیر قانونی یا بدعنوانی کا حصہ نا ہو، منظر عام پر لے آتے ہیں اور اقتدار تک پہنچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ شخص صاحب اقتدار ہوجاتا ہے۔ پھر کیا جناب ایک گمنام آدمی کو اقتدار مل جاتا ہے تو ان تمام حواریوں کا تاحیات دانا پانی کا سلسلہ بن جاتا ہے۔ قدرت نے ایسے طاقتوروں سے تاریخ بھر رکھی ہے جن کو قدرت نے عبرت کا رہتی دنیا تک کیلئے نشان بنا دیاہے، اللہ رب العزت نے اپنے کلام پاک میں سب کچھ واضح طور پر بتا دیا ہے کہ یہ کیسے طاقتورلوگ تھے کہ جن کاعصرِ حاضر کے طاقتوروں سے کسی طور مقابلہ نہیں کیا جاسکتا نا جسمانی طاقت میں، نا مال و دولت کی طاقت اور نا ہی اقتدار کی طاقت سے۔ ہم پاکستانیوں نے مادہ پرستی میں دنیا کو کہیں بہت دور چھوڑ دیاہے، سماجی ابلاغ پر ہم اتنے پارسا ہیں کے حدوں کا تعین کرنا مشکل ہے اسکے برعکس عملی طور پر ہم خود سے چھپتے پھرتے ہیں۔

ملک خداداد گزشتہ کئی سالوں سے تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے اور ناقدین ہر عمل کو اس تبدیلی کی نظر کرتے سنائی دے رہے ہیں، یہاں تبدیلی کو طنز یہ تیروں کو زہر میں بجھا بجھا کر چلایا جا تا رہا ہے۔ اب کہیں جا کہ یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو اس تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جیسا کہ ساری دنیا دیکھ لیاکہ ایوان بالا کے انتخابات میں کیا کچھ ہوا ہے اس پر حز ب اختلاف کا رد عمل اپنی فتح پر کچھ اور اپنی شکست پر کچھ اور رہا ہے، رقم کا استعمال کس بے خوفی سے کیا گیا ہے کس طرح سے بد عنوانی کو فروغ دیا گیا ہے ان سب سے بڑھ کر قانون اور الیکشن کمیشن کا کردار کس قدر مشکوک ہوچکا ہے۔ ہمارا یہ مضمون جس وقت زیر مطالعہ ہو گا اسوقت تک ایوان بالا (سینیٹ) کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوچکے ہونگے اور ہمیں یقین ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور انکے اتحادیوں کے امیدوار کامیابی سے ہمکنار ہوجائینگے۔ وہ تمام لوگ جو اپنے عہد سے چند روپیوں اور دنیاوی فائدے کی خاطر منحرف ہوئے اب کی ایسا نہیں کرینگے اور کوئی دوسرا بھی ایسا کرنے کی جرات نہیں کریگا۔ تبدیلی کے نعرے پر ووٹ لینے والوں نے بھلا نوٹ لینے کو کیوں ترجیح دی؟ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اس سے قبل بھی ایسا کرتے رہے ہیں جن کا مقصد اقتدار کے ایوانوں تک رسائی صرف طاقت کا حصول اور اس طاقت کی بدولت بے جا من مانیاں اور فائدے اٹھانا ہوتا ہے۔ بہت ممکن ہو کہ یہ لوگ بھول گئے ہوں کہ ہم نے کس نظرئیے کے لئے ایوانوں کی راہ لی تھی یا ہمیں قوم نے کس نظرئیے کی پاسداری اور اسکا علم اٹھانے پر ہمیں ایوانوں میں بھیجا تھا۔ حقیقت تو یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بھی تنظیم کی قیادت کی آنکھیں کھولنے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ اور تنظیم کو منظم کرنے میں اہم کردار جانے جاتے ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کی کارستانیاں دور اقتدار میں تو اتنی دیکھائی نہیں دیتیں جتنی اقتدار سے باہر ہوکر سمجھ آتی ہیں۔

روبرٹ ایف ہارن نامی ایک فرد جو امریکی خفیہ ادارے کا استغاثہ (پروسیکیوٹر) تھا اورروبرٹ مشہور زمانہ ایمل کانسی کیس کی پیروی کر رہا تھا۔ اس شخص نے ایک زہر میں بجھا ہوا جملہ کہا تھا جو کسی سلگتی ہوئی سلاخ کی طرح ہمارے دل میں چبھا ہوا ہے کہ پاکستانی ڈولر کی خاطر اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں، جو پاکستانیوں کیلئے کسی گالی سے کم نہیں تھا، اس ایک فقرے نے پاکستان کی عزت کی دھجیاں اڑا دیں اور پاکستانی قوم کی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ یہ وہ تاریخ میں رقم سیاہ الفاظ ہیں جو ہماری تاریخ پر انتہائی بدنما ترین داغ بن کر نمایاں ہیں۔ روبرٹ سے اس بیان کو واپس لینے کیلئے پاکستان نے بھرپور احتجاج کیا لیکن اس شخص نے اپنے الفاظ واپس لینے سے انکار کردیاجو اس کے وثوق کا اور ہمارے کردارکا آئینہ دار تھا۔ کیا اس تلخ بیان نے ہماری سوچ پر کوئی اثرات چھوڑے، ہم کس طرح سے اپنی اس پوشیدہ حقیقت کا یوں دنیا کے سامنے پیش کرنا برداشت کر گئے، کیا ہم نے بطور قوم اس جملے سے مسخ ہونے والے قومی تشخص کو بہتر بنانے کیلئے کوئی کام کیا یا پھر ہم ڈھیٹ بن کر اپنی اس عادت سے فائدے اٹھانے میں لگ گئے؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جو شائد پہلے بھی لفظوں کے ہیر پھیر سے کئے جاتے رہے ہونگے۔

ایک طرف غربت اور افلاس اور دوسری طرف ایمان سے دوری نے انسان کو بدعنوانی کی سولی پر لٹکایا ہوا ہے، یہاں سب سے بڑا مسئلہ صرف اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانا نہیں بلکہ ہر دستیاب آسائش کے حصول کو ممکن بنانے کیلئے کچھ بھی کر گزرنا ہے۔ دنیا میں بہت سارے ایسے ممالک ہیں جہاں جسم فروشی کو کاروبار کا درجہ حاصل ہے اور اسکا اجازت نامہ حکومتی ادارے شایع کرتے ہیں۔ یہ عمل کسی بھی معاشرے کی اخلاقی اقدار کی عکاسی کرتاہے یہاں یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ یہ اس ملک کا مسئلہ ہے ہمیں کیا لینا دینا(یہ کہنے والے دیکھ رہے ہیں کہ اب یہ ہمارے ملک کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے) لیکن اگر یہ سب کچھ ہمارے معاشرے میں ہوتا دیکھائی دینے لگے تو پھر کیا کہا جائے گا یا آسان الفاظ میں لکھ دیتے ہیں کہ اگر یہ سب کسی اسلامی مملکت میں ہونا شروع ہوجائے تو کیا کیا جائے۔ پاکستان جوکہ کم از کم نام کے اعتبار سے ایک اسلامی جمہوریہ ہے ایسے کسی عمل کی چاہے وہ پوشیدہ ہو یا پھر ظاہری کبھی بھی اجازت کا محتمل نہیں ہوسکتا۔ بدقسمتی سے ہم نے ترقی کی جو وضاحت سامنے رکھی ہوئی ہیں اور ایک مخصوص طبقہ جس کی ترجمانی کرتا چلا آرہا ہے وہ ہے مرد اور عورت کی بے پردگی (ہم ان خاندانوں سے دکھی دل سے معذرت خواہ ہیں جو اس بے ہنگم دور میں بھی اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت پر زندگیاں گزار رہے ہیں)۔ پاکستان میں کس طرح کے تعلیمی نظام کو فروغ دیا جا رہا ہے کیا یہ طرز تعلیم وزیر اعظم عمران خان صاحب کے خواب ریاست مدینہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نہیں بننے والا۔

وزیر اعظم صاحب اس امر سے خوب واقف ہیں کہ کس طرح سے سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کے جوانوں کو کفار نے برباد کیا تھا کس طرح سے انکا ذوق جہاد اور شوق شہادت ختم کیا تھا کیا کچھ ایسا ہی ہوتا نہیں دیکھائی دے رہا؟ کیا ریاست مدینہ کی بات نے کفار کو ایک بار پھر اسی طرح متحرک نہیں کر دیا۔ دشمن بہت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ مومن کو میدان جنگ میں شکست دینا اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ اسے تعیشات اور دیگر خرافات کی لت میں مبتلا کرکے اپنے ہی نظام کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ میرا جسم میری مرضی کوئی نیا نعرہ نہیں ہے یہ ہمیشہ سے ہے لیکن آج اسے سماجی ابلاغ کی مرہون منت بھرپور آواز مل گئی ہے اور یہ اچھی بات بھی ہے کہ معاشرے میں پائی جانے والی پوشیدہ غلاظت اس طرح سے ظاہر ہونا شروع ہو چکی ہے۔ یہ عمل سوائے جگ ہنسائی اور مخصوص لوگوں کی رائے سے زیادہ اپنا تاثر نہیں چھوڑسکتا۔ ہم یہ بھی ماننے کو تیار ہیں کہ معاشرے میں بد فعلی کی سب سے بڑی وجہ نکاح کا وقت پر نا ہونا ہے۔ سب سے پہلے تو ہماری نئی نسل کو یہ فیصلہ کرنے پڑے گا کہ کیا وہ اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کرنا چاہتے ہیں یا پھر وقتی لذت کی خاطر دنیا کی چمک دمک کی خاطر اپنا ٹھکانا آگ کو بنانا چاہتے ہیں۔ یہاں کوئی بڑی بات نہیں ہے سوائے اسکے کہ والدین اپنی وہ فہرستیں جن کو نکاح سے منسلک کیا گیا ہے ختم کریں سوائے اسکے کہ لڑکا اور لڑکی نکاح کی عمر کو پہنچے تو سب سے افضل ترجیح نکاح کا اہتمام کرنا ہو۔ بطور مسلمان ہم یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جانے پر اگر والدین اولاد کا نکاح نہیں کرتے تو انکے گناہوں میں والدین بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے والے کوئی دوسرے سیارے سے آئے ہوئے لوگ نہیں ہیں یہ ایسے پیسے کے پیچھے بھاگنے والوں کی ہی اولادہیں۔

ہمیشہ سے ہم پاکستانیوں کے لئے یہ عام سی بات رہی ہے کہ پاکستان میں پیسے کے بل پر سب کچھ کیا جاسکتا ہے۔ تھانہ ہو کچہری ہو ہسپتال ہو یا پھر مردہ خانہ ہی کیوں نا ہو پیسے کا زور ہر جگہ چلتا ہے۔ کسی بھی نظام کی مضبوطی کیلئے سب سے اہم جز یہ ہے کہ اسکے نفاذ کیلئے کام کرنے والے لوگ بد عنوان اور بے ایمان نا ہوں۔ ہمارے مذہبی جذبات کی کیا خوب ترجمانی حکیم الامت حضرت اقبال ؒ نے درجہ ذیل شعر میں کی ہے؛

مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نا سکا

(لاہور میں شاہ عالمی چوک کے قریب واقع ایک چھوٹی سی مسجد کے سلسلے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ جھگڑا تھا۔ مسلمانوں نے راتوں رات وہاں مسجد بنا ڈالی۔ یہ مسجد آج بھی موجود ہے۔ علامہ اقبال ؒنے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے)

انتخابات کیلئے دوڑیں لگی ہوتی ہیں ایسے کہ جیسے یہ لوگ ملک کی قسمت بدلنے کیلئے تڑپ رہے ہیں اور پھر کامیابی جیسے بھی مل جاتی ہے، سب بھول کر برائے فروخت کی تختی گلے میں ڈالے گھومتے دیکھائی دیتے ہیں۔ ملک کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک عوام کا ارباب اختیار پر اعتماد نہیں ہوگا اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں حکوتِ وقت قوم کا اعتماد مہنگائی کو کم کرکے خریدے گی یا پھر ہمیشہ کی طرح یہ سودے بازیاں ایوانوں میں ہی ہوکر ختم ہوجائینگی۔ حکومت کی طرف سے اخلاقیات اور مذہبیت کا مذاق بنانے والوں کیلئے بھی واضح موقف سامنے آجانا چاہئے۔ کہیں ایسا نا ہوکہ جو کچھ مغرب میں دیکھتے آئے ہیں ہماری سڑکوں پر بھی دیکھائی دینے لگے اور ہمیں لوگوں کو سوائے شرم ساری کے ڈوب مرنے کے اور کہیں جگہ نا ملے۔ یہ جس مرضی کے نعرے لگائے جارہے ہیں دراصل یہ کسی مرض سے کم نہیں ہے۔