1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. زندگی کی بقاء کیلئے

زندگی کی بقاء کیلئے

ہمیں بھلا کیسے پتہ چلے گا کہ ہم کون ہیں اور کن مقاصد کو بروئے کار لانے کیلئے زمین پر بھیجے گئے ہیں، کہیں تو معاملات اتنے واضح ہوتے ہیں کہ عمر کی پختگی سے قبل ہی سمجھ آناشروع ہوجاتی ہے کہ کو ن سے راستے کے مسافر ہیں لیکن ایسا شاذو نادر ہوا کرتا ہے (دورِ حاضر میں کہا جاتا ہے کہ آج سب کچھ قبل از وقت عیاں ہوتا جا رہا ہے لیکن یہ سب مادیت نہیں جو ہمیشہ سے ہی مٹ جانے کیلئے عیاں ہوتا ہے) اکثر اوقات یہ جاننا بہت مشکل ہوتا ہے کہ جس راستے کا مسافر ہوں کیا یہی راستہ میری منزل کی طرف جاتا ہے، دھیان دیں تو یہ ایک انتہائی گھمبیر صورتحال ہے جس کا سامنا تقریباً ہم سب ہی کو کرنا پڑتا ہے (جو دھیان دیتے ہیں)۔

راستے میں زاد راہ کی قلت اور موسموں کی شدت، کبھی ٹہر جانے، آرام کرنے پر اکساتی ہے اور کتنے ہی اس اکسانے میں آکر ایسا کر بیٹھتے ہیں، چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو سفر جاری رکھتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا یقین تب بھی نہیں ہوتا کہ یہ راستہ ہی انکی منزل کی جانب جا رہا ہے۔ دوسری طرف معاشروں کی تقسیم در تقسیم در تقسیم ایک جگہ کھڑے رہنے کی اجازت نہیں دیتی، کہیں زبان کی تفریق اجنبی بنا کر کھڑا کردیتی ہے اور کہیں مذاہب اپنا کردار نبہاتے دیکھائی دیتے ہیں، غرض یہ کہ منزل پر دھیان کا مرکوز ہونا ایک انتہائی مشکل کام ہوکر رہ جاتا ہے۔

یہ کہانی کم از کم ان لوگوں کیلئے ہے جو راستے پر آجاتے ہیں یعنی کسی منزل کی چاہ میں سفر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ سفر کا سہل ہونا ہمیں اکساتا ہے کہ جتنی تیز ہوسکے چلا جائے لیکن توازن کو برقرار رکھنے کیلئے اور اچانک سے کسی راستے میں کسی گڑھے کا آجانا یا پھر کسی اور قسم کی رکاوٹ سے محفوظ رہتے ہوئے سفر کو منزل کی جانب رواں دواں رکھنے کیلئے ضروری ہے اعتدال اختیار کیا جائے رفتار میں بھی دھیان میں بھی تاکہ منزل پر بحفاظت پہنچا جاسکے۔

یہ ایک ا تہائی مشکل عمل ہے کہ آپ جو چاہتے ہیں وہ کر نے کیلئے کم از کم کھڑے ہوجائیں (حالات و واقعات اکثر کھڑے ہونے سے روک دیتے ہیں)، عمومی طور پر ا یسا کرنا آپکی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہوتا ہے اور چاہتے ہوئے بھی آپ کے اردگرد لوگوں کی نظروں سے خوفزدہ ہوتے ہوئے، الغرض کہ کتنے لوگ آپکی موجودگی کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور کتنے آپکے ہو نے یا نہ ہو نے سے ماورا گزرتے چلے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں جب تہذیبیں تخریب کاروں کے ہاتھوں میں آچکی ہیں، سمتوں کا فرق خاطر سے بالا ہوتا جا رہا ہے، تہذیب و اخلاق کی گفتار اپنے آپ کیلئے جیسے شرمندگی کا باعث بنتی جا رہی ہے۔

یوں سمجھ لیجئے لرزتے ہوئے ہاتھوں میں اب یہ ٹمٹماتے ہوئے چراغ دیکھائی دیتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہاتھوں کی لرزش یا پھر سانسوں کی بندش کا انتظار کیا جا رہا ہے اور پھر ٹمٹماتے ہوئے چراغ کو خود ہی بجھا دیا جائے گا۔ انسان نئی نئی جہتوں میں مگن کہاں سے کہاں پہنچ رہا ہے اور سمجھ رہا ہے کے جیسے کوئی یہاں تک اس سے قبل پہنچا ہی نہیں یہ خیال اسے نہال کئے دیتا ہے تشکر کی بجائے تکبر کئے جاتا ہے پھر کیا وہ وقت آجاتا ہے کہ اسے دنیا سے رخصت ہونا پڑتا ہے لقمہ اجل بننا پڑتا ہے پھر شائد اس پر یہ راز عیاں ہوتا ہو کہ جس راز پر اسے گھمنڈ تھا وہ تو خالق کائنات نے مجھ پر بطور احسان عیاں کیا تھا اور میں اسکے تشکر کی بجائے تکبر میں مبتلاء ہوکر اپنا سب کچھ خراب کر بیٹھا۔

انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے تخلیق کار کی طرف رجوع کرلے اور یہ کوشش کرے کے کیا اسکا کیا ہوا د نیا دکھاوے کیلئے ہے یا پھر اپنے خالق حقیقی کی رضا کیلئے۔ آج دنیا کی سب سے اہم ضرورت طب کی ترقی ہے، انسانی سوچ کی بدولت انسان اپنے جسد خاکی کو بدیر صرف طب کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ اس دنیا کی رنگینیوں میں رنگنے کیلئے رکھ سکتا ہے۔ ایک طرف انسان نے کینسر جیسے موضی مرض کا علاج کسی حدتک نکال لیا تھا اور انسان کی یہ کامیابی اس بات کی ضمانت سمجھی جا رہی تھی کے کچھ بھی لاعلاج نہیں رہا، ابھی حضرت انسان اس خوشی سے پوری طرح سے محظوظ بھی نہیں ہوسکے تھے ایک ایسے غیر مرئی مرض نے انسانیت کو بغیر کسی سرحد و مذہب و زبان و رنگ و نسل کی تفریق کے ایسے آدبوچا کے سانسسوں کی ڈوریں یکے بعد دیگرے ٹوٹتی ہی چلی گئیں (ایسا تاریخ میں کئی بارہوچکا ہے یعنی زمین کا سفر ہے یہ اسکی روک تھام کیلئے بنائے جانے والے قدرتی گڑھے ہوں گویا)۔

کورونا نے دنیا کو ایک نئی تہذیب کی طرف دھکیل دیا ایک نئی فکر و سوچ کے زاوئیے فراہم کردئیے۔ غرض یہ کہ ترقی یافتہ ملک، ترقی پذیر ملک تھا یا پھر تیسری دنیا کے ممالک، کورونا نے کوئی تفریق نہیں کی اور انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ تم تخلیق کار کی تخلیقات کو پہچاننے سے تاحال قاصر ہو بھلے ہی بڑی بڑی کتابیں پڑھ لو لکھ لو بھلے ہی ساری ساری زندگی تجرباگاہوں میں گزار لو تم سمجھ ہی نہیں سکتے کے اگلے لمحے میں تمھارے لئے کیا حیرت چھپی ہوئی لیکن جو اپنے تخلیق کار کو پہچانتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی ہوناخوب ممکن ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے انسان اپنی دوڑ دھوپ سے واقف ہوتے ہیں وہ کس لئے جدوجہد کر رہے ہیں، انکا اس دوڑ دھوپ کے پیچھے بھاگنے کا مقصد ان پر واضح بھی ہے یا نہیں۔ ایک طرف تو حالات کے پیش نظر زندگی انتہائی تھکا دینے والی ہوتی جا رہی ہے جس کے پیچھے بہت سارے عوامل اپنی اپنی جگہ کارفرما ہیں۔ یہاں کسی فرد کا کسی بھی پیشے سے وابستہ ہونا شائد حادثاتی تصور کیا جاسکتا ہے، کہیں بڑوں کی بنائی ہوئی راہداری پر چلنا حادثہ اور کہیں اس راہداری سے بغاوت حادثہ، بغاوت کے بعد نئی جہتیں تلاش کرنا اس میں مایوسی اور باغیانہ روئیے کی مرہون منت اپنے دعاؤں کرنے والوں سے نالاں ہوجانا، طرح طرح کے وسوسوں کے ساتھ چلنا انتہائی دشوار ٹہرتا ہے، اکثریت تو ہار جاتی ہے اور کسی ایسی لت کا شکار ہوجاتی ہے جو اسکی تباہی کا سبب بن جاتی ہے جبکہ گنتی کے لوگ ان تمام مسائل کا مقابلہ کرتے ہیں اور انکی بدولت ہی حل وجود میں آتے ہیں۔

ہمارے گھر کے ایک دروازے کا تالا کچھ ایسے خرا ب ہوا کہ جب تالا لگانا ہوتب لگتا نہیں اور بے وجہ لگ جاتا ہے جو کہ گھر میں ایک گھمبیر صورتحال کا سبب بنا ہوا ہے ہماری چھوٹی صاحبزادی اس ساری پریشانی سے بیخبر آتے جاتے دروازے کو بند کرتی ہیں اور پھر چابی کی تلاش کیساتھ صورتحال خراب ہوجاتی ہے، یہ سلسلہ جاری ہے لیکن اس صورتحال کو سوچتے ہوئے ذہن نے ایک جواز پیش کیا کیونکہ تالا ابھی کچھ عرصہ قبل ہی تبدیل کرایا گیا ہے اس لئے تالے کی تبدیلی کو برملا خارج از ذہن رکھا گیا ہے اب جس بات نے ہمیں کسی حد تک تسلی دی وہ یہ کہ ہماری تربیت کیلئے اس تالے کی ایسی صورت بنادی گئی ہے کے نا نکالے قرار اور نا لگائے سکون، ہم انسان بھی ایسے ہی ہیں کے اپنے خالق کے بتائے ہوئے اصولوں کی نافرمانی کرتے ہی چلے جاتے ہیں کب کیا کرنا ہے کب کیا نہیں کرنا سب کچھ بتایا گیا ہے لیکن ہم اپنی ہی من مانی سے زندگی کی گاڑی دوڑاتے پھرتے ہیں پھر راستے کی مشکلات کا رونا روتے رہتے ہیں اس طرح ہمیں یہ احساس ہوا کہ تالا ہماری طرح کی جانے والی من مانی کی عملی شکل بن کر ہمارے سامنے آگیا ہے اور ہم سے تقاضا کررہاہے کے واپس لوٹ آئیں بتائے ہوئے راستوں پر سفر شروع کردیں۔

آپ زندگی سے اس وقت تک کچھ نہیں سیکھ سکتے جب تک آپ یہ سمجھتے رہینگے کے آپکو سب پتہ ہے۔ زندگی کی تخلیق ہی زندگی کی بقاء کیلئے ہے بس فرق اتنا ہے کہ اکثریت زندگی کے تابع ہوکر بقاء کی دوڑ سے باہر نکل جاتے ہیں کیوں کہ بقاء پانے والے تو دنیا سے کبھی رخصت ہی نہیں ہوتے۔