1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد عامر حسینی
  4. ہمیں کیا بُرا تھا مرنا

ہمیں کیا بُرا تھا مرنا

فیس بُک کے میسجنر پر ایک پیغام میرا منتظر تھا: "آپ کا رابطہ نمبر اور گھر کا ایڈریس درکار ہے، کتاب ارسال کرنی ہے"۔

سید قمر عباس اعرجی کی طرف سے یہ پیغام تھا۔ میں نے رابطہ نمبر اور گھر کا پتا بھیج دیا۔ ایک دن گھر لوٹا تو اہلیہ نے محکمہ ڈاک سے آیا ایک پارسل مجھے تھما دیا۔ میں آفس اور فیلڈ ورک کے ناروا بوجھ سے ذہنی اور جسمانی تھکن کا شکار تھا۔ پارسل بے دھیانی سے اپنی ورک ٹیبل پر دھردیا۔ کئی روز تک یہ بند پارسل میری توجہ سے محروم رہا۔ پھر آف ڈے میں اس پر نظر پڑی، پارسل کھولا تو اندر سے ایک کتاب برآمد ہوئی۔ "ہمیں کیا برا تھا مرنا" (افسانے) – مصنف کا نام سید قمر عباس اعرجی لکھا ہوا تھا۔

میں نے کتاب پڑھنا شروع کردی۔ مصنف کا پیش لفظ بھی "کہانی پن" سے مسجع و مقفع تھا۔ کافکا نے مصنف کو افسانے کے تکنیکی رموز ہی نہیں سکھائے بلکہ اس کرب اور خواب کی سرحد سے بھی اسے روشناس کیا جو اس سے پہلے نہ صرف بے نام تھی بلکہ اسے اپنے اندر اس سرحد کے موجود ہونے کا احساس بھی نہیں تھا۔ مصنف کو کافکا یہ کہتا ہوا ملا کہ اگر اپنے آپ میں سوختہ ہوکر مرنے سے بچنا ہے تو کہانی لکھنا شروع کرو۔

میرے لیے مصنف کا خود اپنے فن افسانہ نگاری کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے کافکا سے افسانے کی تکنیک کے رموز سیکھے ایک بڑا دعوا تھا۔ کیونکہ کافکا کے افسانوں میں"ہئیت" اور "تکنیک" دونوں کا سراغ پا جانا اور اس کے رموز سیکھ لینا کسی عام کہانی کار کے بس کی بات تو نہیں ہے اور اس سے اگے یہ دعوا کہ اپنے اندر بے نام کرب اور خواب کی سرحد کو دریافت کافکا کے واسطے سے کرنا تو اس سے بھی بڑی بات ہے۔ مصنف کی ان دو باتوں نے کتاب میں میری دلچسپی بڑھادی۔ میں سنبھل کر بیٹھ گیا اور میں نے قمر عباس اعرجی کے افسانے پڑھنے شروع کردیے۔

اس کتاب کا پہلا افسانہ "ترقی" ہے۔ یہ افسانہ کم وبیش ان تمام تارکین وطن مزدوروں کی نمائندہ کہانی ہے جو محنت مزدوری کرنے کے لیے مڈل ایسٹ یا شمالی افریقہ کے مسلم ممالک میں محنت مزدوری کرنے جاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک خوشحال زندگی گرارنے کے خواب ہوتے ہیں۔ ان کا خواب ہوتا ہے کہ وہ دس بیس سال دیار غیر میں محنت مزدوری کرکے اپنے غریب گھرانے کو کسمپرسی اور پس افتادگی سے نکال لیں۔ بہنوں کی شادی کرائیں گے۔ چھوٹے بھائیوں کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد کریں گے۔ ماں اباّ کا بڑھاپے میں سہارا بنیں گے اور کم از کم مستحکم سفید پوش گھرانوں کی طرح ایک سادہ متوسط طبقے کی رہائشی اسکیم میں زیادہ نہیں تو پانچ سے دس مرلے کا مکان بنانے کے قابل ہوجائیں گے اور ان ذمہ داریوں سے فارغ ہوکر وطن واپسی اختیار کریں گے۔ شادی کریں گے اور اپنا گھر بسا لیں گے۔

ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے وہ اپنی جسمانی و ذہنی صحت کی پرواہ کیے بغیر اپنے آپ کو کوہلو کے بیل کی طرح پیلتے رہتے ہیں۔ اس دوران ناگہانی ضرورتیں اور مصبیتیں ان کے خوابوں کی تکمیل کے آڑے آتی رہتی ہیں اور سرمایہ دارانہ مارکیٹ میں وہ پہلے جیسے پیداواری نہيں رہ پاتے اور لیبر مارکیٹ سے باہر ہوجاتے ہیں۔ وطن واپس لوٹتے ہیں انہیں حالات وہیں پر کھڑے ملتے ہیں جہاں وہ چھوڑ گئے تھے۔ "ترقی" افسانے کا کردار "شکیل" بھی ایسی ہی تقدیر سے دوچار ہوتا ہے اور یہ اس کے لیے ایسا ٹراما ثابت ہوتی ہے کہ وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔

"چند دن کے بعد شکیل حسین کو چارپائی سے باندھ دیا گیا۔۔ آپ چاہیں تو دن میں شکیل حسین سے اس محل کی کہانی سن سکتے ہیں جو اس نے صحرا کے بھوتوں سے بنوایا تھا۔۔ اسے سفید کپڑوں سے چڑ ہے۔ تاہم اس کی کہانیاں دلچسپ ہوتی ہیں۔۔ "

"آئینے کی دکان" کو ہم ایک مابعد جدید افسانہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ میٹا فکشن تکنیک کے ساتھ لکھا گیا افسانہ ہے۔ آئینہ گر دکاندار نے ایک صحرا اور بیاباں میں"آئینوں کی دکان" کھول رکھی ہے اور آئینے سب کے سب شکستہ ہیں۔ بظاہر رہ ٹوٹے ہوئے، بے کار آئینے لگتے ہیں اور کوئی ان کو حریدنے میں دلچسپی نہیں دکھاتا۔ ہر ٹوٹا ہوا آئینہ ایک نئی امید کا نشان ہے۔ آئینہ گر کی امید کبھی نہیں ٹوٹتی، اسے لگتا ہے کہ زندگی سچائی کہیں قریب ہی جو کسی روز ان شکستہ آئینوں میں منعکس ہوگی اور اسے اپنی محنت کا صلہ مل جائے گا – یہ مختصر سا افسانہ آپ کو اپنی جکڑ میں لے لیتا ہے۔

"گھن چکر" مکافات عمل کی تجسیم ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار افضل پسند کی شادی کرکے اپنا گھر بسانے والی بیٹی کو اپنی زمین جائیداد میں سے اس کا حصّہ لوٹانے کا قصد کرتا ہے جب اسے ضمیر کی خلش ستانے لگتی ہے لیکن اس کا بیٹا اسے ان کے گاؤں کی اس نہر کے اس کنرے کے پاس روک کر اسے نہر میں دھکا دے دیتا ہے جو اس کی کبھی پسندیدہ جگہ ہوا کرتی تھی جہاں کبھی اس نے اپنے بوڑھے باپ کو دھکا دے کر نہر میں ڈبو دیا تھا۔ اس سے پہلے وہ افضل سے ایک اسٹامپ پیپر پر انگوٹھا لگوانا نہیں بھولتا۔

"اس عاشقی میں" ایک ایسا افسانہ ہے جہاں ہمیں قمر عباس کا کہانی بننے کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ یہ بظاہر ایک پیر سید گھرانے کی نوجوان لڑکی کا ایک کمہار گھرانے کے نوجوان کے عشق میں مبتلا ہوجانے کی روایتی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہ اتنی پیچ دار اور تہہ دار ہے کہ اس پر قمر عباس کو داد نہ دینا حق تلفی ہوگی۔ قمر عباس ایک تو زوال پذیر پیر سید گھرانے کے جاگیردارانہ سماجی مقام و مرتبے اور تقدیس جدید سرمایہ دارانہ اقدار کے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ وہ منظر بھی عجیب ہے کہ جب پیر سید گھرانے کی پیرنی سیدانی اپنے تمام تر مقام و مرتبے کو بالائے طاق رکھ کر کمہار گھرانے میں جاکر کمہارن ماں سے اس کے بیٹے کو اپنی بیٹی کے عقد میں لانے کی مانگ کرتی ہے اور کمہارن پیرنی سیدانی کے کھران کی غربت، افلاس کو دیکھتے ہوئے اور اس کی بیٹی پر لگنے والے بدچلنی کے الزامات اور تمام محلے میں گردش کرتی اس کی آواراگی کی فرضی کہانیوں کو بنیاد بناکر رشتہ کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس کے بعد اس لڑکی کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو ایسے حالات میں گھری اکثر لڑکیوں کی ہمارے سماج میں تقدیر بن جاتا ہے۔ اپنی عمر سے کہیں بڑے، ایک بڈھے کھوسٹ سید سے اس کا بیاہ رچایا جاتا ہے۔۔ قمر عباس سفاک مسیحا کی طرح سادات گھرانوں میں سید گھرانوں سے رشتہ نہ ملنے کے سبب کنواریوں کو گھر بٹھائے رکھنے یا قرآن سے ان کی شادی کرنے جیسی رسموں کو دکھاتے ہیں۔ یہ سفاک نشتر زنی اس وقت اور بھی اہم ہوجاتی ہے جب اسے سرانجام دینے والا خود بھی "سید" ہو۔

"محبت میں ہوس کا انتخاب مرد و عورت دونوں کا فیصلہ ہوتا ہے اور لطف بھی دونوں لیتے ہیں۔ لیکن سزا صرف عورت کو دی جاتی ہے۔ میں اسی سزا کی عملی تصویر تمہارے سامنے بیٹھی ہوں۔ روایات کی صلیب پر ٹنگی ہوئی۔ "

قمر عباس اعرجی کی کتاب "مجھے کیا برا تھا مرنا" میں کل ملاکر تیس افسانے ہیں اور میں نے ان میں سے 15 افسانے پڑھے ہیں۔ انہیں پڑھنے کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے پیش لفظ میں ٹھیک ہی لکھا ہے کہ کہانی لکھنا نہ بہت بہت مشکل ہے! نہ بہت آسان اصل چیلنج کہ اپنے ارد گرد بکھری کہانیوں، افسانوں، ان کے کرداروں کو سننے، محسوس کرنے اور پھر ان کو اپنے لفظوں کے آئینے میں دیکھنے کی ہمت کرلی جائے۔ انہوں نے یہ ہمت کی ہے اور بہت زیادہ کامیاب بھی رہے ہیں۔