1. ہوم
  2. افسانہ
  3. محمد عامر حسینی
  4. اس کے ہاں ایک دوست

اس کے ہاں ایک دوست

صبح کا وقت ہمیشہ ریحانہ کے لیے کسی مقدس سکوت جیسا ہوتا تھا، ایک ایسا لمحہ جو وہ خود کے ساتھ گزارنے کی عادی ہو چکی تھی۔ اسے اپنے کمرے کی کھڑکی سے آنے والی دھوپ کی کرنیں ایک پرانی، مانوس دعا کی طرح لگتی تھیں، جیسے ہر روز کائنات اسے یاد دلاتی ہو کہ وہ ابھی باقی ہے۔ نیلا دوپٹہ، جو ژوب سے لائی تھی، نرم ہاتھوں سے سنوار کر کندھوں پر رکھا اور فون کیمرہ آن کیا۔ صرف چند سیکنڈز کی ویڈیو تھی، لیکن اس میں اس کے ہونے کا، اس کی مکمل موجودگی کا، اس کی شناخت کا ایک مکمل اعلان تھا، کچھ کہے بغیر سب کچھ کہنے کا انداز۔ انسٹاگرام پر کلپ اپلوڈ کرتے ہوئے وہ مسکرائی، ایک ہلکی، مختصر مسکراہٹ، جو صرف اس کے اور اس کی خاموشی کے درمیان تھی۔ کیپشن میں اس نے صرف ایک لفظ لکھا: "Alive"۔

یہ لفظ اس کے لیے صرف جذباتی کیفیت کا اظہار نہیں تھا، بلکہ ایک قسم کی فکری سچائی بھی تھی، وہ جیتی جاگتی تھی، سوچتی تھی، کام کرتی تھی، قبیلے سے آئی تھی مگر اس کے آگے بڑھ چکی تھی۔ لیکن شاید وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ زندہ رہنا کتنا ناپسندیدہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب تم ایک بلوچ عورت ہو، قبیلے سے جُڑی اور پھر بھی ان سرحدوں سے باہر نکلنے کا خواب دیکھتی ہو۔ تبصرے آنا شروع ہوئے، "خوبصورت"، "طاقتور"، "پُراعتماد" اور پھر ایک تبصرہ، ایسا جو باقیوں سے الگ تھا اور جسے دیکھ کر اس کی مسکراہٹ تھمی، پلکیں ذرا دیر کو ساکت ہوئیں اور دل میں ایک پرانا زخم جیسے آہستہ آہستہ جاگنے لگا: "اب اس کے ہاں ایک دوست اور بنانے کی گنجائش ہے"، گلزار۔

ریحانہ نے وہ جملہ تین بار پڑھا، ہر بار جیسے وہ ایک نیا مفہوم کھول رہا ہو، پہلی بار میں وہ ایک مذاق تھا، دوسری بار میں ایک مشورہ اور تیسری بار میں ایک مداخلت۔ لیکن اس لمحے وہ کسی سے مخاطب نہیں تھی، نہ گلزار سے، نہ سوشل میڈیا کی چیختی چہکار سے، بلکہ خود سے۔ اس کے اندر ایک آواز ابھری، دھیمی، مدھم، جیسے کوئی پرانی دراڑ سے ہوا اندر آ رہی ہو: "کیا تم واقعی محفوظ ہو، ریحانہ؟"

یہ وہ لمحہ تھا جہاں قصہ حال سے پھسل کر ماضی کے دھندلے دریچوں میں داخل ہوا، ماضی جو نہ مکمل یاد ہے نہ مکمل بھول۔ ژوب کی گلیاں، نیم روشن راہداریاں، وہ کمروں میں چھپ کر بیٹھنے والی عورتیں جو صرف قریبی دفتری ملازمین کے ساتھ وقت طے کرکے بات کر سکتی تھیں اور ان میں سے ایک، پروین۔ نہیں، وہ پروین نہیں جو اخبارات کی سرخیوں میں آئی، وہ پروین جو صرف عورتوں کی خاموش یادداشت میں زندہ ہے، وہ جسے کبھی مکمل طور پر کوئی جان نہ سکا، نہ تصویروں میں، نہ تقریروں میں، بس اُس کے وجود کی خبر تھی کہ وہ عورتوں کے وراثتی حق کے لیے لڑتی ہے، سنگل مدرز کے لیے اداروں کے دروازے کھٹکھٹاتی ہے، پردے میں رہتی ہے، بولتی کم ہے، مگر لکھتی ہے، ریکارڈ رکھتی ہے اور وہ ریکارڈ، وہ فائلیں، وہ تحریریں کسی نہ کسی دن کسی مرد کو غیرت پر لگا دیتی ہیں۔

ریحانہ نے اپنے ذہن میں پروین کی آخری ملاقات کو یاد کیا، کچھ زیادہ یاد نہ تھا، بس ایک سائے جیسا تاثر، ایک مضبوط نسوانی آواز جس نے کہا تھا: "ریحانہ، خاموشی سب سے تیز ہتھیار ہے، مگر سب سے بےوفا بھی یہی ہے" اور وہی پروین، ایک دن اچانک "قتل" ہوگئی، غیرت کے نام پر، حالانکہ اس کی زندگی میں نہ کوئی دکھاوہ تھا، نہ کوئی عوامی منظر، وہ تو بس قبیلے کے دائرے میں رہ کر، قبیلے کے خلاف بولنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ کیسا تضاد تھا کہ تم قبیلے کے خیمے سے باہر نہ نکلو، لیکن قبیلہ تمہیں پھر بھی مار دے۔

ریحانہ اب اپنے کمرے میں خاموش کھڑی ہے، فون کی اسکرین پر گلزار کا جملہ جیسے ایک زہریلی بیل کی طرح پھیل رہا ہے اور وہ خود کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے: "یہ وہ گلزار تو نہیں ہو سکتا جس نے میرے ساتھ عاصمہ جہانگیر کی تحریریں پڑھی تھیں، جس نے میرے ساتھ گیاتری اسپیویک کی زبان کی سیاست پر بحث کی تھی، جس نے مجھے سسٹر ان آرمز، کہا تھا، تو پھر یہ جملہ کہاں سے آیا؟ کیا علم اتنا ہی کمزور ہوتا ہے؟ کیا نظریاتی مرد اتنے غیر شعوری ہوتے ہیں؟ یا شاید میں نے ہی اسے کچھ زیادہ سمجھ لیا؟"

وہ ابھی جواب میں کچھ لکھنا نہیں چاہتی۔ وہ سمجھنا چاہتی ہے کہ آیا یہ لمحہ، یہ تبصرہ، یہ کرب، صرف اس کا ردعمل ہے یا ایک تاریخی دھارا ہے جو عورتوں کے خلاف مسلسل بہتا آ رہا ہے۔ وہ محسوس کرتی ہے کہ پروین کی کہانی، اس کا خاموش قتل، اس کی زندگی کی فائلیں، اس کے کندھوں پر آ چکی ہیں، جیسے اس کی جگہ اب ریحانہ ہے، وہ ریحانہ جو نہ مرنے کو تیار ہے، نہ خاموش رہنے کو۔

کہانی کا راوی یہاں آکر کچھ دیر کے لیے خاموش ہوجاتا ہے اور اپنے آپ سے سوال کرتا ہے:

کیا میں اب اس کہانی کا دوسرا حصہ لکھوں؟ اس میں کہانی آگے بڑھے گی-

اس کے اندر سے آواز آتی ہے، لکھو، ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے -

کہانی یہاں پر وہ موڑ لیتی ہے جہاں ہم ریحانہ کا مکمل ردعمل دیکھتے ہیں اور گلزار کا اندرونی مونولاگ اور ایک ایسی فکری تصادم جس میں کوئی مکمل درست نہیں، کوئی مکمل خطا پر نہیں، صرف خاموشیاں اور سوال باقی رہ جاتے ہیں۔

گلزار نے جب وہ جملہ لکھا تھا تو اسے لگا تھا کہ وہ محض ایک ہنسی کا تاثر دے رہا ہے، ایک دوستانہ لہر، ایک شگفتہ سی چمک، جیسے اکثر ہم ان لوگوں کے لیے محسوس کرتے ہیں جو ہماری زندگی کا کوئی غیر رسمی، مگر اہم سا جزو بن جاتے ہیں۔ مگر اب، تین دن گزرنے کے بعد، جب ریحانہ کی طرف سے نہ کوئی ردعمل آیا، نہ کوئی خفگی، نہ ناراضی، صرف خاموشی۔

تو اس نے پہلی بار سوچا کہ شاید وہ جسے "شگفتہ چمک" سمجھ رہا تھا، وہ کسی کے لیے بجلی کی چمک بھی ہو سکتی ہے۔ مگر کیسے؟ اس نے تو کوئی حد پار نہیں کی تھی۔ کم از کم اس کے خیال میں نہیں۔ اس کا ذہن بار بار اس جملے کی طرف لوٹتا: "اب اس کے ہاں ایک دوست اور بنانے کی گنجائش ہے"، کیا واقعی اس میں کچھ ایسا تھا جس سے تکلیف پہنچے؟ کیا ریحانہ نے اس جملے میں کچھ وہ سنا جو گلزار نے کہنے کا سوچا ہی نہیں تھا؟

وہ خود سے کہانی کا پلاٹ ترتیب دینے لگا، جیسے کوئی قاری ہو، یا شاید مصنف، جو اپنے ہی کرداروں سے اجنبی ہو چکا ہو۔ "کیا یہ کہانی ہے؟ یا محض ایک ردعمل؟ یا شاید ایک اچانک پیدا ہو جانے والی پرت، جو خود میری لاعلمی سے بُنی گئی؟"

وہ خود کو ریحانہ کے ساتھ ہوئی اس داخلی کشمکش کا مجرم نہیں سمجھتا تھا، لیکن اس نے اب محسوس کیا کہ وہ معصوم بھی نہیں۔ اس کا علم، اس کا شعور، اس کی "مردانہ حساسیت"، سب وہ لباس تھے جو کسی لمحے میں، کسی تناظر میں، عریاں ہو سکتے تھے۔

اس کے ذہن میں ریحانہ کی وہ مسکراہٹ ابھری جو ویڈیو میں تھی، وہ مسکراہٹ جو زندگی کی واپسی کی علامت تھی۔ "Alive"، وہ لفظ اسے اب ایک سادہ دعویٰ نہیں، ایک عوامی اعلان لگا۔ ایک عورت کا اعلان کہ وہ نہ صرف موجود ہے بلکہ نظر آنے کے لیے موجود ہے اور شاید وہی نظر آنا، وہی ظاہری کیفیت، اس کے جملے کی بنیاد بنا اور یہی وہ لمحہ تھا جب گلزار نے کہانی کے اندر ایک اور کہانی تلاش کی۔

وہ ماضی کی بے شمار گفتگوؤں میں جھانکنے لگا۔ ریحانہ کے ساتھ ہونے والی رات کی وہ بحث جب وہ عاصمہ جہانگیر کے عدالتوں میں سہم کر کھڑی رہنے کی بات کر رہی تھی، یا جب وہ فیمنزم کی داخلی تضادات پر بات کرتے کرتے خاموش ہوگئی تھی اور کہا تھا: "ہم عورتیں ہر وقت بیک فُٹ پر ہوتی ہیں، چاہے ہمیں کتنے ہی الفاظ آتے ہوں"۔

تب گلزار کو لگا تھا کہ وہ محض ریورسل کی بات کر رہی ہے، اب اسے لگا جیسے وہ اپنی ذات کا اعلان کر رہی تھی۔

اب وہ جانتا تھا، وہ جملہ محض جملہ نہیں تھا، یہ ایک چھوٹا سا ٹکٹ تھا جس سے کسی عورت کے وقار کی سرحد میں بے دھیانی سے داخل ہوا جا سکتا تھا۔ وہ یہ سب سوچتے ہوئے خود سے کہانی بنانے لگا:

"فرض کرو میں نے وہ جملہ نہ لکھا ہوتا، کیا تب بھی ہماری بات وہیں پہنچتی؟ یا فرض کرو میں نے وہ جملہ دل سے لکھا ہوتا، تب بھی یہی ہوتا؟ یا کیا یہ سب میری نیت پر نہیں بلکہ سماجی طاقت کی ساخت پر مبنی ردعمل تھا؟"

یہ وہ لمحہ تھا جب گلزار نے خود کو بطور کردار شناخت کیا، ایک مرد کردار جو روشن خیالی کی تعلیم پاتا ہے، مگر اپنی جگہ سے کبھی ہٹ کر نہیں دیکھتا۔

اسی رات ریحانہ نے اس کا پیغام کھولا، جو اس نے شام کو بھیجا تھا: "تم ناراض ہو؟ میں مذاق کر رہا تھا، سنجیدہ نہیں تھا"۔

ریحانہ نے جواب میں کچھ نہیں لکھا، لیکن خود سے وہ دوبارہ بولنے لگی، جیسے خود سے ہی وضاحت مانگ رہی ہو، جیسے اندر ایک راوی بیٹھا ہو جو مسلسل اُس کے اندر کی کہانی لکھ رہا ہو: "گلزار مذاق کر رہا تھا۔ گلزار مذاق کر رہا تھا۔ جیسے اس قبیلے کے وہ مرد مذاق میں لڑکیوں کے رشتے طے کر دیتے تھے، مذاق میں تعلیم چھین لیتے تھے اور مذاق میں غیرت کے نام پر قتل کرتے تھے"۔

اسے پروین یاد آ گئی۔ وہ لمحہ، وہ پہاڑی گاؤں، وہ دوپہر جب پروین نے ایک چھوٹے سے کمرے میں اسے وہ فائلیں دکھائی تھیں جن میں عورتوں کے جائیداد کے کیسز تھے۔ پروین نے سر پر دوپٹہ سختی سے لپیٹا ہوا تھا، آواز دبے دبے لہجے میں چلتی تھی، مگر اس کی آنکھوں میں چمک تھی، وہ چمک جو اب ریحانہ اپنی ویڈیو میں محسوس کرتی تھی۔ پروین نے کہا تھا: "جب کوئی عورت خود کو ثابت کرتی ہے، تو وہ خاندان کی ملکیت سے باہر نکل جاتی ہے اور یہی قبیلے کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوتا ہے"۔

پروین اب نہیں تھی۔ ایک دن کسی خاندانی تنازعے، کسی بھائی یا چچا کے "غیرت" سے بھرے فیصلے میں گولی چلی تھی اور اب، وہ گولی صرف پروین کے جسم میں نہیں بلکہ ہر اُس عورت کے ذہن میں پیوست تھی جو نظر آنے کی ہمت کرتی ہے۔

ریحانہ کو یقین ہوگیا تھا کہ گلزار اُس نظام کا پرزہ نہیں، لیکن اس کا وارث ضرور ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ گلزار کو نہ معاف کرے گی، نہ دشمن سمجھے گی۔ وہ بس اس جملے کو اپنے حصے کی تاریخ سمجھ کر آگے بڑھ جائے گی۔ کیونکہ کہانیاں آگے بڑھتی ہیں، کردار مکمل نہیں ہوتے اور بعض اوقات وہ جملے جو ہمیں چھوٹا کرتے ہیں، ہمیں بلند کرنے کا پہلا قدم بن جاتے ہیں۔

جب کسی جملے کا مطلب صرف وہ نہیں ہوتا جو لکھا گیا ہو اور جب لفظ اس شخص سے الگ کھڑے ہو جائیں جس نے انہیں ادا کیا ہو، تب کہانی جنم نہیں لیتی، پھٹتی ہے۔ جیسے کوئی ان دیکھے مقام پر دفن بارود ہو اور کوئی معمولی سی لغزش اسے دہکا دے۔ ایسا ہی کچھ اس دن ہوا جب ریحانہ کے "زندہ" ہونے کا اعلان ایک مبہم، نیم شریر مسکراہٹ والے تبصرے کے زیرِ اثر سرِعام سوال بن گیا۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی، یہاں تو کہانی کا مادہ بدلا، زبان کا سانچہ ہلا اور کردار اپنی لکھی ہوئی سطروں سے باہر آ کھڑے ہوئے۔

ریحانہ نے جب وہ طویل پوسٹ لکھی، جس میں نہ صرف ایک مرد کا رویہ بلکہ سماج کی فکری دوغلا پن، ادبی برتری کے پردے میں موجود اخلاقی کجی اور عورت کی مسلسل مشروط قبولیت کو چیلنج کیا گیا، تو وہ صرف گلزار کو مخاطب نہیں کر رہی تھی، وہ اس قاری کو بھی مخاطب کر رہی تھی جو کہانی میں داخل تو ہوتا ہے مگر مکمل ذمے داری سے باہر رہتا ہے۔ وہ پوسٹ ایک چیخ نہیں تھی، نہ کوئی مزاحمتی نعرہ، وہ بیانیہ کی ایک دراڑ تھی جس سے اندر کی سب پرتیں باہر نکلنے لگیں۔

"گلزار"، ریحانہ نے اس نام کو باقاعدہ پکارا، جیسے کسی کردار کو صفحے سے نکال کر آئینے کے سامنے کھڑا کر دیا ہو۔ وہ نام جو کبھی "بھائی"، "نظریاتی ساتھی"، "دوست" کی آڑ میں ایک محفوظ شناخت تھا، اب اس پر طنز کا عکس پڑ چکا تھا اور طنز بھی وہ جو تحقیر میں لپٹا نہیں، تنقید کے اس شعور میں ابھرا تھا جس کا جواز زندگی دیتی ہے، تنہائی دیتی ہے اور بار بار دی گئی رعایتیں دیتی ہیں۔

ریحانہ کو اس تحریر میں غصے سے زیادہ ایک تاریخی صبر کی شکست لکھنی تھی، وہ صبر جو برسوں سے مردانہ حساسیت کی تعلیم سن کر باندھ رکھا تھا۔ اس نے صاف کہا، کہ گلزار کی ذہانت اس کی تحریروں میں تو تھی، مگر اس کے اندر کی سوچ میں نہیں۔ وہ سچ کہہ گئی کہ "آپ کا وہ کمنٹ آپ کی ذہنی پستی اور چھوٹی سوچ کی گواہی ہے"، مگر پھر بھی کہانی وہیں نہیں رکتی۔

کیونکہ جب ریحانہ نے آخر میں لکھا: "آپ میری نظر سے گر چکے ہیں۔ خوش رہیں، اگر اس بوجھ کے ساتھ جی سکیں"۔

تو یہ جملہ محض انتقامی اعلان نہیں، کہانی کے لیے دروازے کی آخری کنڈی کھولنے جیسا تھا۔ اب ہم اس کہانی میں داخل ہو چکے تھے جس کا قاری صرف گلزار یا ریحانہ نہیں، سماج خود ہے اور ہم سب ہیں۔

اسی لمحے، کچھ فاصلے پر، گلزار نے اس تحریر کو پڑھا۔ نہیں، پڑھا نہیں، سہا۔ جیسے کوئی شخص خود کو آئینے میں دیکھ لے اور وہ عکس اسے آشنا نہ لگے۔ گلزار، جو خود کو ہمیشہ تحریری ثقافت کا آدمی سمجھتا تھا، آج تحریر کا موضوع بن چکا تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ جواب دے، صفائی دے، کہے کہ نیت کچھ اور تھی، لہجہ نرم تھا، مگر یہ سب کہنا ایسا ہی تھا جیسے تاریخ کے صفحے پر نوٹ لکھنے کی کوشش، وہ صفحہ جو خون سے سیاہ ہو چکا ہو۔

وہ اب اس کہانی کو سمجھ رہا تھا، لیکن سمجھنے میں تاخیر بھی ایک طرح کی گمراہی ہوتی ہے۔

اسے یاد آیا، ایک بار ریحانہ نے کہا تھا: "تم جانتے ہو، عورت کو جب لفظوں سے زخمی کیا جاتا ہے تو وہ فوراً چیختی نہیں، وہ اندر ہی اندر کوئی چھوٹی کہانی لکھنے لگتی ہے اور کبھی کبھی وہ کہانی تمہارے سامنے آ کر تمہیں اَن فالو کر دیتی ہے"۔

ریحانہ نے وہ پوسٹ کرکے کوئی دروازہ بند نہیں کیا تھا، اس نے ایک نئی راہداری کھولی تھی، جس میں ہر عورت اپنا ایک سچ لے کر گزر سکتی تھی اور ہر مرد، جو خود کو ساتھی سمجھتا تھا، اس راہداری میں پڑی روشنی اور سائے کو پہچان کر اپنا مقام تلاش کر سکتا تھا۔

اب ریحانہ خاموش تھی۔ نہ ردعمل، نہ صفائی، نہ معافی کا انتظار۔ کیونکہ اس کی تحریر نے اسے ایک کردار سے مؤلف میں بدل دیا تھا اور مؤلف جانتا ہے کہ کہانی کہاں رُکنی ہے اور کب قاری کو خود لکھنے دینا ہے۔