1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد اشتیاق/
  4. فائز عیسٰی، نشانے پہ

فائز عیسٰی، نشانے پہ

جسٹس فائز عیسیٰ نے دھرنہ کیس میں افواج کے ملازمین کو ملوث قرار دیاتھا۔ اس فیصلے میں تنیوں افواج کے سربراہان کوکہا گیا کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ان ملازمین کی تفتیش کریں اوران کے خلاف ایکشن لیں تا کہ ان اداروں کا امیج بہتر ہو سکے۔ ان اداروں کو سیاسی سرگرمیوں سے بالاتر ہو کہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانی چاہیں۔
اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست جسٹس فائز عیسٰی اور ان کے ساتھی جج کے سامنے ہی پیش ہونی ہے۔ جس کی تاریخ کا فیصلہ چیف جسٹس نے کرنا ہے۔ جس کا فیصلہ ابھی تک چیف جسٹس نے نہیں کیا۔
اس دوران ایک پیش رفت یہ سننے میں آ رہی ہے کہ جسٹس فائز عیسٰی کے خلاف جوڈیشیل کونسل میں ایک ریفرنس دائر ہو گیا ہے۔ ابھی اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اگر یہ ریفرنس دائر ہوتا ہے تو شائد وہ اس نظر ثانی والی درخواست کو نہ سن سکیں۔ اس طرح بالا دست اداروں کے ان اہلکاروں کے خلاف کار روائی رک جائے گی جو سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی زیرو زبر میں ملوث ہیں۔
لگتا ہے کہ دفاعی اداروں کے سربراہان نے ان کی پوری نہیں سنی۔ انہوں نے جو ایکشن لینے کا کہا تھا وہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف تھا نہ کہ سیاسی گرمیوں میں ملوث نہ ہونے والے ججوں کے خلاف۔ بات پوری نہ سنے جانے کی وجہ سے فائز عیسٰی خود زد میں آگئے ہیں کہ وہ بھی سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے میں آلہ کار بننے سے انکاری رہے ہیں۔ موجودہ دور میں جو دھرنہ ون (انگلی والا) سے شروع ہوا ہے یہ بات طے پا چکی ہے کہ آپ جج بن کے سیاسی ایجنڈے یا "انتظامی یا عسکری " ایجنڈا کہیں تو زیادہ مناسب ہو گا کو آگے بڑھا کے تو "باعزت" ریٹائر ہو کہ کسی بیرون ملک کی شہریت بھی لے سکتے ہیں لیکن غیر جانبدار یا آئینی بنیادوں پہ حقیقی فیصلے کر کے اس ملک میں "باعزت " نہیں رہ سکتے۔
جسٹس شوکت صدیقی نے اس سے زیادہ سنگین الزامات ایک حاضر سروس جنرل پہ لگائے لیکن ان کے الزامات پہ کمیشن بنانے کی بجائے ان کو جوڈیشیل کونسل کے ذریعے فارغ کر دیا گیا۔ کیا ان کے الزامات کی تحقیق نہیں ہونی چاہیے تھی؟ یہاں "گائے پلاٹ" میں گھسنے کی تحقیق کے لئے انکوائری کمیٹی بن جاتی ہے لیکن "گائے" قانون میں گھسنےپہ انکوائری کمیٹی نہیں بن سکتی۔ اس سے زیادہ اس ملک میں قانون اور آئین کی بے حرمتی کیا ہوگی۔
شائد جو لوگ اداروں کی سیاست میں مداخلت کو غلط کہتے ہیں وہ غلط ہیں۔ اداروں کو ہدایات دینا کہ وہ اپنے آپ کو سیاست سے پاک ہیں۔ یہی غلطی ہے۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ کیا ادارے اپنے آپ کو سیاست سے پاک کرنا چاہتے ہیں، کیا ان کو اس مداخلت سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ ایک سابق چیف کے بارے خبر ہے کہ اس نے آسٹریلیا میں ایک جزیرہ خریدا ہے۔ ملک سے باہر اثاثوں میں پتہ نہیں اس کا شمار ہوتا ہے کہ نہیں
اس سارے قصے میں سب سے دلچسپ کردار حکومت کا ہے اگر آپ اس کو حکومت کہنا چاہیں تو۔ پالیسی اور کسی ویژن کے بغیر، ریاست کی آئینی پابندیوں کے ادراک کے بنا، خود پسندوں اور بدکردار افراد پہ مشتمل ایک کٹھ پتلی ٹولہ ہے جس کو حکومت کرنا آسان لگ رہی ہے۔ وہ حکومت جو اتنی بھاری ذمہ داری ہے کہ جس کے ملنے پہ عمر بن عبدالعزیز روتے ہوئے بستر میں گھس گئے تھے۔ (معافی چاہتا ہوں اتنی بڑی شخصیت کا ذکر ان پست لوگوں ک ساتھ کرنے پہ )۔ ان کو حکومت آسان لگ رہی ہے کیونکہ ان کو کچھ کرنا ہی نہیں صرف "انگلی " کے اشارے پہ گیند اٹھا کہ لانی ہے۔ معیشت اور خزانہ آئی ایم ایف نے چلانا ہے اور باقی کام۔ ۔ ۔
ویسے اس دفعہ گیند اٹھانے کے لئے اشارہ جوڈیشیل کونسل کی طرف ہے۔ دیکھیں حکومت گیند اٹھانے کب پہنچتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان سے بہادر وزیر اعظم اس مملکت کے نصیب میں پہلے کبھی نہیں رہا۔ جونیجو بھی نہیں اور ظفراللہ خان جمالی بھی نہیں۔

محمد اشتیاق

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔