1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد اشتیاق
  4. عین جالوت - مظفر الدین القطز (6)

عین جالوت - مظفر الدین القطز (6)

سرد ہوا، کرغیز کے میدانوں میں ہَمہ وقت سرسراتی رہتی تھی، لیکن اُس صبح کی ہوا میں ایک اور طرح کی خنکی تھی، جیسے زمین خود سانس روکے کسی فیصلے کی منتظر ہو۔ ایک وسیع میدان کے بیچ، مشک و عنبر سے آراستہ خیمہ نصب تھا، جس کے اوپر منگولی سلطنت کا زریں پرچم لہرا رہا تھا۔ یہ خیمہ عام خیمہ نہ تھا، یہ ہلاکو خان کا خیمہ تھا، بغداد کے قاتل، شام کے جلاد اور سلطنتِ منگول کے سب سے بااثر سپہ سالار کا۔

خیمے کے اندر قالین ایسے بچھے تھے جیسے دریاؤں کی روانی کو قید کر لیا گیا ہو اور دیواروں پر جڑے شیر، گھوڑے، نیزے اور جلتے ہوئے شہر کے منقش مناظر ہلاکو کی فتوحات کی گواہی دے رہے تھے۔ خاقانِ اعظم منگے خان کی وفات کو ابھی چند ہفتے ہی گزرے تھے اور اب تمام منگول سردار، بورجیگین خاندان کے خان، نوین اور امیر، ایک بڑی سیاسی مجلس کورولتائی میں جمع ہونے والے تھے، تاکہ اگلا عظیم خان چُنا جا سکے۔

ہلاکو خیمے کے بیچ کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر وہی جلال تھا جس نے ہزاروں شہر ویران کیے تھے، لیکن آنکھوں میں ایک سایہ بھی، بھائی کی موت کا سایا۔

"منگے خان۔۔ خاقانوں کا خاقان، وہ نہ صرف میرا بھائی تھا، وہ سلطنت کی چھتری تھا"۔

ہلاکو نے آہستہ سے کہا، جیسے خود سے مخاطب ہو، "اب کون؟"

قریب بیٹھا اُس کا خاص مشیر، یلغوچو نوین، خاموش رہا۔ خیمے کے اندر ہَوا جیسے لمحہ بھر کو رک گئی ہو۔

وہ آہستگی سے بولا: "کیا قبلائی خان؟ وہ ذہین ہے، حکمت رکھتا ہے۔ منگے کے بعد اگر کسی نے چین کو اپنی مٹھی میں لیا، تو وہ قبلائی ہے۔ اُس نے چینی درباریوں سے علم حاصل کیا، بدھ راہبوں سے رواداری سیکھی اور تجارت کا دروازہ کھولا، لیکن"۔۔

ہلاکو کے لہجے میں ہچکچاہٹ تھی، جیسے اندر ایک تضاد بول رہا ہو۔

"لیکن چین کی نرم چادر، منگول خون کو سست کر دیتی ہے۔ تم نے اُس کا دربار دیکھا ہے، یلغوچو؟ وہاں گھوڑے کے سم کی جگہ خوشبو والے پنکھے جھلتے ہیں اور مٹی کی خوشبو کی جگہ ریشمی قالینوں کی باس ہے"۔

یلغوچو ہلکے سے مسکرایا، "لیکن اُسے عوام پسند کرتے ہیں، خاقان"۔

ہلاکو نے تیزی سے جواب دیا، "عوام کا کیا ہے؟ وہ جس کے ہاتھ میں طاقت ہو، اُسی کے سائے میں سجدہ کرتے ہیں۔ لیکن قبلائی خان، وہ منگول تو ہے، پر وہ منگولیت سے دور ہوتا جا رہا ہے"۔

یلغوچو نے نرمی سے کہا، "شاید وہی تو منگول سلطنت کا مستقبل ہے، تلوار کے بعد قلم، آگ کے بعد نظم"۔

ہلاکو نے اس کی طرف دیکھا، آنکھوں میں سرد روشنی چمکی۔

"ہماری سلطنت کو نظم نہیں، خوف نے جوڑا ہے۔ تم قبلائی کو خاقان بنا دو، کل وہ ختن (چینی وزیر) کو اپنا وُزیرِ اعظم بنا دے گا اور کیا پتہ، اگلے برس چنگیز خان کی تصویر کے ساتھ بدھ کی مورتی بھی دربار میں سجا دے"۔

یلغوچو خاموش ہوگیا۔ ہلاکو کی آواز میں اب برف تھی۔

"منگول خون میں جو گرمی ہے، وہ میدانِ جنگ سے آتی ہے، نہ کہ چینی شاعری سے۔ اگر قبلائی خان تخت پر بیٹھا، تو ایک نسل بعد منگول گھوڑے صرف تصویروں میں نظر آئیں گے اور ہمارے سپاہی صرف محافظ بن کے رہ جائیں گے"۔

یہ کہہ کر ہلاکو نے مشیر کی طرف دیکھا، جیسے آخری فیصلہ سنانا چاہتا ہو۔

"قبلائی کو میں بھائی مانتا ہوں، لیکن میں اُسے اپنا خاقان ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں"۔

ہلاکو نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد مشیر کی طرف دیکھا، جیسے اُس کے اندر کوئی اور سوال کلبلانے لگا ہو۔

"اور اگر قبلائی نہیں، تو کیا ایرق بوقا؟"

یلغوچو نے ہلکی سانس لی، "منگے خان کا چھوٹا بھائی اور شاید سب سے زیادہ، منگول"۔

ہلاکو نے نیم رضامندی سے سر ہلایا، "ہاں، وہ اونچی فصیلوں سے نفرت کرتا ہے۔ ریشمی لباس سے بیزار ہے۔ اونٹ کی پشت اور گھوڑے کی ننگی پیٹھ کو شاہی تخت سے بہتر سمجھتا ہے"۔

یلغوچو بولا، "اور سب سے بڑھ کر، کسگ (منگولی دستور) کا محافظ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم نے چنگیز خان کے قانون کو بدلنا شروع کیا تو ہمارے خیمے بھی کمزور ہو جائیں گے"۔

ہلاکو نے سر ہلایا، "یہی وجہ ہے کہ منگول سپہ سالار، خاص طور پر جو مغربی محاذ پر ہیں، اُس کے حامی ہو سکتے ہیں"۔

پھر اس کی آواز میں سرد مہری اُتری۔

"لیکن ایرق بوقا کے ساتھ ایک مسئلہ ہے، وہ زیادہ بولتا ہے، کم سوچتا ہے۔ اُس کا جذبہ ہمارے لیے طاقت ہو سکتا ہے، مگر اُس کی انا، وہ کبھی کبھی قبیلے کو نگل جاتی ہے"۔

یلغوچو دھیرے سے بولا، "خاقان، اگر تخت صرف بہادری اور غیرت سے چلتا، تو اوگادائی خان کی اولاد آج بھی سب سے آگے ہوتی"۔

ہلاکو کا چہرہ سنجیدہ ہوگیا۔

"اوگادائی کے بیٹے، گوڑم، کاشی، وہ ابھی تک ماضی کے سایوں میں رہتے ہیں۔ اُن کے اندر چنگیز خان کا غرور تو ہے، لیکن وہ زمانہ گزر چکا جس میں غرور سے سلطنتیں چلتی تھیں"۔

پھر ہلاکو نے آنکھیں تنگ کرکے کہا: "لیکن سب سے بڑا خطرہ، برکے ہے"۔

یلغوچو چونک گیا، "آلتن اورڈا (گولڈن ہورڈ) کا خان؟"

"ہاں، جوشی کی اولاد۔ وہ اسلام قبول کر چکا ہے اور اسے میرے فتوحات پر رشک نہیں، نفرت ہے"۔

"خاقان، برکے۔۔ جوشی کا بیٹا۔۔ وہ تو خاندان کا حصہ ہے، پھر بھی آپ اس سے یوں؟"

ہلاکو نے تیز نظر سے مشیر کی طرف دیکھا۔

"خاندان؟ وہ منگول خون کے نام پر خنجر اُٹھا چکا ہے۔ اُس نے اسلام قبول کرکے خود کو قبیلے سے نہیں، خاقانی دستور سے کاٹ لیا ہے"۔

یلغوچو نے آہستہ سے کہا، "وہ بغداد کی تباہی کے بعد سخت نالاں ہے۔ کہتے ہیں اُس نے خلیفہ کی موت کو، خاقانی گناہ قرار دیا ہے"۔

ہلاکو کی مٹھی سخت بند ہوئی۔

"گناہ؟ وہ اسلام کے نام پر بات کرتا ہے، مگر بھولتا ہے کہ اُس کا جد، جوشی، کبھی میرے باپ تولوی کے سامنے سر جھکائے کھڑا رہتا تھا اور اب اُس کا بیٹا میری فتوحات کو، فساد کہتا ہے؟"

یلغوچو نے جھجکتے ہوئے کہا، "برکے کا لشکر بھی اب قفقاز کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سنا ہے، وہ کیپچک اور ولگا کے دریا کنارے اپنی فوجیں جمع کر رہا ہے"۔

ہلاکو کی آواز میں طیش اُمڈنے لگا، "اگر وہ میری راہوں میں آیا۔۔ تو میں اسلام کے نام پر چڑھے اُس خیمے کو ایسا روندوں گا کہ پھر کوئی خلیفہ، کوئی ملا، منگول کے مقابلے میں خدا کی بات نہ کرے"۔

پھر لمحہ بھر کو رُک کر، ہلاکو نے دانت بھینچے: "اگر میں مصر پر حملہ نہ کر رہا ہوتا۔۔ تو سب سے پہلے میں دریا کے اس پار جاتا، برکے کو بتانے، کہ بھائی کی محبت خاقانی تاج سے کم تر نہیں، لیکن۔۔ غداری کا جواب صرف ایک ہوتا ہے۔ تلوار"۔

یلغوچو نوین نے نرمی سے سر جھکا لیا۔

"خاقان، شاید وہ وقت بھی آئے گا۔۔ جب ہلاکو اور برکے، منگول تاریخ کا پہلا خانہ جنگی لکھیں گے اور شاید آخری بھی"۔

ہلاکو نے آسمان کی طرف نگاہ کی۔

"چنگیز خان کی روح دیکھ رہی ہوگی، بیٹے ایک دوسرے کے خلاف۔ لیکن میں قسم کھاتا ہوں، میرا نیزہ کبھی پیچھے نہ ہٹے گا۔ چاہے وہ دشمن مصر ہو، یا میرا اپنا خون"۔

شاہی خیمے کے اندر اُس وقت ہوا جیسے ٹھہر گئی تھی۔ چمڑے اور ریشم سے آراستہ دیواروں پر چنگیزی نشان لہرا رہے تھے، مگر وہ بھی ساکت تھے، گویا جان چکے ہوں کہ بولا گیا کوئی لفظ طوفان کے بند توڑ سکتا ہے۔ اس کی نظریں دور خالی خلا میں تھیں، لیکن اس کی سانسیں ایک آتش فشاں کی طرح اندر ہی اندر دہک رہی تھیں۔

کورولتائی میں بہت بڑا فیصلہ ہونا تھا اور صورت حال کا اندازہ کرنا بہت مشکل تھا۔ منگول خان اور شہزادے طاقتور ہو چکے تھے۔ روایات بدل رہی تھیں اگرچہ ہر کوئی اپنے حساب سے روایات قائم رکھنے میں لگا تھا۔ اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے وہ معمول کے برعکس، اپنے ساتھ سلطنت کے بہترین حصے کو لے کر جا رہا تھا، وہی فوج جس نے بغداد کو خاک کیا، وہی سپاہ جو دجلہ کو سیاہ کر گئی تھی۔ قاہرہ، شام اور فلسطین کے ساحلوں پر کتبغا نوین کے ہاتھ میں صرف بیس ہزار نخبہ جنگجو چھوڑے گئے، باقی سب، ہلاکو کے ساتھ کورولتائی کی عظیم شاہراہ پر تھے۔

اور پھر۔

خیمے کی پردہ نما دروازے کو چیرتا ہوا ایک قاصد، گرد سے اٹا ہوا، دھول سے لپٹا، جیسے کئی دنوں کی نیند اس کی آنکھوں سے چھین لی گئی ہو۔ وہ جیسے ہی خیمے کے وسط میں پہنچا، اس نے کپکپاتی آواز میں کہا: "خاقانِ اعظم! قاہرہ میں آپ کے ایلچی قتل کر دیے گئے ہیں۔ ان کے سروں کو نیزوں پر چڑھا کر شہر کی فصیلوں پر لٹکا دیا گیا ہے"۔

خیمے میں جیسے وقت تھم گیا۔

ہلاکو کی مٹھی میں تھامی ہوئی شراب کی پیالہ اس کے ہاتھ سے نکل کر زمین پر آگری۔ قالین پر پھیلی سرخی، کسی شہر کے بہتے لہو کی تصویر بن گئی۔

ایک لمحہ، دو لمحے، سناٹا۔ پھر ہلاکو کے اندر سے دہکتا ہوا آتش فشاں پھٹا۔

"قطز؟" اُس کی آواز خیمے کے چھت سے ٹکرا کر لوٹی، "تم نے میری زبان کے سروں کو کاٹ دیا؟ میرے ایلچی؟ منگول ایلچی۔ چنگیز خان کے خون نے اُن کو حرمت دی تھی اور تم نے اُن کی گردنیں کاٹ دیں؟"

اُس کا قدم زمین پر ایسے پڑا کہ فرش ہل گیا۔ خیمے میں موجود ہر سردار، ہر افسر، ہر محافظ نے اپنی گردن جھکا لی۔

"ہلاکو جھکا، اس کی آواز زہر کی مانند ٹپکی، "فوراً کتبغا کو میرا پیغام پہنچا دو۔ قاہرہ کو مٹا دے۔ اس کے میناروں کو زمین میں دفن کر دے۔ اس کے دریا خون سے بھر دے۔ مسجد ہو یا قلعہ، آدمی ہو یا بچہ، سب کو روند دے"۔

اس کی آنکھیں شعلہ بن چکی تھیں۔

"اور قطز۔۔ " اُس نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا، "اگر وہ میری تلواروں سے بچ گیا، تو اُس کی کھوپڑی سونے کے پیالے میں بھر کر میرے سامنے رکھی جائے گی۔ وہ میری توہین کی قیمت اپنے آخری سانس سے چکائے گا"۔

خیمے کی فضا اب آگ بن چکی تھی۔ وہی آگ جو بغداد کی کتابوں کو جلا گئی تھی، وہی شعلہ جو دمشق کے محرابوں میں داخل ہو چکا تھا، اب قاہرہ کے دروازے پر دستک دینے جا رہا تھا۔

اب قاہرہ کی باری تھی۔

محمد اشتیاق

Muhammad Ishtiaq

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔