1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد اشتیاق
  4. عین جالوت - مظفر الدین القطز (5)

عین جالوت - مظفر الدین القطز (5)

سورج کی شعاعیں قاہرہ کے بازار کی گرد آلود فضا میں سنہری دھواں گھول رہی تھیں۔ مٹی سے بھرے راستوں پر قدموں کی چاپ، دکانداروں کی آوازیں اور دوپہر کی حدت میں مدھم پڑتی زندگی، اُس لمحے جیسے ایک مرکز پر جم گئی، چبوترے پر کھڑے ایک داستان گو پر، جس کی آواز میں سنسنی بھی تھی اور سچائی کا خوف بھی۔

"وہ کھوپڑیوں کا مینار بناتے ہیں!"

اس نے ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہوئے کہا۔ "اس کے لیے خاقانِ اعظم چنگیز خان نے خاص ہنرمند رکھے ہوئے ہیں، جن کا فرض ہے دشمنوں کی کھوپڑیاں جلد سے جلد صاف کرکے انہیں ترتیب سے مینار کی صورت چن دینا!"

اس کی آواز جیسے خاموش فضا میں گونج بن کر پھیل گئی۔

"اوووووو۔۔ "

لوگوں میں کچھ نے دہل کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ بعض نے ماتھے پہ ہاتھ مارا، کچھ عورتوں نے لبوں پر انگلی رکھ لی بازار کی گہماگہمی اب محض وحشت کی گونج تھی۔

"وہ ٹڈی دل کی طرح افق پہ نمودار ہوتے ہیں!"

داستان گو نے آنکھیں مٹکا کر آسمان کی طرف دیکھا، "اور پھر۔۔ بستیوں، شہروں، مسجدوں، محلوں، سب کو ریت کے ذروں کی طرح اڑا دیتے ہیں"۔

وہ آگے بڑھا، اپنے ہاتھوں سے منظر تراشتا جیسے سب کچھ اس کے سامنے ہو رہا ہو۔

"ان پہ تلوار اثر نہیں کرتی، ان کے گھوڑے بجلی کی طرح دوڑتے ہیں، وہ نیزوں کی بارش برساتے ہیں، ان کے سپاہی بغیر پلک جھپکائے انسان کا گلا کاٹ دیتے ہیں"۔

داستان گو کی آواز تیز ہوگئی اور مجمعے کے چہروں پر دہشت کی ایک نئی پرت اتر آئی۔ کچھ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ لیکن، اُس لمحے فضا جیسے کچھ چیر کر ٹوٹ گئی۔

ایک تھکا ماندہ گھوڑا بازار میں داخل ہوا۔ اس کے نعلوں کی آواز، سنسنی کی گونج کو چیرتی ہوئی چبوترے کے قریب آ کر رکی۔ سوار کے کپڑے غبار آلود تھے، چہرہ گرد سے ڈھکا تھا، لیکن نگاہیں۔۔ وہ کسی لوہے کی تلوار کی مانند چمک رہی تھیں۔ وہ سوار گھوڑے سے نیچے نہ اترا، لیکن اس کی آواز، جیسے ریگستان میں بادل گرج جائے: "لیکن خوارزم کے بیٹے نے کم تعداد میں ہونے کے باوجود انہیں شکست کیسے دی؟"

سکوت کے اس لمحے میں، یہ سوال کسی بچے نے نہیں، کسی نوجوان نے کیا تھا۔ وہ آواز بیبسی کی نہیں تھی، بلکہ تلاش کی تھی۔

"جلال الدین ایک بہادر جنگجو تھا اور اس نے اپنی فوج میں اتحاد پیدا کرکے ان کو ہرایا۔ لیکن پھر خاقان اعظم خود اس کے مقابلے پہ آیا تو اس کو شکست ہوئی"۔ داستان گو، نے پینترا بدلا۔

"بہادر تھا تو شکست کیوں ہوئی"، کسی نے سوال اٹھایا۔

سوار نے لگام تھام کر گھوڑا چبوترے کے قریب روکا۔ گرد اس کے گرد ہالہ بن کر چھٹنے لگی۔

"کیوں کہ جنگ جیتنے کے لیے صرف بہادری کافی نہیں "، ایک زور دار آواز گونجی۔ گھوڑ سوار چبوترے کے پاس رکا۔ یہ گھوڑ سوار اپنے دستے کے ساتھ ابھی ابھی قاہرہ میں داخل ہوا تھا۔ اٹے ہوئے کپڑے اور تھکے ہوئے گھوڑے لمبے سفر کی داستان سنا رہے تھے۔

"دوست"، اس نے گہرے لہجے میں کہا۔

"جنگ صرف بہادری سے نہیں جیتی جاتی۔ وہ جلال الدین خوارزم ہو یا کوئی اور، جب تک لشکر متحد ہو، ایمان کی بنیاد پر لڑے، تو دنیا کی سب سے بڑی فوجیں بھی کانپتی ہیں"۔

لوگ اب سوار کی طرف متوجہ تھے۔ بازار کا سناٹا عجیب طور پر احترام میں ڈھل رہا تھا۔

"جلال الدین کی فوج جب ایک تھی، تو تاتاریوں کو بھاگنا پڑا۔ جب اس کی صفوں میں فتنہ آیا، تب شکست بھی اس کی مقدر بنی"۔

"تاتاری چالاک ہیں، سبک رفتار ہیں۔ ظالم ہیں لیکن وہ گوشت پوست کے انسان ہیں۔ ان کو تلوار کاٹتی ہے۔ جلال الدین خوارزم شکست خوردہ ہے لیکن اس کی تلوار نے بار بار ان کو کاٹا ہے۔ ہم بھی کاٹ سکتے ہیں لیکن ان کو شکست دینے کے لیے، آخری شکست دینے کے لیے ہمیں اتفاق اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ مصر کے ہر فرد کو تلوار بن جانے کی ضرورت ہے"۔

ابھی سوار کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ ایک شاہی قاصد گھوڑے کو بھگاتا ہوا آگے بڑھا اور گھوڑے سے اُتر کر جھک گیا۔

"امیر رکن الدین بیبرس کو سلطانِ معظم خوش آمدید کہتے ہیں!"

ہجوم جیسے پتھر کا ہوگیا۔

بیبرس؟ وہی بیبرس؟

جن کے نام سے کبھی صلیبی لرزے تھے؟ جنہوں نے منصورہ میں بادشاہ لوئیس نَویں کو قید کیا تھا؟

بیبرس نے گھوڑے کو موڑا۔ قالون اور دیگر ساتھیوں نے اس کے ساتھ صف بندی کی اور شاہی محافظوں کے جلو میں وہ دربارِ قاہرہ کی طرف روانہ ہو گئے۔

بازار کے چبوترے پر، داستان گو کچھ لمحے چپ رہا۔ پھر آہستہ سے بولا: "یہ جنگ اب قصوں سے آگے بڑھ چکی ہے، اب وقت ہے کہ تاریخ لکھی جائے، تلوار کی نوک سے"۔

دربارِ قاہرہ

قاہرہ کے شاہی دربار میں اُس دن کی فضا غیر معمولی تھی۔ دربار کے ستونوں پر چمکتے ہوئے فانوسوں کی روشنی آج کچھ زیادہ تابناک محسوس ہو رہی تھی۔ فرش پر بچھے قالین جیسے برسوں بعد اپنے اصل رنگوں میں واپس آئے ہوں۔ محافظوں کی قطار میں کھڑے سپاہیوں کے سینے تن چکے تھے اور درباریوں کی نظریں بار بار دروازے کی سمت اٹھ رہی تھیں۔

پھر دروازہ کھلا اور وقت تھم سا گیا۔

رکن الدین بیبرس، اس کے ساتھ قالون الصالحی اور چند امرا خاموشی سے دربار میں داخل ہوئے۔ ان کے لباس سفر کی تھکن سے اٹے ہوئے تھے، مگر ان کی پیشانی پر اعتماد اور عزم کا وہ نور تھا جو صرف جنگ کے میدانوں سے پلٹنے والوں کو نصیب ہوتا ہے۔

سلطان سیف الدین قطز اپنے تخت سے کھڑا ہوگیا۔

وہ منظر کسی عام ملاقات کا نہیں تھا۔ یہ تاریخ کے دو دھاروں کا آمنا سامنا تھا۔ دو ایسی شخصیات جو کبھی ایک صف میں تھیں، آج نظریں ملا رہے تھے، مگر ان کے درمیان ایک ماضی کھڑا تھا، اکتائی کا سایہ، شک کی گونج اور آنے والی جنگ کا فیصلہ کن موڑ۔

قطز چند قدم آگے بڑھا، دربار کے سناٹے کو اپنی آواز سے توڑا: "اہلاً و سہلاً، اے اسلام کے سپاہیو، قاہرہ تمہارے قدموں کو خوشبو بخشے!"

اس نے پہلے بیبرس کو، پھر قالون کو گلے سے لگایا۔ وہ بظاہر ایک حکمران کی گرمجوشی تھی، لیکن بغل‌گیری کے لمحے میں بیبرس کے کندھے کی سختی اور قطز کے بازو کا ایک لمحاتی تذبذب، یہ دونوں محسوس کرنے والوں کے لیے بہت کچھ کہہ گئے۔

محل کے بڑے درباری، جرنیل اور درباری خدام حیرت سے یہ مناظر دیکھ رہے تھے۔

بیبرس، جس کا نام ہی میدان جنگ میں فتح کی علامت سمجھا جاتا تھا، آج قاہرہ کے تخت کے سامنے کھڑا تھا، مگر جھکا نہیں تھا۔

قالون کی آنکھوں میں توازن تھا، جیسے وہ ایک پل بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا۔

قطز نے باری باری دونوں کو قیمتی خلعتیں پیش کیں۔ طلائی کڑھائی والے جبے، زمرد جڑی پٹکیاں اور ایک ایسا تمغہ جو صرف خاص امیروں کو دیا جاتا تھا، سب کچھ رسمی بھی تھا اور علامتی بھی۔

دربار کے کونے کونے میں اب سرگوشیاں پھیل چکی تھیں۔

"بیبرس آ گیا ہے، "

"اب منگولوں کی خیر نہیں، "

"قطز نے بڑی چال چلی ہے، "

پھر قطز تخت پر واپس بیٹھا اور بولا: "امیر بیبرس، شام کی خبریں ہمارے کانوں تک پہنچی ہیں، مگر ہمیں وہ حقیقت جاننی ہے جو تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی"۔

بیبرس نے ایک لمحے کو دربار کے حاضرین پر نظر دوڑائی، پھر سیدھا ہو کر، مضبوط آواز میں گویا ہوا: "دمشق۔۔ اب صرف ایک نام ہے، سلطان۔ منگول وہاں کی فصیلوں کو کھا چکے ہیں۔ نصاریٰ نے ناقوس مسجدوں میں نصب کر دیے ہیں اور ناصر؟ ایوبی خون کا وارث، وہ خود منگولوں کے خوف سے شہر چھوڑ کر جا چکا ہے۔ عوام نے اسے نہیں، ہمیں پکارا، لیکن ہم نہ پہنچ سکے"۔

دربار میں سناٹا چھا گیا۔ بیبرس کی آواز میں سچائی کا وہ وزن تھا جس سے نظریں چرا پانا ممکن نہ تھا۔

قالون نے نرمی سے اضافہ کیا: "اب وقت کم ہے، سلطان۔ دشمن کی صفیں ادھوری ہیں، لیکن ان کی نیت پوری ہے۔ ہمیں فیصلہ آج کرنا ہوگا، کل نہیں"۔

قطز نے گہرا سانس لیا اور چند لمحوں تک صرف دربار کی خاموشی بولتی رہی۔ پھر اس کی نظریں بیبرس پر جم گئیں۔

"تو آؤ، رکن الدین۔۔ ایک بار پھر تلوار ہاتھ میں لو۔ میں چاہتا ہوں تم مصر اور مسلمانوں کی اس آخری امید، مجاہدین مصر کی قیادت سنبھالو، ہم منگولوں کو سرزمین شام سے باہر دھکیل کر ان کی تباہی کی بنیاد رکھیں گے۔ میں آج، ابھی سے تمہیں حلب کا امیر بناتا ہوں اور اس جنگ میں اپنا پہلو دار"۔

یہ اعلان سن کر دربار میں جیسے ایک نئی بجلی دوڑ گئی۔ سپاہیوں کے چہرے کھل گئے، درباریوں کی سرگوشیاں اب جوش میں بدل گئیں۔ بیبرس کا قاہرہ میں واپس آنا صرف ایک سیاسی فیصلہ نہیں تھا، یہ اس جنگ کے لیے ایک علامتی فتح تھی۔

بیبرس، جس کے لہجے میں اب شک کی ہلکی سی تپش تھی، دھیرے سے بولا: "سلطانِ معظم، ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ سفیروں کے قتل کا حکم، کیا وہ واقعی آپ نے دیا تھا؟"

قطز کا چہرہ سخت ہوگیا۔

چند لمحے وہ خاموش رہا، پھر دھیرے سے تخت کی پشت پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا: "ہاں، بیبرس۔ میں نے دیا اور مجھے اس پر فخر ہے"۔

"فخر؟" قالون کی آواز دبی تھی مگر تیز۔

"ہاں۔ کیونکہ ہم تاریخ کی سب سے بڑی فوج کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ صرف میدان میں نہیں، دلوں میں بھی اور اس کے لیے، منگولوں کو غصہ دلانا ضروری تھا۔ سفیروں کا قتل۔۔ دعوتِ جنگ تھا"۔

بیبرس خاموش رہا۔ قطز نے بات آگے بڑھائی: "منگولوں کا خان، منگے مر چکا ہے اور اس وقت ہلاکو واپس منگولیا جا چکا ہے، کورولتائی کے لیے۔ خاقانِ اعظم کے انتخاب کی مجلس میں شرکت کے لیے۔ بیشتر منگول فوج بھی اس کے ساتھ ہیں"۔

قالون نے آہستگی سے کہا۔

"تو کیا اب منگول حملہ روک دیں گے؟"

قطز نے سر نفی میں ہلایا۔

"نہیں۔ وہ رکیں گے نہیں اور رکنے کا خیال اگر ان کے ذہن میں تھا تو اب وہ رک سکتے نہیں۔ میں نے ان کی انہی جذبات کو جگایا ہے جن کے تحت وہ خوارزم پر چڑھ دوڑے تھے۔ لیکن ابھی وہ ادھورے ہیں، منتشر ہیں اور یہی وقت ہے انہیں شکست دینے کا۔ اگر ہم نے ابھی ان کو گھٹنے ٹکا دیے تو دنیا کو ان کے شکست خوردہ ہونے کا یقین ہو جائے گا اور یہ یقین، ہماری سب سے بڑی فتح ہوگی"۔

بیبرس نے آہستہ سے کہا: "ہم ایک طوفان کو بلا رہے ہیں، سلطان اور یہ طوفان کچھ نہیں چھوڑتا"۔

قطز نے گہرا سانس لیا۔ اس کی آنکھوں میں ماضی کی راکھ چمک رہی تھی۔

"میں جانتا ہوں، بیبرس۔ میں جانتا ہوں، میں نے خوارزم جلتے دیکھا ہے، میں نے اپنی ماں کو تاتاریوں کے گھوڑوں کے نیچے روندے جاتے دیکھا ہے۔ میں نے اپنے قبیلے کی گردنیں ان کے نیزوں پر لٹکتی دیکھی ہیں۔ میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ایک غلام بنا کر مجھے بازار میں بیچا گیا تھا اور اب، اب خدا نے مجھے تخت دیا ہے۔ تاکہ میں ان کے لیے وہ آخری بند بن جاؤں جو وہ کبھی عبور نہ کر سکیں"۔

بیبرس نے سر ہلایا۔

"پھر ہمیں ایسا وار کرنا ہوگا، جو تاتاریوں کے دل پر نقش ہو جائے"۔

قالون کی آنکھوں میں پہلی بار اطمینان کی ایک جھلک ابھری۔

قطز نے نظریں آسمان کی سمت اٹھائیں، جیسے دعا مانگ رہا ہو اور آہستہ سے بولا: "اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو دکھائیں، کہ ہم وہ تھے جنہوں نے خوف کے دیوتا کو زمین پر پٹخا تھا"۔

محمد اشتیاق

Muhammad Ishtiaq

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔