1. ہوم
  2. کالمز
  3. حسنین نثار
  4. برداشت اور رواداری، کامیابی کی کنجی

برداشت اور رواداری، کامیابی کی کنجی

ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، وہاں عدم برداشت اور نفرت کا زہر اس قدر پھیل چکا ہے کہ انسانیت دم توڑتی محسوس ہوتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے اختلافات ہمیں دوریوں کی انتہا تک لے جا رہے ہیں اور رواداری جیسا عظیم وصف کہیں کھو گیا ہے۔ ہم اپنی بات کو حق سمجھ کر دوسروں کی رائے کو رد کر دیتے ہیں، حالانکہ اگر تھوڑا سا تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا جائے تو کئی جھگڑے جنم لینے سے پہلے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔

رواداری دراصل ایک ایسا جذبہ ہے جو معاشرتی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے۔ یہ دوسروں کے نظریات، عقائد اور رویوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ایک مہذب اور پرامن معاشرے کی بنیاد اسی وقت رکھی جا سکتی ہے جب ہم دوسروں کے اختلاف کو دشمنی نہ سمجھیں بلکہ اختلاف کو حسن کا ذریعہ جانیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں برداشت کی بجائے انا، ضد اور غصہ راج کر رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مسائل پر لڑائیاں، معمولی سی بات پر تعلقات کا ٹوٹ جانا اور اپنی رائے کو حرف آخر سمجھنا ہماری اخلاقی گراوٹ کی واضح علامت ہے۔

رواداری کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ اپنی شناخت یا اصولوں سے پیچھے ہٹ جائیں، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ دوسروں کو بھی ان کے نظریات اور زندگی گزارنے کے حق کے ساتھ قبول کریں۔ قرآن مجید اور سیرت النبیﷺ میں بھی اس وصف کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ نبی کریمﷺ نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف کیا اور ایسے لوگوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا جنہوں نے آپ کو ایذائیں دیں۔ یہی رواداری اور برداشت کا وہ روشن چراغ ہے جو اگر آج بھی جلایا جائے تو ہمارے دلوں سے نفرت کے اندھیرے مٹ سکتے ہیں۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ معمولی سیاسی اختلافات خاندانوں کو توڑ رہے ہیں۔ مذہبی فرقوں کے تعصبات نے ایک دوسرے کے لیے دلوں میں سختی بھر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر اختلاف رائے کے بجائے گالم گلوچ اور نفرت انگیزی عام ہو چکی ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر یہ معاشرہ کس طرف جا رہا ہے؟ کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ دوسروں کو برداشت کرنا ہی اصل اخلاقیات ہے؟

اگر ہم اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ وہ دوسروں کے لیے نرمی، ہمدردی اور برداشت کا مظاہرہ کریں تو آنے والی نسلیں زیادہ پرامن اور محبت بھرا معاشرہ تشکیل دے سکتی ہیں۔ برداشت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے، چھوٹے چھوٹے تنازعات پر صبر اور تحمل سے کام لینا ہی بڑے مسائل کا حل ہے۔ ہمیں اپنے دلوں میں یہ حوصلہ پیدا کرنا ہوگا کہ کسی کی سخت بات سن کر بھی مسکرا سکیں اور اپنی ذات کو انا اور غصے سے پاک کر سکیں۔

رواداری کی کمی نہ صرف معاشرتی فساد کو جنم دیتی ہے بلکہ فرد کی ذہنی سکون کو بھی چھین لیتی ہے۔ جو شخص دوسروں کو معاف کرنا سیکھ لیتا ہے وہ خود بھی زیادہ پرسکون اور خوشحال زندگی گزارتا ہے۔ تحمل اور نرمی ہمارے دلوں کو کشادہ کرتی ہے اور دلوں کو جوڑتی ہے۔ نفرت توڑتی ہے جبکہ محبت جوڑتی ہے۔ یہ محبت اسی وقت پیدا ہوگی جب ہم دوسروں کی رائے کو سننا سیکھیں گے، اختلاف کو برداشت کریں گے اور اپنے رویوں میں نرمی پیدا کریں گے۔

آخر میں، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ برداشت اور رواداری ہی وہ خوبیاں ہیں جو معاشرتی امن کی ضمانت دیتی ہیں۔ اگر ہم آج اپنے رویے درست نہ کریں تو کل ہمارے بچے بھی اسی نفرت اور شدت پسندی کے ماحول کا شکار ہوں گے۔ ہمیں ایک دوسرے کو گلے لگانا ہوگا، دلوں کے فاصلے مٹانے ہوں گے اور محبت و بھائی چارے کے بیج بونا ہوں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں بطور قوم ترقی کی طرف لے جائے گا اور دنیا کو بتائے گا کہ ہم ایک پرامن اور مہذب معاشرہ ہیں۔