1. ہوم
  2. کالمز
  3. حسنین نثار
  4. صفا و مروہ کی داستان

صفا و مروہ کی داستان

مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین پر واقع آبِ زمزم ایک ایسا معجزاتی چشمہ ہے جس کی کہانی ایمان، صبر اور اللہ پر توکل کی ایک زندہ مثال ہے۔ یہ پانی، جو آج بھی لاکھوں زائرین کی پیاس بجھاتا ہے، درحقیقت حضرت ابراہیمؑ، حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور ننھے حضرت اسماعیلؑ کی قربانیوں اور دعاؤں کا صلہ ہے۔ اس چشمے کا ظہور محض ایک اتفاق نہیں تھا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی براہ راست رحمت اور قدرت کا مظاہرہ ہے، جو آج بھی جاری و ساری ہے۔

کہانی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب اللہ کے حکم پر حضرت ابراہیمؑ اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور شیرخوار بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو بے آب و گیاہ وادی مکہ میں چھوڑ کر واپس روانہ ہو جاتے ہیں۔ اس وقت مکہ میں نہ کوئی آبادی تھی، نہ پانی کا کوئی ذریعہ۔ ایک سنسان اور گرم صحرا، جہاں انسان کا بس ٹھہرنا بھی محال ہو۔ مگر حضرت ابراہیمؑ اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر چکے تھے اور حضرت ہاجرہ بھی مکمل طور پر اللہ پر بھروسہ رکھتی تھیں۔ جب انہوں نے حضرت ابراہیمؑ سے بار بار پوچھا کہ کیا ہمیں یہاں چھوڑنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اور جواب اثبات میں پایا تو انہوں نے صبر اور یقین کی اعلیٰ مثال قائم کر دی۔

وقت گزرتا گیا، پانی کی تھوڑی سی مقدار جو ساتھ تھی ختم ہوگئی۔ حضرت اسماعیلؑ شدتِ پیاس سے بے چین ہو گئے۔ ایک ماں کی مامتا تڑپ اٹھی۔ حضرت ہاجرہ بے قراری سے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑنے لگیں۔ وہ ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی تک سات چکر لگاتی رہیں، شاید کہیں پانی کا کوئی چشمہ پھوٹ پڑے یا کوئی قافلہ نظر آ جائے۔ یہ دوڑ آج بھی مناسکِ حج کا اہم حصہ ہے جسے "سعی" کہا جاتا ہے۔

اللہ کی رحمت جوش میں آئی۔ حضرت اسماعیلؑ نے زمین پر ایڑیاں رگڑیں اور اسی جگہ سے ایک پانی کا چشمہ ابلنے لگا۔ حضرت ہاجرہ نے اس پانی کو ہاتھوں سے سمیٹنا شروع کیا اور "زم زم" کہنے لگیں، یعنی "رک جا، رک جا" تاکہ پانی ضائع نہ ہو۔ یوں اس مقدس پانی کا نام "زمزم" پڑ گیا۔

آبِ زمزم کی حقیقت صرف ایک پانی کا نکل آنا نہیں ہے بلکہ یہ ایمان، دعا، کوشش اور اللہ پر یقین کا زندہ ثبوت ہے۔ حضرت ہاجرہ کی جدوجہد اور اللہ کی رحمت کا ملاپ آج بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کو گرما دیتا ہے۔ آبِ زمزم کا چشمہ صدیوں سے اسی طرح جاری ہے، بغیر کسی بیرونی ذریعے کے۔ جدید سائنسی تحقیقات بھی اس کے مسلسل جاری رہنے کو ایک عجوبہ قرار دیتی ہیں۔

آبِ زمزم کو مختلف معجزاتی خواص بھی حاصل ہیں۔ روایات کے مطابق یہ پانی نہ صرف جسمانی پیاس بجھاتا ہے بلکہ روحانی تسکین بھی دیتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ آبِ زمزم ہر اس مقصد کے لیے مفید ہے جس کے لیے پیا جائے۔ اگر کوئی پیاس بجھانے کے لیے پیتا ہے تو پیاس بجھتی ہے، شفا کے لیے پیتا ہے تو شفا نصیب ہوتی ہے اور اگر دل میں کوئی دعا ہو تو اللہ اس کو قبول فرماتا ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ آبِ زمزم کے چشمے کے اردگرد رفتہ رفتہ قبیلہ جرہم آباد ہوا۔ حضرت ہاجرہ نے ان کے ساتھ پانی کا معاہدہ کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مقام ایک چھوٹے سے بستی میں تبدیل ہوگیا جو بعد میں مکہ مکرمہ کی بنیاد بنی۔ کعبہ، جسے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے اللہ کے حکم سے تعمیر کیا، اسی مقام کے قریب واقع ہے جہاں آبِ زمزم بہتا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ مکہ کی آبادی اور خانہ کعبہ کی رونق میں آبِ زمزم کا بنیادی کردار ہے۔

وقت کے ساتھ، آبِ زمزم کی کہانی نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ کبھی یہ کنواں بند ہوگیا، کبھی اس پر حملے ہوئے، مگر اللہ نے ہر دور میں ایسے لوگوں کو پیدا کیا جنہوں نے اس چشمے کو دوبارہ کھولا اور سنبھالا۔ خاص طور پر عبدالمطلب، نبی کریم ﷺ کے دادا نے ایک خواب کی روشنی میں آبِ زمزم کو دوبارہ دریافت کیا۔ انہوں نے اس کی کھدائی کرکے اسے دوبارہ لوگوں کے لیے جاری کیا اور یوں آبِ زمزم کی روشنی ایک مرتبہ پھر چمک اٹھی۔

آج بھی آبِ زمزم کا کنواں خانہ کعبہ کے نزدیک واقع ہے۔ جدید نظام کے تحت اسے انتہائی صاف ستھری صورت میں حجاج اور زائرین تک پہنچایا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے حاجی اور عمرہ زائر اس مبارک پانی کو اپنے ساتھ وطن لے کر جاتے ہیں، اسے عقیدت اور محبت سے محفوظ رکھتے ہیں اور مختلف بیماریوں یا روحانی مسائل کے علاج کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

آبِ زمزم کی خصوصیات میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کا ذائقہ مخصوص ہے، یہ کبھی خراب نہیں ہوتا اور اس میں شفا ہے۔ سائنسی تجزیے سے بھی معلوم ہوا ہے کہ اس پانی میں قدرتی معدنیات کی ایک ایسی ترکیب موجود ہے جو اسے دوسرے تمام پانیوں سے ممتاز بناتی ہے۔ مگر اصل عظمت اس پانی کی روحانی حیثیت میں ہے، جو صدیوں سے قلوبِ مومنہ کو سیراب کر رہی ہے۔

آبِ زمزم کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو کبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا۔ انسان کو دعا اور جدوجہد دونوں کرنی چاہیے، جیسا کہ حضرت ہاجرہ نے کیا۔ نہ صرف دعا کی بلکہ عملی کوشش بھی کی۔ اللہ کو یہی روش پسند ہے کہ بندہ کوشش کرے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔ آبِ زمزم کے بہنے کا معجزہ اسی کوشش اور اللہ پر توکل کا انعام ہے۔

یہ پانی محض ایک تاریخی داستان نہیں بلکہ ہر دور کے انسان کے لیے ایک تازہ پیغام ہے۔ ایمان، صبر، قربانی اور ربِ کائنات پر مکمل اعتماد کا پیام۔ آج جب کوئی آبِ زمزم کا گھونٹ پیتا ہے، تو گویا وہ نہ صرف اپنی جسمانی پیاس بجھا رہا ہوتا ہے بلکہ روحانی طور پر حضرت ہاجرہ کی اس بے مثال قربانی اور اللہ کی بے پایاں رحمت کو اپنی روح میں جذب کر رہا ہوتا ہے۔

مکہ مکرمہ کی فضاؤں میں گونجتی ہوئی اذانیں، خانہ کعبہ کے گرد گھومتے ہوئے پروانے اور آبِ زمزم کے ساتھ منسلک یہ کہانی سب مل کر ایک ایسی روحانی فضا تشکیل دیتے ہیں جہاں دل خودبخود جھک جاتا ہے۔ اللہ کی قدرت، اس کے کرم اور بندے کی دعا و کوشش کے حسین امتزاج کی ایک لازوال تصویر آبِ زمزم کی صورت میں آج بھی قائم ہے اور تا قیامت قائم رہے گی۔