1. ہوم
  2. کالمز
  3. حسنین نثار
  4. ماہ صفر المظفر

ماہ صفر المظفر

ماہِ صفر المظفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے، جو حرمت والے مہینے محرم کے بعد آتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں یہ مہینہ کئی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام الناس کی ایک بڑی تعداد اس مہینے کے بارے میں توہمات اور غلط عقائد میں مبتلا ہے۔ بعض لوگ اسے نحوست کا مہینہ قرار دیتے ہیں، کچھ لوگ شادی بیاہ یا کاروبار شروع کرنے سے گریز کرتے ہیں، یہاں تک کہ بعض علاقوں میں لوگ گھروں سے نکلنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات ان تمام توہمات اور خود ساختہ نظریات کو سختی سے رد کرتی ہیں۔

دینِ اسلام نے انسان کو فطری سوچ، علم، شعور اور توکل علی اللہ کے ساتھ زندگی گزارنے کا درس دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینے بنائے اور ان میں سے چار کو "حرمت والے مہینے" قرار دیا، لیکن کسی بھی مہینے کو نحوست کا مہینہ قرار نہیں دیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے، اللہ کے حکم سے جب سے اُس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں" (سورۃ التوبہ: 36)۔

ماہِ صفر کے بارے میں خاص طور پر نبی کریم ﷺ کی احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ اس مہینے میں نحوست کا کوئی تصور نہیں۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"لا عدویٰ، ولا طیرہ، ولا ھامۃ، ولا صفر"

(یعنی: نہ کوئی بیماری متعدی ہے بغیر اللہ کے اذن کے، نہ کوئی بدشگونی ہے، نہ کوئی اُلو کی نحوست ہے اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے)۔

اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ جاہلیت کے دور میں جو تصورات تھے کہ صفر کا مہینہ منحوس ہے یا اس میں بلائیں نازل ہوتی ہیں، اسلام نے ان سب کی نفی کی۔ مگر افسوس کہ زمانۂ جاہلیت کے یہ تصورات آج بھی ہمارے معاشرے میں رائج ہیں۔ اگر کسی شخص کو ماہِ صفر میں کوئی پریشانی یا بیماری لاحق ہو جائے تو اسے فطری حادثہ سمجھنا چاہیے، نہ کہ اس مہینے کی "بدفالی" یا "نحوست"۔

ماہِ صفر میں کوئی خاص عبادت، روزہ یا مخصوص دعا نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ اس لیے نہ اس مہینے کو منحوس سمجھنے کی گنجائش ہے، نہ ہی کوئی خاص عمل دین کا حصہ ہے۔ البتہ، عام عبادات جیسے نفل نماز، تلاوت قرآن، اذکار، صدقہ و خیرات، درود شریف، صلہ رحمی اور نیکی کے دیگر کام پورے سال کی طرح اس مہینے میں بھی کیے جا سکتے ہیں بلکہ کرنا چاہییں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض لوگ "چالیس دن کی بلائیں" یا "صفر کے آخری بدھ" کا ذکر کرتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں صفر کے آخری بدھ کو خوشی یا عید کے طور پر منایا جاتا ہے، جبکہ کچھ اسے نحوست کا دن سمجھ کر گھروں میں بند رہتے ہیں۔ یاد رکھیں، یہ دونوں عقائد اور اعمال اسلامی شریعت سے ثابت نہیں، بلکہ بدعات اور خرافات کا حصہ ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے نہ کبھی صفر کے مہینے کو عید قرار دیا، نہ کوئی خاص بدھ کا دن منایا، نہ ہی اس مہینے سے ڈر کر کوئی عمل ترک کیا۔

اصل نکتہ یہی ہے کہ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ہم ہر چیز کا معیار قرآن و سنت کو بنائیں۔ اگر کوئی چیز قرآن و حدیث سے ثابت نہ ہو، تو چاہے وہ کتنی ہی مقبول کیوں نہ ہو، اسے دین کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج بھی بہت سے خطباء اور واعظین اس مہینے کے بارے میں عجیب و غریب واقعات اور کہانیاں بیان کرتے ہیں، جن کا نہ کوئی ثبوت ہوتا ہے، نہ علمی بنیاد۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے عقائد کی اصلاح کریں۔ معاشرے میں موجود ان توہمات اور بدعات کو چیلنج کریں اور اپنے گھروں میں بچوں کو شروع سے ہی اسلامی تعلیمات کے مطابق سمجھائیں کہ مہینے، دن، تاریخ یا وقت خود بخود منحوس نہیں ہوتے۔ بلکہ ہر شے اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے چلتی ہے۔ اگر کوئی نقصان ہو بھی جائے، تو وہ اللہ کی طرف سے امتحان ہو سکتا ہے، یا انسان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ۔ نہ کہ کسی مہینے کی نحوست۔

مسلمان کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ ہر دن، ہر لمحہ اور ہر مہینہ اللہ کا پیدا کردہ ہے۔ اللہ نے کسی بھی مہینے کو منحوس نہیں بنایا اور نبی ﷺ کی زندگی اس کی واضح دلیل ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ کو اسلام کے اصل پیغام کے مطابق ڈھال لیں، تو نہ صرف ہم خود توہم پرستی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی صحیح عقیدہ دے سکتے ہیں۔

آخر میں، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جو قومیں علم اور توکل پر چلتی ہیں، وہی دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتی ہیں اور جو قومیں خرافات اور جاہلانہ تصورات میں الجھتی ہیں، وہ نہ صرف دنیا میں پیچھے رہ جاتی ہیں بلکہ آخرت کی فلاح سے بھی محروم ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ہر قسم کی بدعات، خرافات اور بے بنیاد عقائد سے محفوظ رکھے۔