پہلے یہ سمجھا کہ زندگی صرف لفظوں کی بازی ہے۔ قلم چلا لو، زبان کا جادو جگا لو اور بس زندگی ہوگئی مکمل۔ مگر پھر ایک دن زندگی نے جواب دیا، خاموشی سے، مگر پوری شدت سے۔ وہ دن میرے لیے بھی کم دھچکہ خیز نہ تھا جب میری HbA1c رپورٹ 8 کے ہندسے کو چھو رہی تھی۔ نہ میں کوئی شوقین مٹھائی خور تھا، نہ میرا شوق چاکلیٹ تھا، لیکن ایک چیز ضرور تھی، سٹریس!
ذہنی دباؤ، ناکامیاں، خاندانی مسائل اور غموں کے وہ سائے جو برسوں میرے گرد سایہ فگن رہے، آخرکار میرے جسم کی اندرونی مشینری کو بھی تھکا چکے تھے۔ لوگ اکثر پوچھتے ہیں، "شوگر کیوں ہوئی؟"
تو جواب یہ ہے کہ صرف چینی ہی نہیں، زندگی کی کڑواہٹیں بھی انسان کو میٹھا مریض بنا دیتی ہیں۔
رپورٹ میرے ہاتھ میں تھی اور نمبر تھے8، HbA1c۔
ڈاکٹر نے کہا، "آپ شوگر کے مریض ہیں"۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا، "ارے بابا! میں تو میٹھا آدمی ہوں، کڑوا کیسے ہو سکتا ہوں؟"
لیکن اصل کڑواہٹ وہ تھی جو دل میں جمع ہو چکی تھی۔
غموں کی ایک لمبی قطار، زندگی کے فیصلے، رشتوں کے زخم، کچھ اندر کے خلا، کچھ باہر کی جنگیں، سب کچھ جمع ہو کر میرے خون میں شکر بن گئے تھے۔
ہنسی مذاق کا لبادہ پہن کر جینے والا شخص اندر ہی اندر گھل رہا تھا اور جسم کہہ رہا تھا: "بس، اب نہیں مزید"۔
یہ شوگر مجھے چینی نے نہیں دی، سٹریس نے دی، تنہائی نے دی اور وہ اندر کے کٹے پھٹے رشتے جو بولتے نہیں، صرف چبھتے ہیں۔
سوچا تھا صرف لفظوں سے نظام بدل سکتا ہوں، لیکن یہ بات تب سمجھ آئی جب اپنا ہی نظام بگڑ چکا تھا اور جب کوئی آپ کو بتائے کہ آپ دائمی مریض ہو چکے ہیں، تو خود سے بڑا سوال کوئی نہیں رہتا: کیا میں ختم ہو رہا ہوں؟
نہیں، میں ختم نہیں ہونا چاہتا تھا۔
اسی دن فیصلہ کیا کہ اب میں صرف کالم نہیں لکھوں گا، اپنی زندگی کا پیراگراف خود ترتیب دوں گا۔
چینی کو خیرباد کہا۔ وہی چینی جو کبھی چائے کا زیور تھی، اب زہر تھی۔
آلو، چاول، بازار کی خوشبوؤں سے پرہیز اور گھر کی سادہ، کم نمک، کم چکنائی والی زندگی کو گلے لگا لیا۔
کریلا، پالک، دال، جو، جن پر پہلے طنز کرتا تھا، اب وہی میری پلیٹ کا غرور بن گئے۔
صبح کی واک، شام کا سکون، نیند کی ترتیب اور دعاؤں کا سہارا، یہ سب میری دوا بنے۔
سب سے مشکل کام یہ تھا کہ خود کو خود پر یقین دلاؤں کہ میں کمزور نہیں ہوں۔
اور یہ یقین تب آیا جب جسم نے خود کہنا شروع کیا: "شکریہ کہ تم نے مجھے وقت پر سن لیا"۔
تین مہینے بعد رپورٹ آئی۔
HbA1c، 6.1
ڈاکٹر نے کہا: "اب آپ پری ڈائبٹک کی کیٹیگری میں ہیں"۔
میں نے مسکرا کر کہا:
پری ڈائبٹک؟ نہیں ڈاکٹر صاحب، یہ تو زندگی کی پوسٹ واپسی ہے۔
یہ کوئی جادو نہیں تھا۔ نہ کوئی نایاب دوا، نہ کوئی باہر کا علاج۔
بس سادہ سی بات: اپنے آپ سے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا تھا۔
اب جب شوگر کی بات آتی ہے تو میں صرف ایک بات کہتا ہوں: شوگر کا علاج چینی چھوڑنا نہیں، خود پر رحم کرنا ہے۔
خود کو وقت دینا، خود کو معاف کرنا اور خود کو سنبھالنا، یہی میرا علاج بنا اور آج جب کوئی مجھ سے پوچھتا ہے، "کیا شوگر سے بچا جا سکتا ہے؟"
تو میں جواب دیتا ہوں: جی ہاں، اگر آپ سچ سننے اور سچ ماننے کی ہمت رکھتے ہوں۔