حضرت عثمان بن عفانؓ، جنہیں "ذوالنورین" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، رسول اکرم ﷺ کے نہایت قریبی اور محبوب صحابی تھے۔ ان کی زندگی ایثار، سخاوت، حیاء اور جمال کا حسین امتزاج تھی۔ ان کی شخصیت نہ صرف ظاہری حسن سے آراستہ تھی بلکہ باطنی خوبیوں سے بھی مالا مال تھی۔ ان کی سخاوت کا عالم یہ تھا کہ وہ ہمیشہ امت مسلمہ کی ضرورتوں کو اپنی ذاتی دولت سے پورا کرتے اور اس میں کبھی کوئی کمی یا تردد نہ آتا۔
حضرت عثمانؓ کا شمار عرب کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا، مگر انہوں نے اپنی دولت کو دنیاوی جاہ و جلال کے لیے نہیں بلکہ دینِ اسلام کے لیے وقف کیا۔ غزوہ تبوک کے موقع پر جب مسلمانوں کو مالی مدد کی اشد ضرورت تھی تو حضرت عثمانؓ نے ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور بے شمار سونا و چاندی عطیہ دیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر فرمایا: "آج کے بعد عثمان کو جو بھی کرے، کوئی نقصان نہیں ہوگا"۔ یہ الفاظ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کی سخاوت اللہ اور اس کے رسولﷺ کو کس قدر پسند آئی۔
ایک اور معروف واقعہ میں، جب مدینہ منورہ میں پانی کا شدید بحران پیدا ہوا اور لوگوں کو پینے کے لیے میٹھا پانی دستیاب نہ تھا، تو حضرت عثمانؓ نے "بئرِ رومہ" نامی کنواں اپنے ذاتی مال سے خرید کر عام مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔ اس وقت یہ کنواں ایک یہودی کی ملکیت تھا جو پانی بیچتا تھا، مگر حضرت عثمانؓ نے بھاری قیمت ادا کرکے اسے خرید لیا تاکہ اہل مدینہ بغیر قیمت کے پانی حاصل کر سکیں۔
حضرت عثمانؓ کی ظاہری خوبصورتی بھی حیرت انگیز تھی۔ آپؓ کا چہرہ روشن، رنگت گندمی مائل سفید، داڑھی گھنی اور جسم متناسب تھا۔ آپؓ کو دیکھ کر لوگ متاثر ہوتے اور آپ کی شخصیت میں ایک روحانی کشش محسوس کرتے۔ ان کی حیاء اس قدر نمایاں تھی کہ نبی کریم ﷺ نے خود فرمایا کہ "عثمان سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔ " ان کی یہ صفت معاشرتی زندگی میں بھی نظر آتی تھی۔ آپ کی زبان میں نرمی، نگاہوں میں جھکاؤ اور طبیعت میں وقار نمایاں تھا۔
حضرت عثمانؓ نہ صرف ایک سخی اور خوبرو شخصیت کے مالک تھے بلکہ ان کا دل قرآن سے بھی گہرا تعلق رکھتا تھا۔ آپ نے قرآن مجید کی کئی نقول تیار کروائیں اور مختلف اسلامی علاقوں میں بھجوائیں تاکہ امت مسلمہ قرآن کے ایک ہی متن پر متحد رہے۔ آپؓ کی یہی کاوش بعد ازاں "جمعِ قرآن" کے عنوان سے تاریخ کا ایک سنہرا باب بنی۔
ان کی شہادت ایک المناک سانحہ تھی، جب ایک گروہ نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا اور بالآخر انہیں حالت روزہ میں قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیا۔ اس موقع پر بھی انہوں نے مسلمانوں کے درمیان خونریزی سے بچنے کے لیے جنگ سے انکار کر دیا۔ ان کی شہادت نے ان کے خلوص، صبر اور قربانی کو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔
حضرت عثمان غنیؓ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دولت کا اصل مصرف دین اور انسانیت کی خدمت ہے اور خوبصورتی صرف چہرے کی نہیں بلکہ اخلاق، حیاء اور کردار کی ہوتی ہے۔ ان کی شخصیت ہر اس فرد کے لیے مشعل راہ ہے جو دنیا میں دین کی روشنی پھیلانے کا خواہشمند ہو۔