1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نجم الثاقب/
  4. کرپشن کا ناسور، پولیس اور عد ا لتی امور

کرپشن کا ناسور، پولیس اور عد ا لتی امور

کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جس کی جڑیں ترقی پذیر ممالک کی طرح اب ترقی یافتہ ممالک میں بھی پروان چڑھ چکی ہیں۔ کرپشن کا لفظ ہر زبان ملک اور معاشرے کے اندر منفی معنی میں آتا ہے۔ اس موذی مرض نے پاکستان کی سماجی، معاشی اور روحانی زندگی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ معاشر ہ میں پیدا ہونے والے بگاڑ، بد امنی اور برائی کے خاتمہ کا انحصار ہمیشہ اخلاقی و معاشرتی اقدار پرمنحصر ہوتا ہے۔ جن اقوام میں اخلاقیات ختم ہو جائیں اس معاشرہ کے اندر حقوق و فرائض نام کی کوئی چیز سلامت نہیں رہتی ہے۔ پاکستان میں کرپشن کی انڈسٹری بہت ہی منظم طور پر کام کر رہی ہے۔ دوسرے سرکاری اداروں کے ساتھ پولیس، کچہری و کورٹ اور قانون کے محافظ اداروں کے اندر رشوت، سفارش، اختیارات کاناجائز استعمال، ذاتی مفاد اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ سرکار کے ان خدمت گزاروں کو کسی کا ڈر و خوف نہیں ہے۔ ان کے علم میں ہے کہ شہریوں کی شکایت کا ازالہ اور داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔ پاکستان میں احتساب کے نام پر صرف مک مکا اور مفا ہمتی پالیسی کا اصول لاگو ہے۔ نیب اور احتساب سیل کے اندر کسی کی کرپشن پکڑ ی جائے تو اس کو بھی نیب اور احتساب سیل کے اختیارات کے کرپٹ اصولوں کی کر پشن سے دبا دیاجاتا ہے۔

کچھ سالوں پہلے مجھے کیس کے سلسلے میں راولپنڈی کچہر ی درجہ اول، دوئم مجسٹریٹ کے کورٹس میں تقریبا چار ماہ حاضر ہونا پڑا۔ میں نظام عدل کا سسٹم دیکھ کر شش و پنج میں پڑ گیا۔ یہاں شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وکلاء حضرات کی ہڑتالیں، عدالتوں کا بائیکاٹ، لاء چیمبرز کے مطالبات، وکلاء حقوق کے کنویشن کا آئے روز شور رہتا ہے۔ قانون کے محافظ بخوبی انصاف کی قدر جانتے ہیں مگرشایدان کو شہریوں کی غربت، مفلسی، اور بے بسی پہ رحم نہیں آتا۔ مدعی، ملزم، اور گواہ سے ان کی رو داد سن کر قانون و انصاف کی قلعی پوری طرح کھل کر سامنے آ گئی۔ شہری اپنی مجبوریاں بیچ کر انصاف کی تلاش میں مدتوں عدالتوں کا چکرکاٹتے ہیں۔ انصاف کے حصول کی تلاش میں عرصہ دراز سے کیسز زیر سماعت رہتے ہیں۔ عدالتوں میں کیسز کا ایک عدالت سے دوسری عدالت میں ٹرانسفر ہونا، کیس کی تیاری، و کلاء کی تبدیلی ہونایہ روٹین کے عمل ہیں جس سے شہر یوں کا قیمتی وقت، پیسہ کے ساتھ انصاف کے اوپر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔

جوڈیشنل سسٹم/ عدالتی نظام کے اندر بڑی حد تک سسٹم / مشینری کرپشن کی چھتری کے نیچے چل رہی ہے۔ مجرم کو مجرم ثابت کرنے کے لئے سب سے بڑا رول انوسٹی گیشن اداروں کا ہے۔ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر کیس کو میرٹ کے مطابق انوسٹی گیٹ کرے اور سچائی کا پتا چلا نے کے بعد کیس کو قانون میں درج قواعد کی روشنی میں فائل کرے۔ پولیس بھی ہم میں سے ہے وہ بھی اس کرپٹ نظام کاحصہ ہے جس میں ہم زندہ ہیں۔ سیا سی اثرورسوخ، سفارش، رشوت ذاتی مفادات کی ترجیحات یہ وہ تمام کرپشن کے عناصر ہیں جنہو ں نے آئین و قانون کی دھجیاں بکھر کر رکھ دی۔ مدعی کی درخواست کو اندراج کرنے سے پہلے پولیس اچھی طرح چھان بین کرتی ہے کہ کیس کے اندراج کے بعد ان کو سینئر یا ہائی اتھارٹی سے ذلت و رسوائی کے ساتھ ساتھ کورٹ کے سامنے بھی کسی قسم کی پریشانی نہ اٹھانا پڑے:

1) مدعی کا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق یاواسطہ ہے؟

2) حکومتی شخصیت، فرد یا ادارے کے سربراہ کے ساتھ مراسم ہیں؟

3) مدعی کی مالی پوزیشن کیسی ہے؟

4) مدعی کا کسی جرائم پیشہ گروہ سے تعلق رکھتا ہے؟

مدعی تمام خوبیوں سے پاک ہو تو نامزد پارٹی سے رابطہ کیا جاتا ہے ان کو بھی اسی زاویے سے پرکھنے کے بعد کیس کا اندراج شروع ہوتا ہے۔ جس پارٹی کا پلڑا بھاری ہو کیس کا اندراج اس کے حق میں ہوتا ہے۔ کمزور پارٹی کو ڈرا دھمکا کر درخواست واپس لینے پرمجبور کیا جاتا ہے یا کیس کو اتنا کمزور اور لاغر بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دو پیشی میں ہی ختم ہو جا تا ہے۔ پولیس کے محکمہ کے اندر بڑے پیمانے پر سرجری کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ تمام کالی بھیڑیں جن کی وجہ پورے محکمہ کو ذلت و رسوائی اٹھانی پڑتی ہے ان کا خاتمہ ہو سکے۔ شہریوں کا اعتماد ا ن پر ا س قدر گر چکا ہے شہری جرائم ہونے کے بعد تھانے میں پولیس کے سامنے رپورٹ نہیں درج کرواتے کیونکہ شہری وہ جانتے ہیں اس سے کچھ حاصل وصول نہیں۔ الٹا اپنا وقت، پیسہ برباد کرنے کے ساتھ نئی پریشانی میں مبتلا ہو نا پڑے گا۔

کیس کے اندراج کے بعد مجرم کی گرفتاری عمل میں لائی جا تی ہے، پولیس اور انوسٹی گیشن اپنی تفتیش، گواہ اور مجرم کے بیان کے ریکارڈ کو عدالت کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ ہر مدعی اور ملزم کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے کیس کیلئے ا یسے وکلاء حضرات کوچنا جائے جس کا نام، قد اور شہرت کے ساتھ ساتھ اس کے اچھے تعلقات کی بھی باز گشت ہو۔ یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ مدعی ملزم کو سزا دینے کے لئے اور ملز م خود کو سزا سے بچنے کے لئے وکلاء حضرات کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ ہر کیس کے اندر ملزم کو مجرم اور مجرم کو رام کرنے کے لئے قانون کے رکھوالے ہی ایسی تشریحات، بیانات اور تحریریں سمجھاتے ہیں جس سے پورے کیس کی کہانی اور مفہوم ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ عدالت کے سامنے کیس کی سماعت سے کاروائی کا آغاز ہوتا ہے دونوں اطراف کے وکلاء اپنے دلائل دیتے ہیں جس کی بناء پر سزا و جزا کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ججز قانون کی عینک پہن کر ہر زاویہ سے کیس کا جائز ہ لیتے ہیں۔ آپ نے بچپن کی کئی کہانیوں میں پڑھا ہوگا کہ انصاف کے لئے عینک اور شیشہ کا نمبر دونوں ٹھیک ہونا لازمی ہیں اس کے بغیر کوئی چیز صاف ستھری دکھا ئی نہیں دیتی۔ ہمارے عدالتی نظام کے اندر کرپشن کا ہونا کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

عدالت کے کورٹ میں منشی، چپڑاسی، ریڈر، یہ سب چھوٹے آلہ کار ہیں جو صبح سے شام تک اپنی ڈیوٹی میں بھرپور مصروف عمل نظر آتے ہیں یہ کچری، کورٹ اور عدالت کی چابیاں ہیں جن کے کنڑول میں تمام ریکاڈ ہوتا ہے شاید اس لئے شہری کو مجبوراً ان کو نذرانہ، تعاون، چائے اور پانی کی مد میں خدمت کرنی پڑتی ہے۔ تمام قانونی و عدالت کی تمام کاروائی، بیان کی نقل، فائل کی کاپیاں، کیس کی تاریخ، وقت کا تعین، عدالتی امور کے لئے ان کی مدد درکار ہوتی ہے۔ ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں میں جیسے طرح قائد اعظم کے اصولوں و فرمودات کے اوپر شدید کے ساتھ زور دیا جاتا ہے اسی طرح حقوق کے حصول کیلئے قائد کی ٹوپی والا کاغذہونا بہت حد ضروری ہے۔

ا قدام قتل، تاوان، دہشت گری، بھتہ خوری، زمین پر قبضہ، گھریلو نا چاقی، لین دین سمیت دیگر جرائم کے لئے ہر کیٹگری کے وکلاء حضرات کے چمبرز موجود ہیں جو صرف اپنی پریکٹس کو چمکانے کے لئے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرتے ہیں۔ ایک لمبی جدوجہد کے بعد یہی وکلاء حضرات قانون و انصاف کا حلف لینے کے بعد مختلف کورٹ میں جج لگ جاتے ہیں۔ ترقی کی منازل طے کرتے کرتے سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپنے فرائض منصبی انجام دیتے ہیں۔ وہ اپنے ماضی کی پریکٹس، تجربہ اور دانش وری کی بناء پر ہر کیس کی سچائی کو جانتے ہیں لیکن قانون کی طاقت و اختیار رکھنے کے باوجود قانونی قاعدوں اور نقطوں کے آگے بے بس ہوتے ہیں:

کیوں قول جھوٹ اور عہد ٹوٹ جاتے ہیں
خدمت خلق کے نعرہ پر حاکم لوٹ جاتے ہیں

 

ثاقب! سفاک انگیزی کا کیسا دُور دورا ہے
قانونی نقطوں میں مجرم چھوٹ جاتے ہیں

 

ہمارا مقصدعدالتی سسٹم اور پولیس قانون کا مذاق اڑنا نہیں بلکہ اس سسٹم میں کرپٹ اصولوں و روایتوں کے راستہ کو روکنا ہے اور ہم سب نے مل کر ٹھیک کرنا ہے۔ یہ دنیا عارضی ہے ہم سب کو مرنے کے بعد اللہ کے عدالت میں پیش ہونا ہے اس وقت کوئی سفارش اور اپروچ نہیں چلے گی۔ سزا و جزا کے فیصلے نیتوں اور اعمال کی بنیاد پر ہوگا۔ ابھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنے ضمیر کو جگائیں اور امانت داری، فرائض شناسی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو انجام دیں۔ توبہ کے دروازے اللہ کے حضور ہمہ وقت کھلے ہیں۔

نجم الثاقب

Najam Us Saqib

نجم الثاقب ایڈیٹر اخبارٹو ڈیٹ ہیں۔ وہ ایک اینکر، کالم نگار ، بلاگ  رائیٹر، مزاح نگار(پنجابی) اور شاعر(اردو) ہیں۔ سخن کدہ کے لئے خصوصی طور پہ لکھتے ہیں۔