1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. ”محبوب“ کی کمر سے مشابہ عباسی حکومت

”محبوب“ کی کمر سے مشابہ عباسی حکومت

وزارتِ خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد خواجہ آصف صاحب نے ”اپنے گھر کو ٹھیک“ کرنے والی بات کہی تو میں بہت حیران ہوا۔ ان کے مسلم لیگی حریف چودھری نثارعلی خان نے جب ان کی اس بات کو ”دشمن کی زبان“ کہا تو مگر میں پریشان ہوگیا۔ خدشہ محسوس ہوا کہ ا پنے منہ پھٹ رویے کی وجہ سے خواجہ صاحب ایمان کی دولت سے مالا مال اس طاقت ور گروہ کو اپنا دشمن بنالیں گے جو جذبہ حب الوطنی پر اجارے کا دعوے دار ہے۔ وہ گروہ آپ کا دشمن ہو جائے تو اقتدار ہی نہیں صحافت کے دھندے میں بھی اپنا وجود برقرار رکھنا تقریباََ ناممکن ہوجاتا ہے۔

خواجہ صاحب مگر اپنی بات پر ڈٹ گئے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے ان کی حمایت میں بیانات بھی دئیے۔ ان بیانات کے بعد مجھے خیال آیا کہ اپنے پیشرو کے برعکس، وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سے شاہد خاقان عباسی تواتر کےساتھ قومی سلامی کونسل کے اجلاس بلوارہے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ نے طویل انتظار کے بعد اس سال اگست میں اپنی ”نئی افغان پالیسی“ کا اعلان کیا تو اس کے بعد بھی اس کونسل کا ایک طویل اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس کے اختتام پر تین صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی بیان بھی جاری ہوا۔ اس بیان کی وجہ سے مجھ بے وقوف کو یہ گماں ہوا کہ سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین طویل مشاورت کے بعد ٹرمپ کی ”نئی افغان پالیسی“ کو ہینڈل کرنے کے لئے ایک جامع پالیسی بنالی گئی ہے۔ خواجہ آصف صاحب کے بیانات شاید اس پالیسی ہی کی ترجمانی کررہے ہیں۔

میری خوش فہمی کو مگر اس وقت بہت جھٹکا لگا جب کچھ ہفتے قبل خواجہ صاحب کی اپنے امریکی ہم منصب سے واشنگٹن میں پہلی ملاقات ہوئی۔ دو وزرائے خارجہ کے درمیان واشنگٹن میں کوئی ملاقات ہوتو عموماً اس کے بعد وہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک ہال میں انتظارکرتے صحافیوں کے روبرو آتے ہیں۔ کوئی مشترکہ بیان دیتے ہیںا ور دل چاہے تو ایک دو سوالات بھی لے لیتے ہیں۔

خواجہ آصف کی ریکس ٹیلرسن سے ملاقات کے بعد ایسا نہیں ہوا۔ پاکستانی وزیر خارجہ اپنے ہم منصب سے ملاقات کے بعد بلکہ ”باجو کی گلی سے نکل لئے“۔ ٹیلرسن البتہ صحافیوں کے سامنے ضرور آیا۔ اس سے پاکستانی وزیر خارجہ سے ملاقات کی بابت سوال ہوا تو بجائے کوئی ٹھوس جواب دینے کے اس نے پاکستان کی بقاءاور سلامتی کو درپیش ”دوررس خطرات“ کا ذکر چھیڑدیا۔ ان خطرات کا ذکر کرتے ہوئے اس نے تقریباً واضح الفاظ میں اس خدشے کا اظہار بھی کردیا کہ ”پاکستان کی (موجودہ) حکومت“ مستحکم نظرنہیں آرہی۔ خبر نہیں کتنے دن تک چلے۔

ٹیلرسن کے ان خیالات نے شاہد خاقان عباسی کی حکومت کے بارے میں”صبح گیا یا شام گیا“ والا ماحول بنادیا۔ پاکستان میں متقی، پرہیز گار اور اپنے اپنے شعبوں میں معجزے برپا کرنے والے ٹیکنوکریٹس حکومت کے قیام کا کئی مہینوں سے انتظار کرنے والے پُرامید لوگوں کی باچھیں کھل گئیں۔

عباسی حکومت مگر ابھی تک قائم ہے۔ اگرچہ اس کے بارے میں محبوب کی کمر والا عالم ہے جس کے بارے میں ہمارے شاعروں کو ہمیشہ شبہ رہا کہ ”کہیں ہے کہ نہیں ہے“۔ بہرحال، اس حکومت سے مذاکرات کرنے امریکی وزیر خارجہ چند روز قبل محض چار گھنٹوں کے لئے اسلام آباد بھی آیا تھا۔

نظر بظاہر چکلالہ کے فوجی اڈے پر لینڈ کرنے کے وہ سیدھا اسلام آباد کے وزیر اعظم ہاﺅس پہنچا۔ وہاں اس نے اپنے وفد کے ہمراہ وزیر اعظم کے ساتھ ایک لمبی میز پر بیٹھ کر گفتگو کی۔ شاہد خاقان عباسی کے دونوں اطراف پاک آرمی اور آئی ایس آئی کے چیف کے علاوہ وزرائے خارجہ اور داخلہ بھی بیٹھے نظر ا ٓئے۔ تاثر ہمیں یہ ملا کہ امریکی وزیر خارجہ سے الگ الگ ملاقاتوں کی بجائے ہماری عسکری اور سیاسی قیادت نے ایک ہی میز پر بیٹھ کر ہر معاملے پر کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ کو اس جامع پالیسی کے بارے میں بتایا گیا جو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے طویل سوچ بچار کے بعد مشترکہ طورپر اپنائی ہے۔ میرا دل خوش فہم اس تاثر کے بارے میں ایک بار پھر مطمئن اور شاداں ہوگیا۔

رنگ میں بھنگ مگر اس وقت ڈالی جب میرے چند ساتھیوں نے جو پیشہ ورانہ وجوہات کی بناءپر سفارت کاروں سے روابط رکھنے پر مجبور ہیں مجھے اطلاع یہ دی کہ امریکی وزیر خارجہ کی ہمارے آرمی چیف کے ساتھ وزیر اعظم ہاﺅس میں اکیلے میں بھی ایک ملاقات ہوئی۔ ایسی ملاقات کو سفارتی زبان میں Pull Aside ملاقات کہا جاتا ہے۔

مذکورہ ملاقات کی اب مختلف حوالوں سے تصدیق ہوچکی ہے مگر یہ طے نہیں ہوپارہا کہ امریکی وزیر خارجہ یا ہمارے آرمی چیف میں سے کس نے علیحدگی میں چند باتیں کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ بظاہر 20 سے 25 منٹ تک جاری رہی اس ملاقات میں ہوئی باتوں کے بارے میں بھی متضاد خبریں آرہی ہیں۔ ایک ریٹائرڈ رپورٹرہوتے ہوئے میرا ان ذرائع سے رابطہ نہیں جن کی بدولت میں ذاتی طورپر اعتماد کے ساتھ دعویٰ کرسکوں کہ درحقیقت اس ملاقات میں کس نے کیا بات کہی ہوگی۔

میرے لئے ایک بہت ہی معتبر شخص نے البتہ چند دن قبل مجھے ایک سرسری ملاقات میں بتایا ہے کہ اس کی پاکستان میں مقیم امریکی سفارت کاروں کے ساتھ ٹیلرسن کے دورئہ اسلام آباد کے بعد ایک ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں امریکی سفارت کاروں نے میرے ذرائع کو بتایا کہ ان کے وزیر خارجہ آرمی چیف کی باتوں سے کافی متاثر نظر آئے۔ جنرل باجوہ کے رویے کو بلکہ اس نے "Reasonable" پایا۔

خواجہ آصف کے رویے سے مگر وہ سفارت کار خفا نظر آئے۔ انہیں یہ شکوہ بھی تھا کہ امریکی وزیر خارجہ کے دورئہ پاکستان کے بارے میں سینٹ کے روبرو بیان دیتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے ”غیر سفارتی زبان“ استعمال کی۔ بدھ کے روز مگر خواجہ آصف صاحب نے سینٹ ہی کے روبرو ہماری خارجہ پالیسی کے بارے میں ایک اور بیان دے دیا ہے۔ اس بیان کے ذریعے انہوں نے ٹرمپ کی ”نئی افغان پالیسی“ کے پرخچے اڑادئیے ہیں جو بقول خواجہ آصف ”ان جرنیلوں نے تیار کی ہے“ جو افغانستان پر 16 سال سے مسلط جنگ کے باوجود اپنے ا ہداف حاصل نہ کرنے کی وجہ سے خود کو ”ہزیمت“ کا شکار ہوئے محسوس کررہے ہیں۔ مختصر ترین الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ خواجہ صاحب نے ”ہزیمت زدہ“ امریکی جرنیلوں کی اپنے مخصوص انداز میں خوب دھنائی کردی ہے۔

دیکھتے ہیں کہ خواجہ صاحب کے بدھ کے روز دئیے بیان کے بعد امریکی جنرل Mattis اپنے خیالات سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتا ہے یا نہیں۔ مجھے توخدشہ یہ بھی لاحق ہوگیا کہ ا گر امریکی صدر ٹرمپ تک خواجہ صاحب کے اس کی ”نئی افغان پالیسی“کے بارے میں خیالات پہنچ گئے تووہ طیش میں آکر جنرل Mattis ہی کو اس کے عہدے سے فارغ نہ کردے۔ ایسا ہوجائے تو ہمارے لئے بہتر ہے۔ وگرنہ خواجہ آصف صاحب کے بدھ کے روز سینٹ میں دئیے بیان کے بعد یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور امریکی مفاہمانہ نہیں مخاصمانہ سمتوں کی طرف چل پڑے ہیں۔